مینڈ کا جھگڑا مینڈ پر طے نہیں ہوتا
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
پچھلے دنوں ملک بھر میں پے در پے
کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، کہ اچھے خاصے تجزیہ کار اور سمجھ دار لوگ بھی
ان کی کوئی توجیہ کرنے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے انگشت بدنداں تھے،بالخصوص
سانحۂ ماڈل ٹاؤن،کہ دونوں فریق پھاٹک کا جھگڑا پھاٹک ہی پر حل کرنے کے لئے
تُل گئے۔ایک طرف ملکی افواج میدانِ کارزار میں، دوسری طرف حکومتِ وقت نا
عاقبت اندیشانہ حرکتوں میں،تیسری طرف ’’شیخ الاسلام‘‘ کی بے جا آن لائن
پریس کانفرنسز اور شعلہ بداماں بیانات وخطابات۔کسی کوملک کی بد نامی کی
پرواہ،نہ قیمتی جانوں کے ضیاع پر خوفِ خدا، شیخ الاسلام کو تو چھوڑیئے،
شہباز شریف ایک زیرک اورمعاملہ فہم سیاستداں سمجھے جاتے ہیں،تعجب ہے پھر
بھی اس قدر خون خرابہ،کیا یہ بیرئر کواسی رات ہٹانا اتنا ضروری تھا ، کہ
کشتوں کے پشتے لگ جائیں، تب بھی تاخیر ممکن نہیں تھی،نہیں ، یہ بات نہیں ،
بات ہے سوچ سمجھ کی، عقلانیت اور تدبرکی، عواقب پر نظر اور دور اندیشی کی،
قارئین کے سامنے ذیل کی مثال سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائیگی۔
’’دوکسانوں کے کھیت ملے ہوئے تھے ،ان کے درمیان ایک مینڈکا جھگڑا ہوگیا،
ہرایک کہتاتھاکہ مینڈ ،یامنڈیر،کنارہ اور پشتہ میری ملکیت ہے ، دونوں کھیت
کی مینڈپر لڑگئے، یہ جھگڑا پہلے ’’ مینڈ ‘‘ کاتھا ،پھروہ ’’ساکھ اور عزتِ
نفس‘‘ کا مسئلہ بن گیا، ہرایک کو دکھائی دینے لگا کہ مینڈ سے ہٹنا لوگوں کی
نظر میں اپنے آپ کو بے عزت کرناہے ، چنانچہ جھگڑا بڑھتا رہا، یہاں تک بڑھا
کہ دونوں طرف کئی لوگ قتل ہوئے ، کھیت کاٹے گئے ، دونوں نے ایک دوسرے کی
چیزیں جلائیں ، اس کے بعد معاملہ اور بڑھا ، پولیس اور عدالت کا معاملہ بن
گیا ، مقدمہ بازی کا لمبا سفر شروع ہوگیا، یہ مقدمات 20 سال بعد صرف اس وقت
ختم ہوئے ،جب جانبین کے کھیت ،باغ ،زیورات سب بک گئے ، ایک معمولی مینڈ کو
پانے کے لئے دونوں نے اپنا سب کچھ کھودیا۔
یہی مینڈ کا جھگڑا ایک اور کسان کے ساتھ پیدا ہوا، مگر اس نے فوری اشتعال
کے تحت کا روائی کرنے کے بجائے اس معاملے پر غور کیا، سمجھ دار لوگوں سے
مشورے کئے ، آخر کا راس کی سمجھ میں یہ بات آئی، کہ مینڈ کا جھگڑا مینڈ پر
طے نہیں ہوتا،جھگڑے کو طے کرنے کی جگہ دوسری ہے ، یہ سوچ کر اس نے جھگڑے کی
مینڈ چھوڑدی ،اس نے یہ کیا کہ مسئلہ پر’’ آج ‘‘ سے سوچنے کے بجائے ’’پیچھے
‘‘ سے سوچنا شروع کیا، مینڈ کے واقعہ سے اس کے دل کو بھی چوٹ لگی ، اس کو
بھی اپنے نقصان او راپنی بے عزتی سے وہی تکلیف ہوئی ،جوہر انسان کو ایسے
وقت پر ہوتی ہے ، مگر اس نے اپنے جذبات کو تھاما، فوری جوش کے تحت کاروائی
کرنے کے بجائے، سوچ سمجھ کر اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس دل ہی دل میں کہا:میرے حریف کو میری مینڈ پر قبضہ کرنے کی جرأت ہی کیوں
ہوئی ؟ اس سوال پر غور کرتے کرتے وہ اس رائے پر پہنچا ،کہ اس کی وجہ حریف
کے مقابلہ میں میری کمزوری ہے ، میرا اور حریف کااصل معاملہ مینڈ کا معاملہ
نہیں ہے ، بلکہ اصل معاملہ یہ ہے، کہ میری پوزیشن میرے حریف کے مقابلے میں
اتنی زیادہ نہیں ،کہ وہ مجھ سے دبے اورمیرے حقوق پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ
کرے ،ٹھنڈے ذہن سے سوچنے کے بعد اس کی سمجھ میں یہ بات آئی، کہ اگر وہ اپنی
طاقت اور حیثیت کو بڑھالے، تو وہ زیادہ بہتر طور پر اپنے حریف کے مقابلہ
میں کامیاب ہوسکتاہے ، کیونکہ اس کے بعد اس کے حریف کو اس کے اوپر دست
اندازی کی جرأت ہی نہ ہوگی ۔
اب اس نے اپنے کھیتوں پر پہلے سے زیادہ محنت شروع کردی، جو طاقت وہ حریف کو
برباد کرنے کی کوششوں میں لگاتا ،اسی طاقت کو اس نے خود اپنی تعمیر میں
لگانا شروع کردیا ، اس نئی فکرنے اس کے اندر نیا حوصلہ جگا دیا، وہ نہ صرف
اپنے کھیتوں میں زیادہ محنت کرنے لگا بلکہ کھیتی کے ساتھ کچھ اور قریبی
کاروبار بھی شروع کردیا، اس نئے شعور کا نتیجہ یہ ہوا، کہ اس نے اپنی زندگی
کو ازسرِنَومنظم کیا ،وہ خرچ کم کرنے اور آمدنی کو بڑا نے کے اصول پر سختی
سے عمل کرنے لگا ، اسی کے ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم کی راہ پر لگادیا ،اس نے
طے کرلیا، کہ اپنے ہر بچے کو اعلی مرحلے تک تعلیم دلائے گا ۔
اِس دوسرے شخص کو بھی اپنی کوششوں میں اسی طرح 20سال لگ گئے، جس طرح پہلے
شخص کو 20 سال لگے تھے ،مگر پہلے شخص کے لئے 20 سال بربادی کے ہم معنی تھے،
جب کہ دوسرے شخص کے لئے 20 سال آبادی کے ہم معنی بن گئے ، اس 20 سال میں اس
کے بچے پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر پہنچ چکے تھے، اس نے اپنی کھیتی اتنی
بڑھالی تھی ،کہ اس کے یہاں ہل بیل کے بجائے ٹریکٹر چلنے لگا تھا،جس کسان سے
اس کا مینڈ کا جھگڑا ہواتھا،اس کا وہ پورا کھیت اس نے مینڈ سمیت
خریدلیا۔جبکہ جس آدمی نے مینڈ کا جھگڑا مینڈ پر طے کرنے ی کوشش کی تھی، وہ
تباہ ہوگیا تھا ، اس کے برعکس جس نے مینڈ کو چھوڑ کر دوسرے میدان میں
مقابلہ کی کوشش کی ،وہ آخر کا ر نہ صر ف مینڈ کا مالک بنا ،بلکہ حریف کا
پورا کھیت اس کی قبضے میں آگیا ۔
بجلی کا بلب جلتے جلتے بجھ جائے ،یا پنکھا چلتے چلتے رک جائے، تو ہم بلب کو
توڑ کر نہیں دیکھتے، یا پنکھے سے نہیں الجھتے ،کیونکہ ہم جانتے ہیں ،کہ بلب
بجھنے اور پنکھا بند ہونے کی وجہ بلب اور پنکھے کے اندر نہیں، ان کے باہر
ہے، اور جہاں سے فرق پڑا ہو، وہاں درست کراکے اپنے بلب اور پنکھے کو چلا
لیتے ہیں ، انسانی معاملات بھی اکثر اسی قسم کے ہوتے ہیں، مگر عجیب بات ہے،
کہ بلب او رپنکھے کے معاملے میں جو بات آدمی کبھی نہیں بھولتا، اسی بات کو
انسانی معاملے میں ہمیشہ بھول جاتاہے ،آدمی کی یہ عام کمزوری ہے، کہ جب بھی
اس کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتاہے ،تو وہ اسی مقام پر اپنا سر ٹکرانے
لگتاہے ،جہاں مسئلہ پیدا ہوا ہے ،حالانکہ اکثر حالات میں یہ ہوتاہے، کہ
مسئلہ کہیں پیداہوتاہے اور اس کی وجہ کہیں اور ہوتی ہے ’’ حال ‘‘ کا ایک
واقعہ اکثر’’ماضی ‘‘ کے کسی واقعہ کا نتیجہ ہوتاہے، ایک معاملہ میں کسی کے
زیادتی اکثر حالات میں کسی اور معاملے میں پائے جانے والی ایک صورت حال کے
سبب سے وقوع میں آتی ہے ،ایسی حالت میں بہترین عقل مندی یہ ہے ،کہ آدمی
جائے وقوع پر سر نہ ٹکرا ئے، بلکہ اصل سبب کو معلوم کرکے ،بات کو وہاں بنا
نے کی کوشش کرے جہاں بات بگڑ جانے کی وجہ سے اس کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا
ہے، جس میں وہ آج اپنے کو مبتلیٰ پاتاہے ‘‘۔(رازِحیات:ص304) ۔
ہمارے یہاں سب ہی لوگ خواہ حکمراں ہوں یا حزبِ اختلاف ،سیاستداں ہوں یا
تاجر، علماء ہوں یا عوام،وہ مینڈ کا جھگڑا مینڈ ہی پر،پشتو کہاوت ’’دا گز
اَو دا میدان‘‘ کے طورپر حل کر تے ہیں،بلب بجھ جانے پر بلب کو، اور پنکھا
بند ہوجا نے پر پنکھا کوہی کوستے ہیں، وہیں پر مسئلے کا حل ڈھونڈ تے
ہیں،جہاں خرابی نظر آئی ہے،ذرہ ساپیچھے کی طرف ،اسباب اور عِلل کی تلاش میں
ان کی نگاہیں کبھی بھی نہیں جاتیں،نتیجتاً اپنا ہی نقصان بالائے نقصان
کربیٹھتے ہیں،پھر کفِ افسوس ملتے ہیں،رونا دھونا شروع کردیتے ہیں،مقابل کے
سامنے بھی اگر منت وزاری کرنی پڑے ،تو اس میں بھی کوئی باک محسوس نہیں
کرتے، لیکن بلاوجہ اپنا اور پرائے کا ستیا ناس کرنے کے بعد اب اس آہ وفغاں
کا کیا فائدہ؟
کاش ہم کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچیں،سمجھیں،اورتولیں پھر بولیں۔ |
|