لاہور واقعہ ....پس منظر و پیش منظر

منگل کے روز لاہور کے علاقے ماڈل ٹاﺅن میں پیش آنے والے غیر دانشمندانہ و آمرانہ فعل سے بے شمار بحرانوں میں گھرا ملک مزید ایک اور بحران کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ صرف تجاوزات کے معاملے کے حل کے لیے آٹھ افراد کی ہلاکت اور سو کے لگ بھگ افراد کا زخمی ہو جانا ناقص نظام کی واضح دلیل ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملک کی تقریباً تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس واقعہ کی نہ صرف کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے، بلکہ متعدد سیاستدانوں نے پنجاب حکومت کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کی مخالفت میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ لاہور واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، اگرذمہ دار ٹھہرا تو ایک منٹ میں استعفیٰ دے دوں گا۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے اس واقعہ میں مرنے والے ہر فرد کے لواحقین کے لیے تیس لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ ”شہدا“ کا قصاص حکومت کا خاتمہ ہے۔ “یہ سارا معاملہ نہ صرف حکومت کو بہت بڑی بحرانی کیفیت میں مبتلا کرسکتا ہے، بلکہ ملک کے لیے بھی سنگین حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے، جو حکومت کے لیے انتہائی پریشان کن معاملہ ہے۔ اگرچہ اس واقعہ کی تمام تر ذمہ داری پنجاب حکومت پر ڈالی جارہی ہے، لیکن پنجاب حکومت اس واقعہ کی ذمہ داری منہاج القرآن و عوامی تحریک کے کارکنان پر ڈال رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ ”جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں پتا چل جائے گا کہ ہلاک ہونے والوں کو پولیس کی گولیاں لگیں یا کسی اور کی، اگر پولیس گنہگار ثابت ہوئی تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد کارروائی کی جائے گی۔ منہاج القرآن مرکزمیں مسلح لوگوں اور اسلحے کی موجودگی کی شکایات تھیں، جس پر پولیس اور مقامی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ابتدائی طور پر صرف بیرئیرز ہٹائے جائیں گے، پولیس صرف بیرئیرز کو ہٹانے کے لیے وہاں گئی۔ پولیس نے علی الصبح یہ کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا، جو زیادہ سے زیادہ 35 سے 40 منٹ کی کارروائی تھی، تاہم پولیس کے پہنچنے پر جس طرح کا ردعمل سامنے آیا اس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔“پولیس کے مطابق دوران احتجاج پہلے پولیس نے نہیں، بلکہ منہاج القرآن کے کارکنوں نے گولیاں چلائیں۔ منہاج لقرآن سیکرٹریٹ سے 53 آٹو میٹک ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔منہاج القرآن کے مرکز کے باہر ہمارے خلاف انتہائی منظم انداز میں مزاحمت کی گئی،ہم پر گولیاں چلائی گئیں اور پیٹرول بم پھینکے گئے۔

ذرائع کے مطابق تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تقریباً 14 سال سے ماڈل ٹاﺅن ایم بلاک کی سڑکوں اور پارکوں پر قبضہ کررکھا ہے اور پولیس ایلیٹ فورس سے ملتی جلتی سیاہ وردیوں میں ملبوس مسلح گارڈزنے طاہرالقادری کے گھر کے سامنے والے پارک میں اپنے رہائشی کیمپ لگارکھے ہیں، جبکہ پارک کے ایک بڑے حصہ کو کار پارکنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ طاہر القادری کے گھر اور مرکزی دفتر کی جانب جانے والی سٹرکوں پر بیرئیرزلگا کر مسلح گارڈزکو تعینات کیا گیا تھا۔ پولیس وہاں موجود بیرئیرز کو ہٹوانا چاہتی تھی، لیکن منہاج القران کے کارکنان کسی صورت ان کو ہٹانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ پولیس ابتدا میں محتاط رہی حتٰی کہ پتھر برسائے جانے پر وہ پیچھے بھی ہٹ گئی، جس کے نتیجے میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ضلعی انتظامیہ نے4 سال قبل منہاج القرآن مرکز کے اطراف کھڑی رکاوٹیں دور کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی کارروائی میں صرف 10پولیس اہلکار شریک ہوئے، اس دوران عوامی تحریک کے کارکنوں نے پتھر برساکر پولیس کو فرار پر مجبور کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق منہاج القرآن مرکز کے اطراف کے 4مکانات عوامی تحریک نے کرائے پر لے رکھے ہیں،جن کو ویمن ہاسٹلز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ مرکز میں ملازم افراد نے قریبی مارکیٹ کے ساتھ فلیٹس میں رہائش اختیار کررکھی ہے۔ پولیس کے وہاں پہنچنے پر فوری طور پر سب کو جمع کرلیا گیا ، اندازاً جن کی تعداد چار سو سے چھ سو کے درمیان تھی، جنہوں نے پولیس پر خشت باری کی۔اس موقع پر خواتین اور بچوں کو بطور ڈھال آگے آگے رکھا گیا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ رات کے وقت ہی قریبی علاقوں اور شہروں سے منہاج القرآن کے کارکنان کو فون کر کے بلالیا گیا اور کہا گیا کہ قائد کا حکم ہے فوری پہنچیں، چند سو طلبا بغداد ٹاﺅن سے بھی کچھ ہی دیر میں پہنچ گئے۔ جو ہر قسم کی مزاحمت کے لیے تیار تھے۔ نماز فجر کے لیے عوامی تحریک کے کارکنوں کی تعداد مزید بڑھنے لگی تو منگل کی صبح 30:5 بجے پولیس واپس آئی تو پھر سے اس کا پتھر برساکر استقبال کیا گیا۔ جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ اس دوران طاہرالقادری نے صبح 5 بجکر 30 منٹ پر اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کارکنوں کو ہر قسم کی مزاحمت سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت بھی کردی تھی۔ ٹوئیٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ”یہ میرے کارکنوں کی پہلی آزمائش ہے، وہ اپنی جانیں قربان کردیں گے، لیکن سر نہیں جھکائیں گے“ جس نے کارکنوں کو مزید مزاحمت کرنے پر اکسایا اور کارکن پولیس پر پتھراﺅ، جبکہ پولیس آنسو گیس شیلنگ سے اس کا جواب دیتی رہی۔ ذرائع کے مطابق منہاج القرآن مسجد میں منہاج القرآن کے ایک رہنما شعلہ بیان مقرر مولانا صادق قریشی کارکنوں کو ”شہادت“ کی تحریک دیتے رہے۔ لاﺅڈ اسپیکر پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”آج پھر یہاں ایک کربلا سجے گا، حسینیت کو زندہ کرنے کا وقت آگیا ہے، میدان میں نکلو کہ یہی تو شہادت کا وقت ہے، باہر نکلو اور شہادت کو گلے لگاﺅ یا پھر غازی بن کر لوٹو“۔ یہ تقریر پون گھنٹے تک جاری رہی۔ اس تقریر نے جلتی پر آگ کا کام کیا اور کارکنوں نے دوبارہ پولیس پر پتھراﺅ شروع کردیا۔ یہ بھی ہوا کہ کچھ کچھ دیر بعد منہاج القرآن کے مقامی رہنما آکر کارکنوں کو جوش دلاتے رہے، جس سے معاملہ مزید بگڑتا گیا۔ صبح 9:30 بجے پولیس 100 اہلکاروںکے ساتھ جب تیسری بار موقع پر پہنچی، اس بار بھی ان پر پتھر برسائے گئے۔ اس بار بھی وہ پسپا ہوئے، پولیس حکام کے مطابق جب پولیس چوتھی بار مقابلے کے لیے پہنچی تو ان پر پتھراﺅ کے ساتھ ساتھ فائرنگ بھی کی گئی، جس سے تقریباً 29 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ جوابی فائرنگ میں 8 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 6 کارکن اور دو راہگیر بتائے جاتے ہیں۔ عوامی تحریک کا دعویٰ ہے کہ ان کے کارکن غیرمسلح تھے، جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے موقع سے گرفتار کارکنوں کے قبضے سے اسلحہ برآمد کیا ہے۔ عینی شایدین کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ صبح ہی شروع ہوگیا تھا ، فائرنگ دونوں جانب سے کی جارہی تھی،حتمی طور پر یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ فائرنگ کی ابتدا کس جانب سے ہوئی اور فائرنگ دونوں جانب سے جاری تھی اس لیے یہ بھی نہیں بتایا جاسکتا کہ مرنے والے کس جانب کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

دوسری جانب لاہور واقعے سے متعلق انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے تیار کی جانے والی ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ واقعہ کے دن طاہر القادری نے ویڈیو لنک کے ذریعے اشتعال انگیز خطاب کیا، جس کی وجہ سے صورتحال میں کشیدگی پیدا ہوگئی اور یہی وجہ تھی کہ منہاج القرآن کے کارکنوں نے پولیس پر حملہ کیا، جو وہاں سے رکاوٹیں ہٹانے گئی تھی۔ رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس پر فائرنگ کے لیے بنکر بنائے گئے تھے، جبکہ منہاج القرآن کی عمارت میں اسلحہ بھی موجود تھا۔ پولیس نے کچھ اسلحہ برآمد کرلیا ہے۔ وہاں موجود نوجوانوں نے چھاپے کے لیے آئے ہوئے اہلکاروں پر پتھراﺅ کیا اور ان پر اینٹیں برسائیں۔ اہلکار اس طرح کے رد عمل کے لیے تیار نہیں تھے۔ میونسپل اسٹاف کی جانب سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے اپنی کارروائی کا آغاز کیا، لیکن طلبہ اور نوجوان انتہائی مشتعل تھے، کیونکہ انہوں نے طاہر القادری کا پرجوش خطاب سنا تھا، جس کی وجہ سے جنگ شروع ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نوجوانوں کو لاٹھیاں، پتھر، اینٹیں اور اسلحہ انتہائی منظم انداز سے فراہم کیا گیا تھا۔ پولیس نے اپنے دفاع میں کارروائی کی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لاہور واقعہ ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے، اس واقعہ میں حکومت اور عوامی تحریک کے کارکنان دونوں شریک جرم ہیں، ایک طرف کارکنان نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اس پر جلتی کا کام عوامی تحریک کے لیڈر کی تقریر نے کیا، جبکہ دوسری جانب حکومت نے آمرانہ انداز میں اس معاملے سے نمٹنے کی کوشش کی اور آٹھ قیمتی جانیں چھین لیں، حالانکہ صرف تجاوزات کا معاملہ تھا، جسے گفت و شنید کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتا تھا، لیکن حکومت نے طاقت کا استعمال کیا جو ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 640010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.