لائسنس ٹُو کِل
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
چند روز پہلے کی بات ہے کہ رات
کے اندھیرے میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع تحریکِ منہاج القرآن کے مرکز پر
بیریئر ہٹانے کے بہانے پنجاب پولیس نے چڑھائی کر دی۔ اس چڑھائی نے نہ صرف
جمہوریت کی قلعی کھول دی بلکہ پاش پاش کر دی۔ اور اس بد ترین سانحہ میں اب
تک غالباً بارہ افراد داعیٔ اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں، اور نوے کے قریب زخمی
حالت میں مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ کچھ کی حالت نہایت کریٹیکل بھی
ہے۔ اس دلدوز اور دلخراش سانحے نے پنجاب حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک
ایسے وقت میں یہ کاروائی کی گئی جب پاک افواج وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب
میں مصروفِ عمل ہیں اور پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا مشن لئے اور
ملک کے عوام کو امن و امان مہیا کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں۔اتنا بڑا
سانحہ کیسے رونما ہو گیا یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ خادمِ اعلیٰ پنجاب کہتے
ہیں کہ اس واقعے سے وہ لا علم ہیں، مان لیا جائے کہ وہ لا علم تھے لیکن
بارہ گھنٹوں تک موصوف کیسے بے خبر رہ سکتے ہیں۔ ملک کا میڈیا چیخ چیخ کر
بتا رہا تھا کہ یہ سب کچھ ہو گیا ہے ، اس کے بعد ان کی اس بات میں صداقت
نہیں کہ وہ لا علم رہے۔ ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید یہ آپریشن ان سے
پوچھے بغیر کیا گیا ہو۔ کیونکہ حکومت میں شامل تمام لوگ ایک ہی ذہن و دماغ
کے مالک نہیں ہوا کرتے۔ پھر یہ کاروائی کرنے کے لئے ایسے وقت کا انتخاب
کیوں کیا گیا جب طاہر القادری صاحب نے پاکستان آنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اور آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہونگے تو شاید وہ پاکستان میں آچکے ہوں گے یا
پہنچنے ہی والے ہوں گے۔ جمہوریت میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق سب کو حاصل
ہوتا ہے اگر اس حق پر قدغن لگایا جائے تو یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ
یہاں جمہوریت مکمل طور پر رائج نہیں ہے۔گیارہ بے گناہ معصوم لوگوں کا کیا
قصور تھا صرف اتنا کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ کسی اور
جماعت کے تھے۔اور جہاں تک بیرئیر کا تعلق ہے تو تقریباً ہی سیاسی جماعتوں
کے مرکزی دفاتر میں اس طرح کے بیرئیر لگے ہوئے ہیں۔ اور لگنا بھی چاہیئے
کیونکہ ملک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ سب کو اپنے تحفظ کا اختیار ہونا
چاہیئے۔اور کیا ایسے بیرئیر رائے ونڈ محل کی گلیوں میں نہیں ہوگا، یقینا
ہوگا، اس لئے دوسرے لیڈروں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے تحفظ کا حق استعمال
کریں۔
گو کہ خادم اعلیٰ صاحب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اپنی کابینہ کے اہم رکن
اور وزیر قانون پنجاب کو فارغ کر دیا ہے جبکہ اپنے پرنسپل سیکریٹری کو بھی
فارغ کر دیا ہے، یعنی یوں کہہ لیجئے کہ انہوں نے کابینہ کی پہلی قربانی دے
دی ہے۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ انصاف کے لئے انہیں ہٹایا گیا ہے، مگر تجزیہ
کار کہتے ہیں کہ انہیں چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے اور ان کا کچھ ہونے والا
نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ صرف ایک دکھاوا ہے۔فیس بک پر یہ بھی پڑھا گیا کہ رانا
صاحب کو اپنی مونچھیں بھی چھوٹی کروا لینی چاہیئے کیونکہ وہ ان مونچھوں کے
ساتھ چوہدری زیادہ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر قانون کم ہی
لگتے تھے۔
ایک سالہ نواز حکومت کی کارکردگی میں سرِفہرست مزدور دشمنی ہے، ان کے پہلے
دور سے لے کر آج تک سرکاری ملازمین کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک بھی
قابلِ قدر نہیں ہے۔ زرداری حکومت کو لوگ بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں مگر ایک
بات کی انہیں داد دینی پڑے گی کہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرکاری
ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔ مگر نواز حکومت کی سوئی
دس فیصد سے آگے ہی نہیں بڑھتی یعنی کہ ان کی حکومت کا یہ عمل سراسر
ناانصافی پر مبنی ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں سرکاری ملازمین بھی ان کی حکومت
سے خائف ہیں۔سانحہ لاہور کے بعد ان کی حکومت کو ایک اور دھچکا لگا ہے
کیونکہ اس سانحے کے بعد عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دیکھنے میں آ رہی
ہے۔ اگر اس آگ کو موجودہ حکومت نے ٹھنڈا کرنے کی اور اس پر پانی ڈالنے کی
کوشش نہیں کی تو یہ واقعہ حکومت کے لئے ایک بد نما داغ بن سکتا ہے اور
مستقبل میں یہ سانحہ حکومت کی تبدیلی بھی لا سکتی ہے۔ویسے بھی ملک بھر میں
اس سانحے اور ملازمین دشمن پالیسی اپنانے کے بعد اکثریت ہونے کے باوجود
تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی ساکھ کافی کمزور ہو گئی ہے۔
پنجاب کی پولیس نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں جس طرح کی ریاستی دہشت گردی کی اور
نہ صرف کی بلکہ بارہ تیرہ گھنٹوں تک اس دہشت گردی کو جاری رکھا، اس کے
باوجود کسی نے اسے رکوانے کے لئے کوئی ایکشن نہیں لیا۔یہ گلو بٹ کون ہے؟
شریف حکومت کہتی ہے کہ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ تو پھر میڈیا پر اس
کے کرتوت دیکھنے کے بعد کیا اندیشہ ہوتا ہے؟ پولیس کی موجودگی میں وہ توڑ
پھوڑ میں ملوث کیسے ہوا؟ پولیس کا بیج لگا کر کاروں کے شیشے توڑنے والا
کوئی حکومت مخالف تو ہو نہیں سکتا،اس گلو بٹ میں کوئی تو ایسی بات تھی جس
کے بنا پر اسے اتنی کھلی آزادی دی گئی تھی، یہ گلو بٹ شیر ہی ہو سکتا ہے جو
کھلے عام ماڈل ٹاؤن میں دندناتا پھر رہا تھا۔خیر جناب! نو لاشیں گرنے کے
بعد وزیر اعلیٰ صاحب جو کہ خود کو خادمِ اعلیٰ کہلاتے ہیں انہیں ہوش آیا کہ
اس معاملے پر کمیشن بنایا جانا چاہیئے۔اور ایسا بھی ہمارے ملک میں ہی ہوتا
ہے کہ کمیشن یا کمیٹی جب فیصلہ دے گی تب ہی کوئی استعفیٰ دے گا، جبکہ دوسرے
ملکوں کی طرح ہمارے یہاں یہ رواج ہی نہیں ہے کہ آپ پر قصور وار ہونے کا
الزام لگایا گیا ہے تو آپ استعفیٰ دے دیں، بے قصور ہونے کی صورت میں آپ کو
بحال تو کر ہی دیا جائے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے روز ایسا محسوس ہو رہا تھا
کہ کوئی مقبوضہ کشمیر کی پولیس یہاں آگئی ہے اور عوام کو اس طرح براہِ راست
فائرنگ کرکے شہید کر رہی ہے۔ پرویز الٰہی نے کیا خوب بیان دیا ہے کہ آج
لاہور میں شہباز حکومت نے وہی کچھ کیا جو بھارتی گجرات میں نریندر مودی نے
بیگناہ مسلمانوں کا خون بہا کر کیا تھا۔ وہاں بھی قرآن پاک شہید کیا گیا
اور یہاں بھی قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی، سب کچھ بھلایا جا سکتا ہے مگر
قرآن کی بے حرمتی اور بے ادبی کو کسی طور بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس
لئے خادمِ اعلیٰ کو چاہیئے کہ وہ فی الفور اپنا استعفیٰ گورنر پنجاب کو دے
دیں اور کمیشن کی رپورٹ ان کی بے گناہی ثابت کر دے تو وہ بلاتاخیر اپنی ذمہ
داریاں سنبھال لیں۔
شریف حکومت اگر بے قصور ہے تو ایف آئی آر کمیشن کی رپورٹ آنے سے پہلے کیسے
درج ہو گیااور کیونکر ہوگیا، پھر طاہر القادری صاحب کے بیٹے کو کیسے نامزد
کر دیا گیااور پھر بعد میں ان کا نام نکال بھی دیا گیا، جبکہ دنیا بھر نے
میڈیا کی آنکھ سے دیکھا کہ براہِ راست فائرنگ میں کون ملوث تھا، اور خواتین
کو کس طرح چادر و چار دیواری سے کھینچا جا رہا تھا، مدعی بھی وہی لوگ ہیں
جنہوں نے براہِ راست فائرنگ کا ارتکاب کیا۔ خدا کی پناہ! ایسے انصاف پسندوں
سے؟ اﷲ انہیں اور ہم سب کو ملک کی ترقی کی طرف راغب کرے، حکومت کو مہنگائی
ختم کرنے اور سرکاری ملازمین کے ساتھ بددیانتی سے باز رکھے،ایسے وزیروں اور
مشیروں سے حکومت کو فوری جان چھڑانا چاہیئے جو ان کی حکومت کی ساکھ کو
متاثر کر رہے ہیں تاکہ عوام کو اندازہ ہو کہ حکومت انصاف کر رہی ہے۔ سیاست
کم اور حقیقت کو سمجھنے اور جاننے والا بنائے تاکہ عوام کو شفاف انصاف
فراہم ہو سکے۔ |
|