شمالی وزیرستان آپریشن میں پاک فوج کی کامیابی

مذاکرات ،مذاکرات کی رٹ لگانے والوں پر اب خاموشی کیوں طاری ہے جب دہشت گردوں نے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔مولانا سمیع الحق کی مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئیں،پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف نمٹنا چاہتی ہے،وطن عزیز کے دفاع کے لئے افواج پاکستان کی لازوال قربانیاں ہیں۔پاک فوج کے دستوں نے ہر محاذ پر ملک کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ اندرونی مسائل و خطرات سے بھی نمٹے۔ریاست مخالف تشدد اور ڈرون حملوں پر نظر رکھنے والے آزاد تحقیقاتی ادارے کانفلکٹ مانیٹرنگ سینٹر کے ڈائریکٹر عبداﷲ خان نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے وہاں جاری قبائلی جرگے کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ادارے رائٹرز کی اس رپورٹ کو حقائق کے منافی قرار دیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بدھ اور جمعرات کو ہونے والے ڈرون حملوں کی اجازت پاکستانی فوج نے دی تھی۔ رائٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے ردعمل میں کیے گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں تحریک طالبان پاکستان یا اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کو نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر حاجی گل اپنے دیگر اہم ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ حالیہ ڈرون حملے دو الگ الگ جگہوں پر نہیں کیے گئے جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے بلکہ شمالی وزیرستان میں غلام خان روڈ پر حقانی نیٹ ورک کے جنگجو ایک ٹرک پر سرحد کی طرف جا رہے تھے کہ ڈرون طیارے نے گاؤں ٹبی ٹول خیل میں انہیں نشانہ بنایا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد دوسرا حملہ بھی اسی جگہ ریسکیو کی کارروائیوں میں مصروف حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں پر کیا گیا اور سا تھ ہی ایک قریبی گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ شمالی وزیرستان میں اتمانزئی وزیر اور داوڑ قبائلی رہنماؤں کی کوششوں سے غیر ملکی جنگجوؤں کو بے دخل کرنے کا عمل جاری ہے اور قبائلی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ آپریشن کی نوبت نہ آئے۔ تاہم بعض قوتیں ان کوششوں کو سبو تاژ کرنا چاہتی ہیں ان میں وہ جنگجو گروپ بھی شامل ہیں جو علاقہ خالی کرنے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکی ڈرون حملے مقامی سطح پر جاری امن کی کوششوں کو سبوتاڑ کرنے کے مترادف ہو نگے۔ جنگجو پہلے ہی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستان امریکا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں اس طرح کی خبریں کہ پاکستان ڈرون حملے خود کروا رہا ہے جنگجوؤں کے موقف کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے بعد قومی سطح پر شدت پسندوں کے خلاف مربوط اور جامع کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا وفاقی حکومت نے کارروائی کیلئے اہم فیصلوں کی منظوری دیدی ہے۔کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کی صورتحال پر غور کیلئے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلی کا سطح اجلاس ہوا۔اجلاس میں ملک میں امن و امان اور ہشتگردی کے حالیہ حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اسلام آباد میں ہو نے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی، آرمی چیف جنرل راحیل شریف،چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم، میجر جنرل نثار دلاور شاہ، وزیراعظم کے مشیرامور خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی شریک ہو ئے۔ اجلاس کے دوران کراچی کی صورت حال اور دہشتگردوں کی جانب سے کی جانے والی حالیہ کارروائیوں کا جائزہ لیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی ایئرپورٹ حملے سے متعلق رپورٹ پیش کی جس کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ اس قسم کے حملوں کی روک تھام کے لئے بھی غور کیا گیا، اجلاس میں ایئرپورٹ سیکیورٹی فورسز اور دیگر اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی بھی بات کی گئی اور ملکی سلامتی کے حوالیسے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کاروائیوں اور امن مذاکرات کے تعطل کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔شمالی وزیر ستان کے علاقے دیگان میں پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی ہے۔ جیٹ طیاروں نے ازبک دہشتگردوں کے 8 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ کارروائی میں 150 سے زائد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شمالی وزیرستان مین رات تقریبا ایک بجے ازبک دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر فائرنگ کی گئی ہے جس میں ایک سو سے زائد ازبک دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ ذرائع اس با ت کی تصدیق بھی کر رہے ہیں کہ اس بمباری میں کراچی ایئر پورٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ اور خودکش حملوں کا ماہر ازبک کمانڈر ابو رحمن بھی مارا گیا ہے۔ جیٹ طیاروں کی اس اہم کارروائی میں مارے جانے والے دہشتگردوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔سکیورٹی ذرائع کارروائی کو نہایت اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں ،شمالی وزیرستان میں ازبک کی بڑی تعداد موجود ہے۔اب نام بھی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ کراچی حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت 100 اور 150 کے درمیان ازبک دہشتگرد مارے گئے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں میں موجود بھاری اسلحہ بھی تباہ ہو گیا ہے ،یہ آپریشن مختلف وقفوں میں کیا گیا تھا۔ طیاروں نے 20 منٹ بمباری جاری رکھی۔شمالی وزیرستان کے اہم کمانڈروں نے غیر ملکی جنگجوؤں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا وہ پر امن طور پر رہیں یا علاقہ چھوڑ دیں۔شمالی وزیرستان کے مولوی گل بہادر اور سراج الدین حقانی نے غیر ملکی جنگجوؤں کو دو آپشن دے دیے ہیں کہ یا تو وہ پر امن طور پر رہیں یا علاقہ چھوڑ دیں اگر دونوں آپشن قبول نہ کیے گئے تو ہم خود اقدامات کر کے انہیں یہاں سے نکال دیں گے۔حکومتی ڈیڈ لائن کے حوالے سے وزیر قبائل کے جر گہ کی طالبان سے ملاقات ، غیر ملکی عسکریت پسندوں کو بے دخل کرنے کے لیے مقامی قبائلیوں کو حکومت کی جانب سے دی گئی پندرہ دن کی ڈیڈلائن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔خوفزدہ قبائلی عوام سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی بمباری سے بچنے اور پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے میرانشاہ اور میرعلی میں اپنے گھروں پر مستقل قومی پرچم لہرا رہے ہیں۔ کم از کم 361گھرانے جو6343افراد پر مشتمل ہیں، تصادم سے بچنے کے لیے سرحد پار کرکے افغانستان جاچکے ہیں،اور انہیں افغان حکومت کی جانب سے رجسٹرڈ بھی کرلیا گیا ہے۔دوسری جانب انتظامیہ نے صبح سے شام تک مسلسل کرفیو کا نفاذ کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف ہے۔ قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں پاک فوج کی جانب سے شروع کی جانے والی حالیہ کارروائی کے بعد افغانستان میں قبائلیوں نے پناہ لینی شروع کی ہے۔شمالی وزیر ستان کے قبائل احمد زئی وزیر اور دوسرے قبائل کے چھ ہزار افراد نے افغانستان کے صوبے خوست میں پناہ گزیں ہیں۔میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے قبائلی سردار نے کہا فاٹا کے ہزاروں بے گھر افراد کی کیمپوں کے اندر اور باہر حالتِ زار طویل قیام کے خدشے کے پیش نظر میں نے ضلع بنوں کے ملحقہ علاقوں میں آلودہ خیموں میں رکھنے کے بجائے اپنے خاندان کو افغانستان لے جانے کا ارادہ کیا ہے۔بہت سے خاندان پہلے ہی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے سرحد پار کرکے افغانستان جاچکے ہیں۔شمالی وزیرستان، اورکزئی، کرم اور خیبر ایجنسیوں سمیت دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بے گھر افراد پچھلے سات سالوں سے کیمپوں کے اندر اور باہر خوفناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔اب تک خیبر پختونخوا میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ کی تعداد میں خاندانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔حافظ گل بہادر کی سربراہی میں طالبان شوری نے پہلے ہی مقامی باشندوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے امدادی کیمپوں کی طرف بڑھنے کے بجائے افغان سرحد سے قریب علاقے میں منتقل ہوجائیں۔

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 178523 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.