آپریشن ضربِ عضب پاکستان کے بقا کی منطقی جنگ ہے۔ تاریخ
میں ایسے مواقع یقینا آتے ہیں جب جنگ ہی واحد انتخاب رہ جاتا ہے جیسا کہ
1917 میں اٹھائیسویں امریکی صدر ووڈ رو ولسن نے پہلی جنگِ عظیم میں باقائدہ
شرکت کرتے ہوئے مشہور صحافی ’ویلز’ کا یہ جملہ دہرا کر اسے عالمی شہرت بخشی
تھی کہ It's a War to end War ۔ آپریشن کے اعلان کے بعد پاکستان تحریکِ
انصاف اور جماعتِ اسلامی کا مرجھائے دل سے اس آپریشن کی حمایت کرنا بھی
منطقی بات ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے ماضی قریب اور بعید میں اپنے اعمال و
افکار کی بدولت مکمل طور پر اپنے آپ کو پاکستان تحریکِ طالبان کا سیاسی ونگ
ثابت کرتے ہوئے ان عناصر کی ہر ممکنہ پشت پناہی کی ہے۔ خصوصاٌ پاکستان
تحریکِ انصاف حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریکِ طالبان کی 100 فیصد سپورٹ
سے لطف اندوز ہوتی رہی جبکہ دائیں بازو کی جماعتِ اسلامی 1941 میں اپنے
قیام سے ہی رجعت پسند عناصر کی جانب بھرپور جھکاؤ رکھنے کا ٹریک ریکارڈ
رکھتی ہے۔
2 جون 2014 کو امریکی سینیٹ نے سال 2015 کے لئے کارل لیون نیشنل ڈیفنس
آتھرآئزیشن ایکٹ کے تحت پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں فراہم کی
جانے والی 900 ملین یا 90 کروڑ ڈالر کی رقم کو موجودہ شرائط کے ساتھ ساتھ
نئی شق 1224 سے نتھی کرتے ہوئے رقم کی فراہمی کو پاکستان کی جانب سے فاٹا
کی ایجنسی شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف موئثر کاروائی سے
مشروط کر دیا ہے! ایکٹ کی اس نئی شق 1224 کے تحت امریکی انتظامیہ پاکستان
کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں کوئی بھی قسط جاری کرنے سے پہلے کانگریس کو
سند جاری کرنے کی پابند ہے جس میں امریکی سیکریٹری برائے دفاع بیان کرے گا
کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں خاطر
خواہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے ان کی اکثریتی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا
اور دہشت گرد گروہ حقانی نیٹ ورک کی آزادآنہ نقل و حرکت کو با معنی حد تک
محدود کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
سال 2014 تک پاکستان کو ملنے والی یہی امداد 1,200 ملین یا 1 ارب20 کروڑ
ڈالر تھی۔ اسی طرح پہلے سیکریٹری برائے دفاع کانگریس کواس حد تک سند کرتا
تھا کہ پاکستان اپنی سرزمیں سے گزرنے والے امریکی ترسیلی روٹ کی سیکیورٹی
یقینی بنارہا ہے اور پاکستان نے القائدہ، پاکستان تحریکِ طالبان، حقانی نیٹ
ورک، کوئٹہ شورہ طالبان اور ان جیسے دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف
کاروائی میں قابلِ اثبات اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ان
گروہوں کی جانب سے پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے سرحد پار افغان
سیکیورٹی فورسز اور امریکی اہلکاروں پر حملوں کی روک تھام کے لئے موئثر
طریقے کار اپنانے کے علاوہ دھماکے سے پھٹ کر تباہی پھیلانے والے ہتھیار
بنانے میں استعمال ہونے والے مواد تک دہشت گرد وں کی رسائی روکنے کا خاطر
خواہ بندوبست کیا ہے۔
سال 2014تک بیان کردہ شرائط یا حد بندیاں امریکی سیکریٹری برائے دفاع کی
جانب سے دست کش کی جا سکتی تھیں پر اس صورت میں سیکریٹری برائے دفاع کی طرف
سے کانگریس کو یہ سند دینی پڑتی تھی کہ اس نے یہ فیصلہ وسیع تر امریکی مفاد
میں کیا ہے اور اپنے اس فیصلے کی مدلل وجوہات سے کانگریس کو آگاہ کرنا پڑتا
تھا ۔ اب سال 2015 کے لئے شق 1224 کے تیئں سیکریٹری دفاع اپنے اس قانونی
اختیار کا استعمال صرف60 کروڑ ڈالر تک کی امداد تک کر سکتا ہے۔ بقایا 30
کروڑ ڈالر محض اسی صورت میں پاکستان کو ادا کیے جا سکتے ہیں کہ اگر
سیکریٹری دفاع یہ سند جاری کرے کے پاکستان نے دیگر شرائط پوری کرنے کے ساتھ
ساتھ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف موئثر ترین کاورائی سر
انجام دی ہے۔
سال 2015 کے لئے نیشنل ڈیفنس آتھرآئزیشن ایکٹ کی شق 1224کا خلاصہ تو یہ ہو
گیا۔ اب اس شق کا خلاصہ پیش کرنے کا مقصد آپریشن ضربِ عضب پر کسی قسم کا
سوال کھڑا کرنا نہیں۔ یہ بلا شبہ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی جنگ
ہے۔دیمک کی طرح پاکستان کی بنیادوں کو چاٹتی دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہو
چکا ہے۔ ہمیں اس بات پر مکمل یقین رکھنا چاہیے کہ حکومتِ پاکستان اور عسکری
قیادت نے اس آپریشن کا فیصلہ وسیع تر قومی مفاد اور متوسط پاکستانیوں و
سیکیورٹی اہلکاروں کی لازوال قربانیوں کے پیش نظر کیا ہے۔ دوسرے زاویے سے
سوچنا چاہیں اور دماغ قلابازیاں بھی مارے تو اگر امریکہ نے 2015 کے لئے
کولیشن سپورٹ فنڈکی فراہمی کو مزید سخت اور ٹھوس شرائط سے مشروط کرتے ہوئے
اس ایکٹ کی شق 1224 سے پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت کودہشت گردی جیسے
ناسور کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور کر بھی دیا ہے تو پھر ہمیں امریکہ کا
شکر گزار ہونا چاہیے !!!
دونوں صورتوں میں بھلا پاکستان کا ہی ہوا ہے!!!
|