بے حس پولیس ۔۔۔۔اور بے بس عوام
(Abdul Rauf Chohan, Lahore)
کچھ روز قبل خوبصورتی اور
کاروباری مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور
میں کم عمر معصوم بسمہ دنیا کے سامنے رو رو کر کہہ رہی تھی ہم بہن بھائیوں
کا کیا قصور تھا۔ہم سے ہماری ماں کو چھین لیا گیا،ہمیں یتیم کر دیا گیا،
30لاکھ کی امداد سے ہماری ماں واپس آجائے گی۔یا 30لاکھ ہماری ماں کی قیمت
ہے میں 30لاکھ کو اپنے پاوٗں کی جوتی مارتی ہوں ۔اس بچی سمیت لاہور کے کچھ
اور گھرانوں سے بھی اس بچی جیسی چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔کسی کی بہن
کہہ رہی تھی، میرا بھائی چلا گیا اب میرے سر پر ہاتھ کو ن رکھے گا۔کسی کی
ماں چلا رہی تھی اب مجھے آدھی رات کو ڈاکٹر کے پاس کون لیجائے گا۔کسی کا
باپ پروردگار کے حضور استدعا کررہا تھاکہ اﷲ میرے بڑھاپے کا سہارا کون بنے
گا۔تو کسی کا بھائی کہہ رہا تھا کہ بھائی اب مجھے نصیحتیں کون کریگا۔میری
غلطیاں کون نظر انداز کرے گا۔میں اپنے راز کس کو بتاؤں گا۔
دل کو دہلا دینے والی چیخ و پکار میں سے یہ کچھ افسوس ناک آوازیں تھیں
،17جون کی دوپہر ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر مرنے والے
مردوخواتین کے لواحقین کی۔جن کے پیارے بے حس لاہور پولیس کی اندھی گولیوں
کا نشانہ بنے ۔اور اپنے پیاروں کو دنیا سے الوداع کہنے پرمجبور ہوگئے۔مرنے
والوں کی موت کی مختصر وجوہات بتاتا چلوں کہ 16اور 17جون کی درمیانی رات
لاہور پولیس کی بھاری نفری نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر لگی
حفاظتی تجاوزات کو ہٹانے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا ۔ جیسے ہی پولیس نے
تجاوزات ہٹانے کے لییہلہ بولا ، وہاں پر موجود منہاج القران کے کارکنوں اور
پولیس کے درمیان پولیس کی جانب سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر تلخ کلامی
اور ہاتھاپائی ہوگئی ۔جس کے بعد لاہور پولیس طیش میں آگئی ۔اور موقع پر
پولیس کی بھاری نفری اکٹھی کی جانے لگی ۔سورج طلوع ہوتا گیا منہاج القران
کے سیکٹرئریٹ کے باہر اعلی پولیس افسران بھی اکٹھیہوتے گئے۔ڈاکٹر صاحب کی
رہائش گاہ کے باہرایس پی ماڈل ٹاون طارق عزیز ،ڈی آئی جی آپریشن رانا
عبدالجبار سمیت کئی اعلی پولیس افسران موقع پر پہنچ گئے ۔نہیں معلوم کس
دباؤ میں آکر پولیس افسران نے باہمی مشاورت سے تجاوزات کی آڑ میں سول اور
وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں اور سولین غنڈوں کو ڈاکٹر صاحب کے پیروکاروں
پر دھاوا بولنے کا حکم دیا۔پولیس کی جانب سے نہ کسی عورت کا حیا کیا گیا
اورنہ کسی بچے پر ترس کھایاگیا۔ نوجوان مردوخواتین کے ساتھ ساتھ ضعیف
بزرگوں کو بھی پولیس نے نہ بخشا ۔ بوڑھے مرد لاہور پولیس کے کچھ پتھر دل
سپاہیوں کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے ،انہیں واسطے ڈالتے رہے لیکن پولیس جوانوں
کے ساتھ ساتھ بزرگوں پر بھی اندھا دھند لاٹھیاں برساتی رہی۔پولیس کی جانب
سے سیدھے فائر کیے جانے لگے۔دوران آپریشن پولیس اہلکاروں کی بے حسی یہا ں
تک آن پہنچی کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے عورتوں کے نقاب نوچے جانے لگے
۔اور پولیس افسران اپنے جوانوں کو مزید بدمعاشی کرنے کے لیے انکو شاباش
دیتے رہے۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئیبلکہ پولیس جوانوں کی مدد کے لیے
سویلین غنڈے بھی بلوا لیے گئے ،جن میں سے آجکل گلوبٹ کا بہت چرچا ہے۔جو
منہاج القران کے اردگرد کھٹری گاڑیوں اور پرائیویٹ املاک کو توڑتا رہااور
ساتھ ہی ساتھ دوکانوں کے تالے توڑ کر ٹھنڈے مشروبات بھی چوری کرتا رہا ۔اور
چوری کے مشروبات پولیس اہلکاروں اور ایس پی ماڈل ٹاون کو بہت فخریہ انداز
میں پیش کرتا ۔ ایس پی ماڈل ٹاون گلوبٹ کو اسکی بدمعاشی اور غنڈہ گردی پر
شاباش دیتے رہے۔ جی ہاں یہی گلو بٹ پولیس کی ایک ٹولی کی سربراہی بھی کرتا
رہااور بہت ٖفخر سے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نعرے
لگاتا تو پولیس اہلکارانتہائی جوش میں اسکے نعروں کا جواب دیتے ۔ ایک طرف
ماڈل ٹاون میں پولیس آپریشن ہورہاتھا۔ تو دوسری جانب پنجاب اسمبلی لاہور
میں میاں محمودالرشید شور مچاتے رہے کہ ماڈل ٹاون میں پولیس بے گناہوں پر
گولیاں برسا رہی ہے لیکن انکو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ 17جون کو خون کی
ہولی سے شروع ہونے والی صبح سے سہ پہر تک جاری رہنے والے پولیس آپریشن میں
دس کے قریب لوگ مارے گئے اور 100کے قریب زخمی ہوئے۔اس افسوس ناک واقع کے
بعد خبر ملی کہ منہاج القران کے ایک دوست بھی اس واقع میں شدید زخمی ہیں
انکی تیمارداری کے لیے ہسپتال گیا تو مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے ،اور کہنے
لگے کہ آج آپ نے ظلم ہوتا دیکھ لیا ، ہمیں انصاف کے لیے آپکا ساتھ چاہیے
۔ہسپتال میں موجو دزخمیوں کی بھرمار دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔اور
یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تمام زخمی اپنے ہی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ
بنے ۔
اس تمام واقعے کے بعد پولیس افسران جھوٹے دعویٰ کرنے لگے ،ہمارے جوانوں نے
ہوائی فائر نہیں کیے ۔اور نہ ہی کوئی ذیادتی کی۔ان پولیس افسران سے پوچھا
جائے کہ میڈیا میں سیدھے فائر کرتے نظر آنے والے ،عورتوں کے نقاب نوچنے
والے ،عورتوں پر لاٹھیاں برسانے والے ، مردوں پرتشدد کرتے اور گلوبٹ کے
نعروں کا جواب دیتے نظر آنے والے اہلکار کیا پولیس فورس کے سپاہی نہیں تھے۔
میڈیا میں نظر آتے فائرنگ کرتے پولیس اہلکار کہیں انسانوں کوکٹ پتلیاں سمجھ
کر ان پر فائر تو نہیں کررہے تھے۔اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک عمل کہ
ایک طرف ریسیکیو ادارے بے ہوش زخمیوں کو اٹھارہے تھے تو دوسری جانب پولیس
کے سپاہی سٹریچرز پر موجود بے ہوش جوانوں پر بھی چھڑیاں برسا رہے تھے۔ اور
جب ایک سیاسی قائد نے پنجاب پولیس کے ظلم پر آواز اٹھائی تو وفاقی حکومت کے
ایک سنیئر وزیر نے انکو احسان فراموش کہہ کر پولیس کو بے گناہ ثابت کرنے کی
واضح کوشش کی۔
افسوس صد افسوس گڈ گورننس کے لحاظ سے مشہور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی
ماتحت پولیس نے ماڈل ٹاون میں مقبوضہ کشمیر سے بدتر صورتحال بنادی۔اور خادم
اعلی کے ارد گرد موجود لوگوں میں سے کسی نے بھی انکو واقع سے آگاہ نہ
کیا۔لیکن پھر بھی مرنے والوں اور زخمیوں کے لیے انصاف کی استدعا کرتے ہوئے
خادم اعلی کے لیے کچھ سوال چھوڑے جاتا ہوں۔جن کے جوابات کے بعد شاید کچھ
حقیت سامنے آجائے۔
ایس ایس پی CIA بھاری نفری کے ہمراہ ماڈل ٹاون آپریشن میں کس کے آرڈرز پر
پہنچے۔ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار کے موقع پر آنے کے بعد آپریشن میں
کیوں مزید سختی کردی گئی۔
منہاج القران انتظامیہ کی جانب سے عدالتی آرڈرزدکھانے کے باوجود پولیس نے
تجاوزات کو کیوں ہٹانا چاہا ۔یعنی پولیس نے اس آپریشن کی آڑ میں توہین
عدالت بھی کی۔
کس طرح جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ آئے بغیر پولیس نے طاہرالقادری کے بیٹے پر
مقدمہ درج کرلیا۔اور پولیس جوانوں نے کس آفیسر کے کہنے پر گولی
چلائی۔کیونکہ گولی چلانے کے لیے تو پولیس کو اعلی سیاسی حکام کی اجازت کی
ضرورت ہوتی ہے شاید اسکا جواب ایس پی طارق عزیزبہتر دے سکیں گے۔
میاں صاحب آپکی جماعت تو لال مسجد کی مثال دیتے ہوئے مشرف کو ظالم کہتی
تھی۔اب اپکی گورننس میں ایک بار پھر لال مسجد جیسا واقع دوہرایاگیا۔ اب آپ
اپنی حکومت کے بارے میں کیا کہیں گے۔
میاں صاحب کیاایس ایس پی ،سی سی پی او، اور ڈی آئی جی، کی سزا صرف تنزلی
ہے، میاں صاحب اگر آپ واقع ہی اس وقوعہ سے لاعلم تھے تو اپنے ارد گر د کالی
بھیڑوں کو پہچانیں،جن میں سے کسی کے کہنے پر تو پولیس جوانوں نے گولی چلائی
۔جن کی وجہ سے کمزور دل اور معصوم لوگوں کے دلوں میں سے آپکی محبت کم
ہوگئی۔جو یقینا 16جون تک آپ کے خلاف بات کرنے والوں سے ناراض ضرور ہوجاتے
تھے۔
لیکن میں منہاج القران کی انتظامیہ سے بھی کچھ کہنا چاہوں گا ۔اگرآپ رات کی
تاریکی میں لاہور پولیس کو تجاوزات ہٹانے بھی دیتے تو یقینا مرنے والے بچ
جاتے ۔اور چاہے منہاج القران انتطامیہ کے لوگ صبح ہوتے ہی لاہور پولیس پر
توہین عدالت کا مقدمہ دائر کر دیتے۔ کیونکہ بیرئرز ہٹانے کے خلاف اپنے
ورکرز کو ڈٹنے کا حکم دینایقینا مناسب نہ تھا۔ اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب
سے بھی درخواست کروں گا اس واقعے کے خلاف کوئی بھی احتجاج اور جلوس نکالنے
سے پہلے کم از کم جوڈیشنل کمشن کی رپورٹ کا انتظارکرلیں۔ کیونکہ موجودہ
حالات میں ملک پاکستان کی بہتری کے لیے جلے جلوسوں کہ نہیں بلکہ تمام
لیڈروں کے اتحاد کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ |
|