ایک ایسے وقت میں جب ملک بدامنی کی لپیٹ میں ہے، وزیرستان
آپریشن کے ردعمل کا خوف سیاہ بادل بنا ملک بھر پر منڈلارہا ہے، ملک کو
انتہائی سخت سیکورٹی اور احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے، ان حالات میں پنجاب
کی جمہوری حکومت نے غیر جمہوری طریقہ اپناتے ہوئے لاہور میں خون کی ہولی
کھیل کر ملک کو مزید عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا ہے۔ لاہور میں پولیس کی
طرف سے تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر
القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے حفاظتی رکاوٹیں ہٹانے سے شروع ہونے والے
قضیے میں کم ازکم 8افراد جاں بحق اور 80سے زاید زخمی ہوئے ہیں۔ ذرائع کے
مطابق پیر کی رات سے جاری اس جھڑپ میں منگل کی صبح اس وقت شدت آئی، جب
پولیس نے ماڈل ٹاؤ ن کے علاقے میں واقع اس رہائش گاہ کے سامنے رکاوٹیں
ہٹانا شروع کیں، جس کی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے مزاحمت کی۔ پولیس
کی جانب سے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے شدید لاٹھی چارج، آنسو گیس اور
ہوائی فائرنگ کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد اموات ہوئیں۔ جاں
بحق ہونے والوں میں دو خواتین سمیت پاکستان عوامی تحریک کے پانچ کارکن
بتائے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ کارکن پولیس کی جانب سے کی جانے والی
فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا
ہے کہ جھڑپ کے دوران 29 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران پولیس نے
صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے 63 افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔ پی ٹی اے
سربراہ کے مطابق کارکنوں کی اموات اس سے زیادہ ہوئی ہیں جو بتائی جارہی
ہیںاور اس کے علاوہ چالیس کارکنان زخمی اور سیکڑوں لاپتا بھی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے واقعہ کے فوری بعد منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ
سے رکاوٹیں ہٹانے کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر فائرنگ کے
نتیجے میں ہونے والی اموات کی عدالتی تحقیقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا
ہے کہ اگر وہ ذمہ دار ثابت ہوئے تو مستعفی ہو جائیں گے۔ انہیں واقعے پر دلی
افسوس ہے اور وہ تمام متاثرہ خاندانوں کے افراد اور ڈاکٹر طاہر القادری سے
تعزیت کرتے ہیں۔ جب تک کمیشن دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہ کردے، میں چین
سے نہیں بیٹھوں گا، واقعے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ اس
موقع پر انہوں نے لاہور کے عوام سے امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عوام تحمل
اور برداشت سے کام لیں۔ لواحقین میں غم و غصہ ہے، لیکن میں متاثرہ افراد کو
انصاف دلاؤں گا۔ انہوں نے واقعے کو اپنے سیاسی کیریئر کا سب سے بڑا سانحہ
قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی لاٹھی اور گولی کی سیاست نہیں کی۔ اگر
کسی نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانی ہے تو شوق سے کروائے، کیونکہ یہ
ان کا حق ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے واقعہ کی
مذمت کرتے ہوئے کہا کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے
اور جو بیریئرز لگے ہوئے ہیں، وہ گھر کی حدود میں ہیں، جس سے آنے جانے والے
لوگوں کو کوئی شکایت نہیں اور نہ ہی گزشتہ 4 سالوں کے دوران اس پر کسی نے
اعتراض کیا۔ یہ رکاوٹیں چار سال پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر لگائی گئی تھیں
اور حکومت اگر چاہتی تو بات چیت کر کے معاملہ حل کرسکتی تھی۔ احتجاج کے
دوران مظاہرین پر پولیس کی جانب سے سیدھی فائرنگ کی گئی اور پولیس اہلکاروں
نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں داخل ہو کر وہاں قبضہ کرلیا۔ لہذا میری آرمی
چیف جنرل راحیل شریف اور قومی اداروں سے درخواست ہے کہ وہ فوری نوٹس لیتے
ہوئے ان دہشت گردوں سے سیکرٹریٹ کا قبضہ چھڑوائیں اور نہتے کارکنوں کو
بچانے کے لیے علاقے کی سیکورٹی سنبھالیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا خاتمہ
ضرور ہوگا، آج جن کارکنوں کا خون بہایا گیا وہ ان حکمرانوں کی تباہی کا
باعث بنے گا۔ جبکہ صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ
منہاج القرآن کے کارکنوں نے پولیس پر پہلے فائرنگ کی، جس پر پولیس کو جوابی
کارروائی کرنا پڑی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی
تھی، لوگوں سے قرآن پاک پر ملک میں فتنہ پھیلانے کے حلف لیے جا رہے تھے،
سیکرٹریٹ کے مسلح افراد تعینات کرکے پولیس کا کنٹرول ختم کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے خود تو اپنے لیے فول پروف سیکورٹی کے انتظامات
کررکھے ہیں، لیکن اگر ان کے تماشے میں شریک عام لوگوں کو کچھ ہوگیا تو اس
کی ساری ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر ہی عاید ہوگی، اس لیے پنجاب
حکومت نے کینیڈین مولوی کو بہت اچھے طریقے سے روکنے کا پورا بندوبست کرلیا
ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی دارلحکومت میں پیر کے روزہونے
والی ایک میٹنگ میں رانا ثنا ءاللہ نے انتظامیہ کو منہاج القرآن میں
کارروائی کرنے کے حکم دیا، تاہم کمشنر لاہور نے کارروائی کی مخالفت کرتے
ہوئے آپریشن میں نہ جانے کا مشورہ دیا، جبکہ راناثناءاللہ کارروائی پر بضد
تھے اور انہوں نے ہدایت کی کہ مستقبل میں عوامی تحریک کو کنٹرول کرنے کے
لیے کارروائی ناگزیر ہے۔ راناثناءاللہ کے احکامات پرآدھی رات کے بعد پولیس
کی مختصر نفری منہاج القرآن پہنچی اور بیریئر ہٹانے کی کوشش کی، جس
پرمتعلقہ حکام کو لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی دکھائی گئی، لیکن رکاوٹیں
ہٹانے کا کام جاری رکھنے پر پولیس اور ہاسٹل میں مقیم لڑکوں میں جھڑپ
ہوگئی۔ تصادم کے بعد پولیس کی کچھ نفری واپس لوٹ گئی، تاہم کچھ موقع
پرموجود رہے، جبکہ آخری وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کو واقعے سے لاعلم رکھاگیا۔
منگل کی صبح ڈی سی اولاہور اور ڈی آئی جی بھاری مشینری کے ساتھ تازہ دم
دستوں کے ہمراہ موقع پرپہنچے اور بیرئیر ہٹانے لگے، جس کے بعد طاقت کا
استعمال کیا گیا۔
لاہور واقعے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے کاکنوں نے اسلام آباد،
فیروزوالا، فیصل آباد، راولپنڈی، بہاولپور، لیہ، ملتان، میانوالی، بھکر،
جھنگ اور دیگر شہروں میں پنجاب حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ پنجاب
اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر وحشیانہ
تشدد پر بھرپور احتجاج کیا اور منگل کے روز قومی اسمبلی سے اپوزیشن نے واک
آؤٹ کیا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں کارکنوں کو مار
کر حکمران جمہوریت کی کون سی خدمت کر رہے ہیں؟ کیا حکمران جمہوریت کی بساط
لپیٹنا چاہتے ہیں؟ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جاوید ہاشمی نے کہا کہ
پنجاب حکومت نے شب خون مارا ہے ، یہی صورتحال رہی تو جمہوریت کہاں جائے گی۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے چودھری پرویز الٰہی نے بھی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے
کہا کہ جمہوریت کے خلاف اقدام سے ثابت ہو گیا ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے
ہیں۔ سربراہ تحریک انصاف عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور رانا ثناءاللہ
سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔ ایم کیوایم کے لیڈر فاروق ستار نے پنجاب
حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ایم کیو
ایم پنجاب پولیس گردی کے خلاف ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کرتی ہے۔
جبکہ لندن سے جاری بیان میں ایم کیو ایم سربراہ الطاف حسین نے کہا کہ ملک
میں اس وقت آپر یشن جاری ہے، ایسے میں جہاں اتحاد کی ضرور ت ہے، اس موقع پر
تحریک مہناج القرآن کے سیکر ٹر یٹ کا گھیراؤ کرکے کارکنوں پر تشدد کرنا غیر
دانشمندی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملک اس وقت انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے، ایسے میں
پنجاب حکومت کے غیر جمہوری اقدام کی وجہ سے پی اے ٹی کے کارکنوں کی اموات
ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیل سکتی ہےں۔ حکومت ایک جانب تو جمہوریت کو
پروان چڑھانے کی باتیں کرتی ہے، جبکہ دوسری جانب آمرانہ اقدام کرتے ہوئے
لوگوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا، یہ کس قسم کی جمہوریت ہے؟
جمہوریت میں تو عوام پر زور زبردستی نہیں کی جاتی۔ اگر حکومت واقعی جمہوریت
کو پروان چڑھانا چاہتی ہے تو اسے جمہوری طرز کے اقدام ہی کرنے چاہیے تھے،
نہ کہ آمرانہ اقدام۔ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ مرکز منہاج القرآن کے سامنے
رکاوٹیں ہٹانا واقعی عوام کے حق میں تھا اور عوام کو اس سے مشکلات کا سامنا
تھا ، تو یہ کام تو حکومت کو بات چیت کے ذریعے پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا،
لیکن حکومت نے بات چیت کی بجائے طاقت کا استعمال کیا ہے، جو جمہوریت کے لیے
انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اب یہ معاملہ سیاسی معاملہ بن گیا ہے،23جون کو
ڈاکٹر طاہر القادری ملک واپس آرہے ہیں، لہٰذا وہ اس معاملے سے بھرپور سیاسی
فائدہ اٹھائیں گے، وہ پہلے ہی حکومت کو ختم کرنے کی باتیں کررہے ہیں، اس
واقعہ کے بعد حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوجائیں گی، اب تو اپوزیشن بھی
متحد ہوکر حکومت کے خلاف صف آرا نظر آرہی ہے، جو حکومتی مشکلات پیدا کرنے
کے لیے کافی ہے۔ اس واقعہ سے نہ صرف حکومت مخالفین سیاسی فائدہ اٹھائیں گے،
بلکہ ان عناصر کو بھی بھرپور تقویت ملے گی، جو جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے
ہیں اور متعدد بار پہلے بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔
خدانخواستہ اس واقعہ کو بنیاد بناکر یہی عناصر ایک بار پھر جمہوریت کو ڈی
ریل کرنے کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں تو پنجاب حکومت ان سے کس طرح نمٹ سکتی
ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قادری صاحب کے ملک میں آنے سے چند روز قبل
یہ واقعہ پیش آیا ہے، جس کا مکمل فائدہ قادری صاحب کو ہوگا۔ لہٰذا اس واقعہ
کی ٹائمنگ پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ قادری صاحب حکومت کو ختم کرنے کی
باتیں کر رہے ہیں اور گزشتہ ماہ ہی کینڈا میں وہ چودھری برادران کو ساتھ لے
کر ایک دس نکاتی ایجنڈا تیار کر چکے ہیں اور حکومت کا خاتمہ واجب قرار دے
چکے ہیں۔ ان حالات میں پنجاب حکومت کی کوتاہی کی وجہ سے ملک بہت بڑے بحران
سے دوچار ہوسکتا ہے۔ |