علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے سابق لائبریرین۔الحاج محمد زبیر
(Dr Rais Samdani, Karachi)
علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے
سابق لائبریرین الحاج محمد زبیرایک مستند کتاب کار، معلم کتاب داری، صاحب
علم، شائق مطالعہ، مشرقی تہذیب کا پیکر، قدیم وضع داریوں کا اعلیٰ نمونہ،
اردو، فارسی، عربی، انگریزی زبانوں پر آپ کو عبور حا صل تھا۔آپ ایک علمی
خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے بزرگوں میں کئی نامور شخصیات مصنف اور
عالم گزرے ہیں۔آپ کے جد امجد حکیم عنایت حسین نامور مصنف ،مورخ اور طبیب
تھے۔ حاجی صاحب کا مولد مارہرہ ، یوپی کا ضلع ایٹہ ہے یہ مارہرہ شریف کے
نام سے مشہور ہے ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت زبیر کی ذات اقدس پر منتہی ہو تا
ہے اسی نسبت سے یہ خاندان زبیری کہلاتا ہے۔ علی گڑھ کا یہ نامور سپوت ۸۶ بس
کی عمر میں لائبریرین شپ کے علمی سرمایہ کو اپنی علمی کاوشوں سے منور کرکے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
زبیر صاحب کے انتقال سے پاکستان لائبریرین شپ میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ
شاید کبھی پر نہ ہوسکے گا کیونکہ آپ بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے مالا
مال تھے۔ آپ کی سب سے بڑی اور انفردی خصوصیت یہ تھی کہ آپ باوجود ضعیف
العمری اور مسلسل علالت کے تصنیف و تالیف میں مصروف تھے اور اردو زبان میں
لائبریرین سپ کے علمی سر مائے میں مسلسل اضافہ فر مارہے تھے۔اس کااندازہ اس
بات سے باخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی آخری طبع شدہ کتاب میں تحریر
فر ما یا ’’قارئین کرام مجھے اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ پیش کردہ
کتاب ’میری یادوں کی کہکشاں‘ مرتب کرنے کا حق پوری طرح ادا نہیں کیا جاسکا
جو کچھ آپ کے سامنے ہے وہ ان ایام میں مرتب ہوا ہے جب کہ میری ۸۴ سالہ عمر
کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے‘‘۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ ایک اور کتاب
کی تالیف میں مصروف تھے اور اس کتاب کو اپنی زندگی ہی میں مکمل کرنا چاہتے
تھے ، اس کتاب کے کئی ابواب تحریر کر چکے تھے بعض ابواب کی کتا بت بھی ہو
چکی تھی ، آپ کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کی آخری کتاب ہو گی اس وجہ سے
آپ نے اپنی اس کتاب کا عنوان ’’میری زندگی کی آخری کتاب ‘‘ رکھا تھا ، مجھے
اس کتاب کے متعدد ابواب کی پروف ریڈنگ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔افسو س زندگی
نے آپ سے وفا نہ کی اور آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، لیکن آپ نے پاکستان
لائبریرین شپ کو جس علمی سرمائے سے مالا مال کیا اس کا فیض برسہا برس جاری
و ساری رہے گا اور لائبریری سائنس کے طالب علم اس سے مستفیض ہوتے رہیں گے :
کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک بار
آنکھوں میں جذب ہوگئے دل میں سما گئے
کتابیں زبیر صاحب کی رفیق اور ہمدم تھیں ، اپنی کتاب ’’کتاب زیست‘‘ میں آپ
نے تحریرفرمایا ’میری زندگی کا یہ بڑا روشن باب ہے کہ لائبریری سے منسلک
ہونے کے بعد یعنی ۱۹۲۲ء سے ۱۹۸۱ء تک ہزارہا کتا بیں خلوت اور جلوت میں میری
رفیق و ہمدم رہی ہیں۔ کتا بوں کی گہری قربتوں سے مجھے بڑے روحانی ،علمی اور
فنی فائدے پہنچے انہوں نے مجھے فہم و فراست اور شعور و تدبر کی راہیں د
کھائیں، طرح طرح کے علوم و فنون سے آگاہی بخشی، کتاب داری کے نظری و علمی
پہلوؤں پر دسترس حاصل کرنے کی صلاحیتیں عطا کیں اور اپنا ایسا گرویدہ بنا
یا کہ میری عمر کے اس آخری دور میں بھی وہ میرا اوڑھنا بچھو نا بنی ہوئی
ہیں۔ان کا مطالعہ کیے بغیر مجھے سکون نہیں ملتا۔ جب کبھی ناسا زی طبع کے
باعث خود مطالعہ نہیں کر سکتا تو اپنی بیوی سے کتا بیں پڑھوا کر بیمار
طبعیت کو بحال رکھتا ہوں ، در اصل :
کتاب من معشوقہ من است
بستہ دل من بدوکشادہ اسست
زبیر صاحب کی تخلیقات جو ان کی زندگی میں طبع ہوئیں ۱۲ ہیں۔مضامین ان کے
علاوہ ہیں جو مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے۔ آپ کی پہلی
کتاب ’’شہان مغلیہ کے کتب خانے اور ان کا نظام ‘‘ ۱۹۵۱ء میں منظر عام پر
آئی جبکہ آخری کتاب بعنوان ’’میری یادوں کی کہکشاں ‘‘ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی۔
آپ کی قابل قدر کتاب ’’اسلامی کتب خانے‘‘ ۱۹۶۱ء میں ندوۃ المصنفین دہلی سے
شائع ہوئی تھی اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں کراچی سے شائع ہوا۔اپنے موضوع
پر یہ پہلی کتاب تھی جس میں اسلامی کتب خانوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی
۔۲۳ ستمبر ۱۹۷۹ء بروز اتوار آل پاکستان ایجو کیشنل کانفرنس میں اس کتاب کی
تقریب رونمائی عمل میں آئی جس کی صدارت کے فرائض جسٹس (ر) قدیر الدین احمد
صاحب نے انجام دئے اور اس تقریب میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مہمان خصو صی
تھے۔مقررین میں سید الطاف علی بریلوی، ڈاکٹر انیس خورشید، ڈاکٹر معین الدین
عقیل، سید ریاض الدین، گلستان خان کے علاوہ راقم بھی شامل تھا۔ڈاکٹر محمد
ایوب قادری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کی
موجود گی میں کسی بھی تقریب میں تقریر کرنے کا یہ میرا پہلا اور آخری موقع
تھا جسے میں اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتا ہوں۔میں نے ۱۹۷۱ ء میں جامعہ
کراچی میں ایم اے سال میں داخلہ لیا توڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جامعہ کراچی
کے وائس چانسلر تھے، ۱۹۷۲ء میں جب میں فائنل میں آیا تو ڈاکٹر قریشی ریٹائر
ہوگئے اور ڈاکٹر محمود حسین وائس چانسلر ہوگئے۔ اس طرح مجھے دونوں محترم
شخصیات کی سربراہی میں تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔تقریب میں ڈاکٹر
اشتیاق حسین قریشی صاحب نے زبیر صاحب کے حوالے سے کتاب پر مدلل خیالات کا
اظہار فر مایا ،آپ نے کہا کہ’’ میں زبیر صاحب کی سنجیدگی اور ذوق علمی کا
شروع سے قائل ہوں بلاشبہ زبیر صاحب نے یہ کتاب نہایت محنت اور لگن سے تیار
کی، مجھے اندازہ ہے کہ اس قسم کی کتابوں کی تالیف میں سخت محنت اوراستقلال
سے کام لیا جاتا ہے ۔ ایک ایک پتی اور ایک ایک پھول جمع کرکے گلدستہ بنا یا
جاتا ہے‘‘۔سید الطاف علی بریلوی نے زبیر صاحب سے اپنے تعلق خاطر کا با
انداز خاص ذکر فر ما یا اور کتاب کو ایک قیمتی اثاثہ قرار دیا ۔
الحاج زبیر صاحب کی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۲۲ء میں اس وقت ہوا جب آپ علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۶۴ء تک بر صغیر کی اس جامعہ سے منسلک
رہے۔اس دوران آپ لائبریری میں مختلف عہدوں پر فائز رہے اور آخر میں کتب
خانہ کے قائم مقام لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دی ساتھ ہی لائبریری
سائنس کے استاد بھی رہے۔۱۹۶۴ء میں آپ علی گڑھ سے کراچی تشریف لائے۔ ہجرت کے
بارے میں آپ نے تحریر فرمایا’’اس وقت میرے لیے عجیب کشمکش اور تذبذب کا
عالم تھا کہ ایک طرف علی گڑھ کی زمین میرا دامن پکڑے ہوئے تھی تو دوسری طرف
پاکستان مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ بالآخر علی گڑھ سے جدائی اختیار کرنے
پر اپنے آپ کو آمادہ کر لیا۔لیکن میں اس سے اتنا وابستہ رہا ہوں کہ میری
روح تو کبھی اس سے جدا ہوہی نہیں سکتی‘‘۔ کراچی آمد کے بعد جامعہ کراچی کے
کتب خانے سے منسلک ہوئے بعد میں نیشنل کالج کے لائبریرین کے فرائض انجام
دئے ساتھ ہی پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گرو پ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے
منسلک ہوئے اورلائبریری سائنس کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔
۱۹۷۳ء میں اسکول کے ڈائریکٹر سید ولایت حسین شاہ کے انتقال کے بعد آپ اسکول
کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، زندگی کے آخری ایام تک آپ یہ فرائض انجام دیتے رہے
۔
زبیر صاحب بلا شبہ لائبریری سائنس کے میر کارواں تھے۔ اپنی تحریرسے
لائبریری سائنس کے دامن کوخوب مالا مال کیا۔آپ ایک محنتی لائبریرین اور ایک
بہترین منتظم بھی تھے۔منصوبہ سازی میں آپ کا جواب نہیں تھا۔ نرم لہجہ
اورٹھہر ٹھہر کر سمجھا نے والے انداز میں گفتگو کرتے، ایسا محسوس ہوتا کہ
کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کو سمجھا رہا ہو،وضعداری اور انکساری آپ کا شعار
تھا :
مثالی استاد علم و فن تھے
دکھائے علم و ہنر کے جوہر
وہ کل بھی تھے رہنما ، ہمارے
وہ آج بھی ہیں ، ہمارے رھبر
آپ کو مطالعہ کا شوق تھا، کتاب یا مضمون انتہا ئی غور اور توجہ سے پڑھا
کرتے، اپنی کتاب ہونے کی صورت میں خاص خاص باتوں پر نشان لگاتے جاتے بصورت
دیگر کتاب یا مضمون سے خاص خاص باتوں کو نوٹ کر لیاکرتے۔ لائبریری سائنس کے
علاوہ اسلام آپ کا خاص موضوع تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسلامی موضوعات پر
متعدد مضامین اور کتب بھی لکھیں۔’ہم حج کیسے کریں‘ آ پ کی معروف کتاب ہے ۔
ماہانہ ’الاانسان ‘ میں آپ آخری وقت تک مضامین تحریر کرتے رہے :
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو سب آتے ہیں مرنے کے لیے
زبیر صاحب سے میرا تعلق ۱۹ سالوں پر محیط رہا ، یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب
میں نے ۱۹۷۴ء میں اعزازی طور پر اسکول آف لائبریرین شپ میں پڑھانا شروع
کیا۔ یہ تعلق اس وقت مزید بڑھ گیا جب زبیر صاحب اسکول کے ڈائریکٹر تھے اور
میں ۱۹۷۹ء میں اسکول کا سیکریٹر ی اور منتظم مقرر ہوا۔ اسکول کے انتظامی
امور کی انجام دہی کے سلسلے میں بار ہا زبیر صاحب کے گھر جا نا ہو تا اور
کافی کافی دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔ شاید انہیں مجھ سے اور مجھے ان سے
خاص انسیت ہوگئی تھی۔ اسکو ل کے معاملا ت کے علاوہ زیادہ تر لائبریری سائنس
حتیٰ کہ ذاتی مسائل پر بھی کھل کر گفتگو ہوا کرتی، کچھ عجیب سے کشش تھی کہ
جانے کے بعد اٹھنے کو جی نہ چاہتا، اکٹر کئی کئی ہفتے ہوجاتے تو محبت بھرے
انداز میں فرماتے کہ ’’صمدانی صا حب اگر میں صحت مند ہو تاتو از خود آپ کے
پاس چلا آتا، ان کے اس جملے سے میں شرمندہ ہو جا یا کرتااور آئندہ کوتاہی
نہ کرنے کاوعدہ کرتا۔ مرحوم کو اس بات کا شدت سے دکھ تھا کہ اُن کی اولادوں
میں لائبریرین تو بنے لیکن تصنیف و تالیف کی جانب کوئی مائل نہ ہوا، اپنی
تصانیف کی تکمیل خصو صاً پروف ریڈنگ کے سلسلے میں اپنی شریک حیات کی خدمات
کی ہمیشہ تعریف کیا کر تے۔اپنی شریک زندگی کی جدائی کا آپ کو شدید صدمہ
ہواآپ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے، اکثر کہتے ’’صمدانی صاحب میری بیوی
نہیں مری بلکہ میں مر گیا‘‘۔ اس حادثے کے بعد آپ کو پروف ریڈنگ میں مشکلات
پیش آنے لگیں، جن کا ذکر آپ نے بارہا کیا،یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کی
آخری کتاب جس کا عنوان ہی ’’میری زندگی کی آخری کتاب‘‘ تھامکمل نہ کرسکے،
شا ید قدرت کو یہی منظور تھا
وہ مجھ پہ مہر باں تھے ابھی کل کی بات ہے
اور سوچئے تو جیسے زمانہ گزر گیا
یہ عظیم ہستی بروز اتوار ۲ فروری ۱۹۹۲ء کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی اور
ہم ایک محبت کرنے والے شخص سے محروم ہوگئے۔ انا اﷲ و انا علیہ راجعون۔
مت سہل ہمیں جانو پھر تا ہے فلک بر سوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
(مطبوعہ پاکستان لائبریری بلیٹن۔جلد ۲۴ شمارہ ۴ ، دسمبر ۱۹۹۲ئمصنف کی کتاب
’’یادوں کی مالا ‘‘شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل ) |
|