اس عوامی اورمنتخب حکومت کے
برسراقتدار آتے ہی یار لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ’’ موجودہ حکومت
اپنی آئینی مدت پوری نہ کرپائے گی۔ کچھ یار لوگ کہتے کہ’’ یہ کیسے ممکن
ہوسکتا ہے کہ موجودہ منتخب حکومت کو مقررہ مدت سے قبل ہی گھر بھیج دیا
جائیگا؟ کیونکہ دستور پاکستان میں حکومتوں کے برسراقتدار آنے اور بے اقتدار
ہونے کا جو طریقہ کار متعین کیا گیا ہے اس کے مطابق حکومت انتخابات میں
کامیابی کے ذریعہ برسراقتدار آئے گی اور انتخابات میں ہی شکست سے دوچار
ہونے کی صورت میں اقتدار سے بے دخل ہوپائے گی۔اس کے علاوہ تیسرا راستہ کوئی
نہیں ہے۔اگر مگر چوں کہ چناچہ کے ساتھ کوئی تیسرا راستہ اپناتا ہے تو وہ
غیر آئینی ،غیر قانونی راستہ قرار دیا جائیگا۔ یعنی وہ راستہ مارشل لا کا
راستہ ہوگا۔
میرا یار لوگوں سے استدلال ہوتا کہ یاروں اوپر جن اصولوں اور آئینی طریقہ
کار کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے نہیں ہوتے یہ
اصول اور قواعد ضوابط ترقی یافتی ممالک میں تو پروان چڑھ سکتے ہیں بلکہ
وہاں ایسا ہی ہوتا ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ جمہوری رویہ دیکھنے کو ملتا
ہے۔مثال کے طور پر امریکہ میں الیکشن ہوئے تو کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن
کواوبامہ کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوتی سب نے دیکھا ……اس
سے قبل بھی ایک وزیر خارجہ پاول ہوتے تھے وہ بھی برسراقتدار پارٹی کی
اپوزیشن سے تعلق رکھتے تھے۔
پاکستان میں ایسی رواداری کی ایک مثال دیکھنے کو ملتی ہے ،پوری پاکستانی
تاریخ میں……وہ پچھلے زرداری دور میں جب انھوں نے مشرف دور کی قاف لیگ کے
شوکت ترین اور بعدازاں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو اپنا وزیر حزانہ بنایا۔باقی
ہماری تاریخ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جھگڑوں سے بھریہ پڑی ہے۔
ابھی یار لوگوں کے مابین یہ گفتگو جاری تھی کہ ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل
سوگوار اور پورا ملک غم کی فضا میں تبدیل ہوگیا……ماڈل ٹاون لاہور میں علامہ
طاہر القادری کے مرکز سکریٹریٹ کے راستوں سے برئیر ہٹانے کے نام پر لاہور
کی سوہنی دھرتی لہو لہو کر دی گئی……گیارہ انسان موت کی آگوش میں دکھیل دی
گئیں……جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔…… نیک نام حکمرانوں پر ہر طرف سے
تھو تھو کا شور برپا ہے……حیران ہوں میں کہ بھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومت
ایک ضعیف اور بیمار شخص کے کینڈا سے پاکستان پہنچنے کے اعلان سے لرزاں ہیں۔
اگر لرزاں نہ ہوتے تو ماڈل ٹاون جو حکمرانوں کا اپنا مسکن ہے وہاں اس قدر
خون خرابہ کے ذریعے علامہ طاہر القادری کو حراساں کرنے کی کیا ضرورت
تھی؟محض برئیر ہٹانے کے واسطے پینتیس سو پولیس اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنا
قابل غور بات ہے۔اس قدر پولیس اہلکار اسی ماڈل ٹاون کے علاقہ سے سابق گورنر
سلمان تاثیر کے بیٹے اور ایک امریکی شہر کے اغوا پر حرکت میں لائے جاتے تو
شائد یہ اغوا شدہ افراد بازیاب ہو چکے ہوتے یا پھر انھیں لاہور سے باہر
منتقل کرنا ممکن نہ رہتا۔
بہرحال ان یار لوگوں کی باتیں درست معلوم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ موجودہ
منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ سانحہ ماڈل
ٹاون کے رونما ہونے کے بعد حالات جس قدر تیزی سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں، ان
سے تو یہی لگتا ہے کہ موجودہ حکمران بھائیاں دی جکوڑی خاصی پریشان ہے۔ اور
سوچ رہی ہے کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا ہے اور کیسے ہو گیا ہے۔ اعلی سطح
پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے کہ حالات کو کیسے قابو میں رکھا جائے۔
معاملات کو جس تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے،اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اب بات
دور تک جائیگی، رانا ثنا اﷲ اور توقیر شاہ کی قربانی سے بات ختم نہیں ہوگی
بلکہ مذید آگے بڑھے گی…… رانا ثنا اﷲ اور توقیر شاہ کی قربانی فریقین کو
قبول نہیں ہوگی اور بات وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف کی
حکومت سے علیحدگی پر پہنچ بھی گئی ہے……اب کہاں جا کر رکتی ہے اس کے لیے
مہینوں نہیں ہفتوں تک انتظار کرنا ہوگا۔
ماڈل اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت عمر کہتے ہیں کہ ’’ دریائے دجلہ کے کنارے
ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو میں عمر اسکا ذمہ دار ہوں گا‘‘ پھر پاکستان کے
وزیر اعظم اور پاکستان کے پینسٹھ فیصد پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف ماڈل
ٹاون میں لہو میں لت پت ہونے والی گیارہ افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول
کرنے سے کیونکر گریزاں ہیں؟ کیا پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہے؟ کیا وزیر
اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلی اس کے حکمران نہیں ہیں؟
اگر ہمارے حکمران سانحہ ماڈل ٹاون کی ذمہ داری قبول کرکے اقتدار سے علیحدگی
کا اعلان کر دیں تو دونوں بھائیوں کا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا
جائیگا اور دونوں بھائی نہ سہی کم از شہباز شریف کو تو ذمہ داری قبول کرنی
چاہئیے کیونکہ لاہور پولیس میں تعینات افسران اور اہلکاران وزیر اعلی کی
چوائس تھی۔ میرے خیال میں ذمہ داری قبول کرنا ہی وقت کی آواز اور تقاضہ ہے۔
کیونکہ ’’یہی رخت ہے میر کارواں کے لیے‘‘ اگر ایسا نہیں سوچا جاتا تو
معاملات جس طرف جا رہے ہیں وہاں سے خیر کی خبر یں نہیں آیا کرتیں…… صلاح
عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے…… 23 جنوری اب کوئی دور نہیں کینڈا میں پرواز
کے اڑان پکڑنے تیاریاں زور شور سے جا ری ہیں، علامہ طاہرالقادری کو ان کے
خوابوں کی تعبیر ملنے امید لگ چکی ہے۔اس لیے وہ پاکستان ضرور آئیں گے……
سیانے لوگوں کا کہنا ہے کہ طاہر القادری کی پاکستان آمد سے ہی کسی کے بیرون
ملک جانے اور کئی افراد کے بیرون ملک جانے کو روکنے کے عمل کو یقین میں
بدلا جا سکے گا۔ |