اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے

فرعونی اور قارونی طاقتوں نے مختلف لبادہ اوڑھ کر سفینہ پاکستان کو اپنے حقیقی ساحل سے ہمکنار ہونے سے روکا۔ مگر شدید طوفانوں کے تھپیڑوں اور ہلاکت خیز موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی منزل کو پانے ہی والا ہے۔ اب جب یہ اپنی منزل کے قریب تر ہوگیا تو طاغوتی طاقتوں نے بھی اپنے تمام مالی ،فکری اورشاطرانہ وسائل انقلاب اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیئے جھونک دیئے ہیں۔ پرویز مشرف کی جلائی ہوئی آگ کے شعلوں نے پاکستان کی سلامتی کے لیئے خطرات پیدا کردیئے۔ اسی ملک کے وفاداروں اور جاں نثاروں کو ورغلا کر مسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ کردیاگیا۔ عساکر پاکستان ہی اول وآخر پاکستان کی وفادار اور محافظ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام ، خونخوار اور غاصب جمہوریت کے مقابلے افواج پاکستان کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس جمہوریت میں دولت کے بل بوتے حکومتی اہلکاروں کو خرید کرمن مانے نتائج برآمد کراکے کرسی اقتدار پر براجماں ہوکر عوام کی ہڈیاں چبانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سول ادارے سبھی ان خونخوار درندوں کے زیر اثر ہیں۔ عدلیہ ہو یا پولیس سبھی انکی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں اگر عوام احتجاج کریں تو انہیں خاموش کرانے اور سبق سکھانے کے لیئے عوام کا نمک خوارپولیس کا محکمہ ہمہ وقت غاصبوں کی پوجا کرتا ہے۔پہلے تو صرف مقدمات بنانے تک پولیس محدود تھی مگر اب مسلم لیگ کے نام پر دھبہ گلو بٹ پولیس سکواڈ کی قیادت کرتا ہے اور نعرہ حیدری لگاکر پولیس اسکے زیر کمان ایک دینی علمی مرکز منہاج القرآن پر حملہ آور ہوتی ہے۔ سیدھی گولیاں برسا کر سبق سکھانے کی وصیت پوری کی۔ موجودہ حکومت اس قدر بد حواس ہوچکی ہے کہ اپنے سرگرم اور جاں نثار کارکن جناب گلو بٹ صاحب سے ناطہ توڑ چکی ہے۔ گلو نے وفا کی مگر اسکے ساتھ مسلم لیگی قیادت نے جفا کی۔ گلو بھائی تمہیں معلوم نہیں کہ نیچوں سے یاری کا نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔جو کچھ عدالت کے باہر گلو کے ساتھ ہوا، بیچا رہ شدید زخمی ہوا۔ اب یہی ہے کہ دوسرے گلو اس سے سبق سیکھیں۔ اس نے سرفروشی اور طوالت شوارب میں رانا ثناء اﷲ صاحب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جان ہتھیلی پر رکھکر پولیس کی قیادت کی ۔ مونچھوں پر تاؤ دے کر اہل مسجد کو للکارا۔ سر عام بیٹ سے گاڑیوں کی وہ گت بنائی کہ آج تک ایسی سعادت کسی جماعت کے کارکن کو نہ ملی ہوگی جو نون لیگ کے اس مجاہد کو ملی۔ پاکستان کی تاریخ میں لیاقت باغ کا قتل عام اور 31 مارچ 1977 کو بھی پولیس کی کارکردگی نمایاں رہی لیکن منہاج القرآن پر پولیس کے حملے اور اسلحہ کے دلیرانہ استعمال کے سامنے سبھی ہیچ ہے۔ یزید نے ابن زیاد کو سیدنا حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کے بارے پورے اختیارات دیئے ۔آپ رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد یزید نے عوامی غصے اور انتقام سے بچنے کے لیئے واقعہ کربلا کا سارا ملبہ عبد اﷲ بن زیاد پر ڈال دیا۔ تو ابن زیاد نے کہا کہ قاتل وہ ہے جس نے قتل کاحکم دیا۔ یزید نے کہا وہ کون ہے تو ابن زیاد نے کہا کہ وہ تم ہو ۔ تم نے امام حسین رضی اﷲ عنہ کو شہید کرنے کا حکم دیا تھا جس پرمیں نے عمل کیا۔ اب مجھے برا بھلا مت کہو۔ سانحہ لاہور کے بارے بھی جب وزیر اعلیٰ نے بڑے پولیس افسران کی معطلی کے احکامات دیئے تو وہ بپھر گئے اور کہا کہ جناب نے ہی تو حکم دیا تھا کہ منہاج القرآن والوں کو سبق سکھاؤ۔ تو ہم نے سکھا یا۔ پھر جناب نے انہیں صرف آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی بنا دیا۔ پولیس افسران کی صحت پر اس سے کوئی برا اثر نہیں پڑا۔ حکومت کی حواس باختگی کا یہ عالم ہے کہ بلاتاخیر دہشت گردی کاپرچہ کٹوایااور جناب حسین محی الدین پسر جناب شیخ الاسلام کا نام سرفہرست رکھا حالانکہ وہ وہاں موجود نہ تھے۔ جب عدالت نے ریکارڈ مانگا تو پولیس والوں نے ابن شیخ کا نام حذف کردیا۔ اس سانحہ نے طالبان کی دہشت گردی کو بھی مات کردیا۔ جہاں محافظ ہی قاتل بن کھڑے ہوں وہاں کے عوام کیا کریں گے۔ دراصل کافرانہ نظام میں یہی کچھ ہوتا۔اسی نظام کے خلاف ملک کی سبھی جماعتیں اب متحد ہیں۔ اب عوام کو انصاف چاہیئے، اپنا حق چاہیئے، کون نہیں دیتا؟ اب عوام یہ سب کچھ لینے کے لیئے کھڑے ہورہے ہیں۔ منہاج القرآن کا تقدس پامال کرنے والے، قاتل اور لٹیرے یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ملک اور اقتدار اﷲ ہی دیتا ہے۔ اس میں انسان کے لیئے بڑی آزمائش ہے۔ جس کا ادراک ہمارے برسراقتدار طبقہ کو نہیں۔ جاتی امرا کے محلات فرعون ، نمرود ، شداداور قوم ھود سے زیادہ مضبوط نہیں۔ کیا نہتے اور اﷲ کے دین کے علمبردار مردوزن کا خون رائیگاں چلا جائے گا۔؟ ایسا ہرگز نہیں۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ کتنے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے بلکہ اس سانحہ جانکاہ پر پوری دنیا مغموم ہے۔ لیکن حکمران طبقہ وزیر اعلیٰ ، رانا ثناء اﷲ اور دیگر وزرا ء بڑی ڈھٹائی سے عیارانہ بیان بازیوں پر تلے ہوئے ہیں۔ آج میڈیا اس قدر مستعد ہے کہ تمام ٹی وی چینلز نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیاہے۔ادھر ایم کیو ایم نے سانحہ لاہور پر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ادھر انکی رکن قومی اسمبلی پر گولیاں برسادی گئیں۔ عورتوں کے حقوق بارے پہلے ہی دنیا پاکستان کو نشانے پر رکھتی ہے مگر اب تو پنجاب حکومت نے عورتوں کو قتل کرکے اسلام دشمنوں کا کام آسان کردیا۔ جج صاحبان کیا ان سب حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے رانا ثناء اﷲ، وزیر اعلیٰ، گلو بٹ اور پولیس کو بے گناہ ٹہرا کر شہید اور زخمی شریف شہریوں کو مورد الزام ٹہرائیں گے؟ حکمران طبقہ دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کی کاروائی سے خوش نہیں ہے۔ اسی لیئے امن عامہ خراب کرنے کی سازش کی گئی ۔ اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان کے عوام اس مذموم حرکت کے باوجود اپنی مسلح افواج کی ضرب عضب میں انکے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت بھی علامہ طاہرالقادری کے ایجنڈے پر ایک ہیں۔ دو ہی مقصد ہیں، ضرب عضب کی کامیاب تکمیل اور دس نکاتی ایجنڈے کا نفاذ ۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان عظیم مقاصد میں قوم کو کامیاب فرمائے۔ آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140732 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More