عام طور پر سیاحت کامقصد تفریح
کرنے ، چھٹیوں کے لمحات گزارنے اور کاروباری مقاصد کی انجام دہی کے لئے ایک
جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا ہے۔قدرت نے ہمارے ملک پاکستان کو زرخیز
زمینوں، سمندر، جھیل، پہاڑ اور بیش بہا قیمتی ذخائر عطا کئے ہیں جن میں
گرینائیٹ پتھر، سنگ مرمر، سلفر، تانبہ جبکہ معدنیاتی ذخائر میں گیس، پیٹرول،
کوئلہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام قدرت کی چیزیں ایک ساتھ دنیا کے بہت ہی کم
ممالک میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا ملک انتہائی خوش نصیب اور قدرت کی
تمام نعمتوں سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے ذہن و جسم کو خوشگوار
رکھنے کے لئے بے شمار سیر و سیاحت کے مقامات موجود ہیں۔ جہاں لوگ اپنے
خاندان کے ساتھ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے اور خصوصاً چھٹیوں
میں سیروسیاحت کے لئے جاتے ہیں اور قدرت کے حسین اور دلکش مناظر سے لطف
اٹھاتے ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمائے ہوئے ان
تاریخی اور تفریحی مقامات کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دیتا ہے تاکہ سیاحت
کا ذوق رکھنے والے جب واپس جائیں تو ان سے متعلق اچھے تاثرات لے کر جائیں،
ان کی یادیں تازہ دم رہیں اور بطور مورخ مثبت تاثر قلمبند کریں۔
شاہ لطیف کی دھرتی اپنی خوبصورتی میں مثالی ہے۔ صوبہ سندھ میں تاریخی
مقامات جن میں موہن جو دڑو، اسٹوپا، کوٹ ڈیجی کا قلعہ، فیض محل، میرون کی
ماڑیان، رویا ماڑی، غلام شاہ کلہوڑو کا مقبرہ، مکلی ٹھٹھہ کے قدیم مقامات،
ناز محل، سکھر میں معصوم شاہ کا مینار، شاہی مسجد ٹھٹھہ، کینجھر جھیل، دادو
ضلع میں ایک بڑی تفریح گاہ ہے جو گورکھ ہل کے نام سے مشہور ہے، حیدر آباد
میں کچا قلعہ، ضلع تھر پارکر میں کارو نجھر پہاڑو دیگر قدیمی مقامات موجود
ہیں جبکہ پنجاب میں شالامار باغ، شاہی مسجد، شاہی قلعہ، مینار پاکستان و
دیگر قدیم مقامات سیر و سیاحت کے لئے موجود ہیں، صوبہ بلوچستان میں ہنگلاج
ایک تفریحی مقام ہے جبکہ زیارت کو قائداعظم کی آخری قیام گاہ کے طور پر
تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ حنہ جھیل کو ایک خوبصورت سی ساحلی تفریحی گاہ بنانے
کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ صوبہ سرحد بھی قدرتی مناظر سے مالا مال صوبہ
ہے۔
قومی ہم آہنگی کے فروغ اور بھائی چارے کے قیام کے لئے ایک صوبے کے لوگ
دوسرے صوبے میں آئیں جائیں اور اپنے ہر صوبے میں جا کر ان کا رہن سہن،
تہذیب اور ثقافت کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس سے ملک کے چاروں صوبوں
کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا بھی موقع میسر آئے گا۔ اس ضمن میں بین
الصوبائی رابطوں سے قومی یکجہتی کو تقویت ملے گی اور ہمارا ملک مزید مضبوط
اور مستحکم ہوگا۔ جیسے مختلف اقسام کے پھول آپس میں ملکر گلدستہ بناتے ہیں
اسی طرح چاروں صوبوں کے لوگ بھی پھولوں کی طرح ہیں اور باہم مل کر ایک
گلدستہ بن جاتے ہیں جسے ہم پاکستان کہتے ہیں جو پاکستان کے امین ہیں، ہم ہی
پاکستان بنانے والے ہیں اور ایک مضبوط پاکستان ہی ہمارا مستقبل ہے۔ یہ باعث
فخر ہے کہ ارض مقدس کی خوبصورتی اور دلکشی اس کرہ ارض پر اپنی مثال آپ ہے۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں امن کے فروغ کے لئے صوبوں کے درمیان
باہمی
رابطوں کر فروغ دے کر نہ صرف ہم ایک دوسرے کی ثقافت کو بہتر انداز سے سمجھ
سکتے ہیں بلکہ جو ثقافتی خلیج حائل ہیں ان کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
صوبوں کے درمیان سیاحت کے فروغ میں چاروں صوبوں کے محکمہ بین الصوبائی
رابطہ کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے صوبوں میں سیاحت کے شعبہ کو پروان چڑھا کر
روزگار کے نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں جس کے ذریعے صوبوں میں غربت کا
خاتمہ بھی ہوگا، لوگوں کو صحت مند تفریح میسر آئے گی اور روزگار کے نئے
مواقع پیدا ہونے سے لوگوں کی معاشی زندگی میں بہتری کے آثار پیدا ہونا
شروع ہو جائیں گے۔
اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ قومی ہم آہنگی اور امن میں
سیاحت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔سیاح کسی بھی ملک میں جاتا ہے تو
وہاں کے رہن سہن، تمدن، معاشیات، اخلاقیات کو اختیار کرتا ہے۔سیاحوں کے
توسط سے ایک ملک دوسرے ملک کے قریب آتا ہے۔ جبکہ دونوں ملکوں میں باہمی
تعاون کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور آپس میں معاشی، معاشرتی اور اقتصادی
تعلقات استوار ہوتے ہیں۔اس طرح ایک ملک دوسرے ملک کی مدد کے لئے ہر وقت کمر
بستہ رہتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے سے بھی دریغ
نہیں کیا جاتا۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ جن ملکوں کے آپس کے تعلقات
خوشگوار ہوتے ہیں وہ ملک اپنے آپس میں بہترین تعلقات کی بناء پر ترقی کا
زینہ برق رفتاری سے عبور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ ملک آپس میں ایک دوسرے
کے سکھ میں بھی ساتھ ہوتے ہیں جبکہ دکھ میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں
چھوڑتے۔یہی وجہ ہے کہ ایک ملک کے دوسرے ملک سے روابط بڑھتے ہیں جس سے امن
کی ایک بہترین فضا قائم ہوتی ہے۔سیاح اپنے سفر کے دوران بہت سی باتیں
سیکھتے ہیں جبکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کی وجہ سے ان کا علم وسیع
ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ لوگ نئی کھوج نکالتے ہیں۔ اسطرح جب یہ سیاح
اپنے ملک واپس آتے ہیں تو اپنے تجربے کی بناء پر اس ملک کی ترقی میں کلیدی
کردار ادا کرتے ہیں۔سیاح کسی بھی ملک میں سفیر کی حیثیت رکھتا ہے اور دنیا
کے ہر کونے پر ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جس ملک میں زیادہ سیاح
آتے ہیں وہاں دیکھا گیا ہے کہ وہ ملک ترقی کی منازل طے کرتا ہوا نظر آتا
ہے اور امن کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
ملک میں سیاحت کی ترقی کے لئے وزارتیں قائم کی جاتی ہیں۔جس کے اغراض و
مقاصد میں یہ شامل ہوتا ہے کہ ملک میں آنے والے سیاحوں کو بہتر سے
بہترسہولتیں فراہم کریں جن میں رہائش کی سہولت، کھانے پینے کی سہولت،
آمدروفت کی سہولت، پارک کی سہولت، تاریخی مقامات پر سیر و تفریح کے بہترین
انتظامات، شاپنگ سینٹرز کی سہولت وغیرہ فراہم کی جاتی ہے تا کہ سیاحوں کو
کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہواور زیادہ سے زیادہ سیاح اس ملک میں سفراختیار
کر سکیں۔ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ حکومت سیاحوں کو بہترین
سہولتیں مہیا کرنے کے لئے مثبت اقدامات عمل میں لاتی ہے ۔کیونکہ سیاحت اب
دنیاکی ایک بہت بڑی صنعت اور تیزی سے بڑھنے والی معاشیات کا حصہ بن چکی
ہے۔بہت سے ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ اس خطے کی ترقی میں سیاحت کا کردار
نہایت اہم ہوتا ہے۔سیاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے حکومتی اقدامات سے
براہ راست ملک کو فائدہ ہونے کیساتھ ساتھ ایک بڑافائدہ یہ
بھی ہوتا ہے کہ اس سے ہزاروں لوگوں کے روزگار کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے جو
انہیں تنخواہ اور مزدوری کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے سے یہ بات سامنے
آئی ہے کہ جو ملک سیاحت کے لئے اعلیٰ انتظامات کرتے ہیں اوراس کے لئے خاطر
خواہ رقم بجٹ میں مختص کرتے ہیں،وہ ملک جلدہی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے
نظر آتے ہیں۔ سیاحت کی وجہ سے ملک کی ٹرانسپورٹ کی صنعت، بحری صنعت، ریلوے
صنعت اور ہوائی جہاز کی صنعت کو فروغ حاصل ہوتا ہے جبکہ سیاحت کی بدولت
ملکی معیشت ترقی کرتی ہے کیونکہ جس جگہ سیاح آتے ہیں وہاں رہائش اور ہوٹل
کی سہولت، آمدروفت، تفریحی مقامات، تاریخی مقامات، شاپنگ سینٹرز وغیرہ کی
رونقوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس سے مقامی لوگوںکا کاروبار ترقی کی
راہوں پر گامزن ہو جاتا ہے۔ نیز غیر ملکی سیاحوں کو سیاحت کے امر میں اس
ملک میں رہنے والے مقامی گائیڈزسے بھی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح
اسکا گزر بسر بھی چلتا رہتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ جس ملک میں قومی ہم آہنگی ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہاں کی
عوام کو آسانی سے روزگار میسر ہوتا ہے اور بیروگاری کا رجحان کم ہونا پایا
جاتا ہے ۔ قومی ہم آہنگی کی وجہ ہی لوگ ایک دوسرے کے ہم خیال ہو جاتے ہیں
اور ایک دوسرے کی خواہشوں کا احترام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بھائی
چارے کی فضاءقائم ہوتی ہے۔یہ فطرتِ انسانی ہے کہ انسان معاشی طور پر آسودہ
حال ہوگا تو پھر وہ کسی بھی غیر ضروری فعل کی طرف راغب نہ ہوگا۔ اس کا سارا
معاملہ اپنی اولاد اور اپنے ملک کی ترقی کے لئے ہوگا۔ انسان کاآپس میں
ذہنی تصادم معاشی پریشانی سے شروع ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کے ساتھ
ذہنی ہم آہنگی تو کجا اپنے ملک کے لئے بھی مثبت سوچ نہیں رکھتا۔ یہاں سے
معاشرے میں خرابی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لہذا خرابی کے ماحول میں اس
کے ثمرات حاصل نہ ہو سکیں گے۔
مختصراً یہ کہ سیاحت کے فروغ سے ملک کی معاشیات میں ادائیگی کا توازن،
روزگار، کل آمدنی اور پیداوار میں اضافہ ہونا پایا جاتا ہے جبکہ ملکی سطح
پر زرِ مبادلہ کما یا جاتا ہے۔نیز اس سے قومی ہم آہنگی اور امن و امان کی
بہترین فضا قائم ہو جاتی ہے۔ |