انڈیا ،امریکہ اور دیگرملکر پاکستان کے امن کے درپے
ہیں ۔ان کہ خواہیش ہے کہ پاکستانی قوم کبھی بھی ایک ہو کر پاکستان کو ترقی
کی جانب گامزن نہ کر سکیں ۔پاکستانی قوم ان ایشوز کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور
لوڈشیڈنگ جیسے مثال کا بھی شکار ہیں جس سے معاشی طور پر ہر کوئی پریشان حال
ہے ۔ان حالات میں ڈاکٹر طاہر القادری نے وطن وآپس آکر ایک انقلابی جدوجہد
کا اعلان کیا تھا جس کے لیے گزشتہ سال سے ہی تیاریاں جاری ہیں ڈاکٹر
طاہرالقادری 23جون کو پاکستان آرہیے ہیں ان کے ائیرپورٹ پر استقبال کی
تیاریاں عروج پر ہیں منہاج القرآن کے کارکن اپنے قائد کے استقبال اور ڈاکٹر
صاحب کی طرف سے چلائی جانے والی انقلاب مہم کے لیے بھی بھر پور پرجوش ہیں ۔پاکستان
کے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے میں اور پیشگوئیوں میں مشہور سیاستدان شیخ
رشید احمد بھی 20جون کو حکومتی نااہلی کے خلاف ٹرین مارچ کرنے جارہے ہیں ۔مختلف
ذرائع ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کو گرفتار کرنے کا حکومتی پلان
بتا رہے ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری سے چوہدری شجاعت حسین بھی ملاقات کر چکے
ہے اور ملکر تحریک چلانے پر اتفاق ہوچکا ہے ۔ اسی عمران خان بھی بھرپور مہم
چلانا چاہتے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر و سنیئر
وزیر صوبہ خیبر سراج الحق بھی رمضان المبارک کے بعدحکومتی پالیسوں کے خلاف
عوامی تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہے ۔موجودہ حالات میں جب حکومت کو
دہشتگردی سمیت بہت سے مشکل حالات کا سامنا ہے ۔مہنگائی اور لوڈشیڈنگ،
بیروزگاری اور دہشتگردی سے تنگ عوام کسی بھی انقلابی تحریک کا حصہ بن کر
موجود ہ حکومت کو چلتا کر سکتے ہیں ۔کیونکہ موجودہ حکومت نے ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کی رہائی ،لودشیڈنگ کا چھ ماہ میں خاتمہ ،اور مہنگائی میں نمایاں کمی
،روزگار،جیسے وعدے کیے تھے جوایک سال گزرنے کے باوجود بھی پورے نہ
ہوسکے۔اور اوپر سے پاکستان کے صدر کی تصاویر پر15لاکھ اوروزیراعطم کے کتوں
پر 24,24لاکھ خرچ ہو گا تو عوام کیوں نہ ڈاکٹر طاہر القادری ۔شیخ رشید اور
عمران خان یا سراج الحق کے احتجاج میں شریک ہوں۔یہی وہ احساس محرومی کی
باتیں ہیں جس سے ایک مزدور ، کسان ،استاد،وکیل۔اورہر شعبہ زندگی سے تعلق
رکھنے والا شخص ان حکمرانوں سے بے زار ہے ۔اب اگر پرامن احتجاج کرنے پر یا
احتجاج سے قبل ہی ڈاکٹر قادری یا شیخ رشید کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس سے
حکومتی مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک مزید
ابھر کر سامنے آئیگی ٹھیک اسی طرح جس طرح سپرنگ کو جتنا دبایا جائے اتنا
ابھر کر اوپر آتاہے ۔گزشتہ سال ڈاکٹر طاہرالقادری کا اسلام آباد میں کامیاب
دھرنا جس میں مردو خواتین ،بچے وبوڑھے اپنے قائد کے ہمراہ ڈٹے رہے تھے ۔شدید
بارش اور سردی کے باوجود داکٹر طاہرالقادری کے دیوانے اور پاکستان کے
مستانے ہر طرح کے خوف اور ڈر سے پاک اسی طرح ڈٹے رہے جیسے کسی دور میں چلتی
گولیوں ،برستے ڈنڈوں ہوا میں پھیلی آنسو گیس کی پرواہ کیے بغیر جماعت
اسلامی کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمدؒ میدان میں اترا کرتے تھے نہ تو
خواتین وبچے پیچھے ہٹنے کو تیار تھے نہ ہی بوڑھے اور مرد میدان چھوڑنے پر
رضا مند تھے ۔ہر طرف انقلاب کے نعرے تھے ۔کل جب قاضی حسین احمدؒ کے سینے پر
بندوق تان کر پولیس آفیسر نے کہا جناب آپ مزید آگے نہیں بڑھ سکتے ورنہ مجھے
گولی چلانے کا حکم ہے کیا خوب جواب دیا اس عظیم بزرگ ؒنے کہ آپ اپنا فرض
پورا کرو اور میں اپنا فرض پورا کرو گا ۔آج پھر حکومت وقت کی جانب سے ڈاکٹر
طاہرالقادری کو گرفتار کرنے ،ڈی پورٹ کرنے ،اور نظربند کرنے کی دھمکیوں کے
بعد ان کی طرف سے بھی بڑا زبردست بیان سامنے آیا ہے کہ موت کاایک وقت مقرر
ہے اور میں کسی دھمکی سے نہیں ڈرتا،پاکستان کے کرپٹ نظام کے خاتمے اور آئین
کی بحالی کے لیے میری جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں ۔ڈاکٹر طاہرالقادری
کے نظریات اور عقائد کے حوالے سے لاکھوں لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن
ڈاکٹر طاہرالقادر ی جو کہتے ہیں جونظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں اس سے
دلی طور پر تو ہر فرد اتفاق رکھتا ہے ۔جب تک پاکستان میں آئین کے ہوتے ہوئے
آئین پر اور قانون کے ہوتے ہوقانون پر عمل نہیں ہوگا ۔اسمبلیوں میں صرف
اپنے مفاد کی ہی بات ہوتی رہے گی لیکن پاکستان کے کڑوروں عوام کے دکھوں کا
مدوا کرنے کی بجائے آئے روز ان کے مسائل میں اضافہ کیاجاتارہے گا پاکستان
کھبی ترقی نہیں کر سکے گا ۔اور ہر احتجاجی دھرنے ،احتجاجی ٹرین مارچ میں
عوام بڑی شدت کے ساتھ شریک ہونگے ۔اور اگر حکومت نے سیاسی قائدین کو گرفتار
کرنے یا احتجاج کو بزور طاقت روکنے کی غلطی کی تو یہ مسلم لیگ ن کے دور
حکومت کی آخری غلطی ثابت ہو سکتی ہے ۔محترم میاں محمد نوازشریف عوام کے دکھ
درد کو سمجھے اور آئین اور قانون پر سختی کے ساتھ عمل کروائے ۔ہر غریب امیر
کے لیے ایک ہی قانون لاگو ہو ۔مہنگائی اورکرپشن لوٹ مار کو ختم کروایاجائے
عوام خوش حال اور ذہنی طور پر پرسکون ہو گے تو احتجاج اور دھرنوں کو سپورٹ
کرنے والے سیاسی ومذہبی جماعتوں کو کم ہی ملے گے۔ گندم امیر شہر کی ہوتی
رہی خراب ۔۔۔۔۔۔۔بیٹی مگر غریب کی فاقوں سے مر گئی |