بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارتی فوج اور خفیہ اداروں کی جانب سے ان دنوں القاعدہ اور طالبان کی
کشمیر آمد کا پروپیگنڈہ شدومد سے کیاجارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ امریکہ
کے خطہ سے نکلنے کے بعدالقاعدہ اور تحریک طالبان کشمیر کا رخ کریں گے اور
یہاں عسکری کاروائیوں میں شدت پید اکی جائے گی۔حال ہی میں ایک امریکی اخبار
گارڈین نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ القاعدہ کی مرکزی
قیادت کے ایک سینئر لیڈرنے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں کشمیری مسلمانوں کو
’’شام اور عراق کی طرز پر مسلح جہاد‘‘ شروع کرنے کی ترغیب دی گئی اور مبینہ
طور پر کشمیریوں کواس بات کی یقین دہانی کروائی گئی کہ جلد افغانستان سے
جہادیوں کا کارواں آرہا ہے جو کشمیرکو بھارتی قبضہ سے آزاد کروائے گا۔’جنگ
ابھی جاری ہے‘‘ کے عنوان سے جاری کی گئی ویڈیو میں القاعدہ پاکستان سیل کے
سینئر رہنما مولانا عاصم عمر کے بیان سمیت مقبوضہ کشمیر کی سڑکوں پر لوگوں
کے احتجاج اور بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم کے مناظر بھی شامل کئے گئے
ہیں۔کشمیری مسلمانوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عالی سطح پر جاری جہادی
سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ ویڈیو میں یورپ پر حملوں کا بھی مطالبہ کیا
گیاہے۔گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ ویڈیوایک ایسی ویب سائٹ پر جاری
کی گئی ہے جس میں وقتا فوقتا القاعدہ کے متعددلیڈروں کے بیانات اور ویڈیوز
جاری کئے جاچکے ہیں۔ چند دن قبل بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی نے انڈین آرمی
چیف جنرل بکرم سنگھ اور نامزد آرمی چیف لیفٹیننٹ آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ
کے ہمراہ دورہ کشمیر کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہاکہ
اگر القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند وادی کشمیر کا رخ کرتے ہیں تو بھارتی فوج
ان سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ ریاستی پولیس کے ایک سربراہ نے بھی اس سے ملتی
جلتی باتیں کیں اور اب بھارتی فوج کی 15ویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل
گرمیت سنگھ نے القاعدہ کی کشمیر آمد کی صورت میں کسی بھی چیلنج کا مقابلہ
کرنے کی صلاحیت رکھنے کے عزم کا اظہارکیا ہے۔
بھارت سرکار، اس کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے القاعدہ کی کشمیر آمد
کا پروپیگنڈہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے بھارت کے عسکری
وحکومتی حلقوں کی جانب سے اس طرح کے مذمو م پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ نے القاعدہ کو دنیا کے سامنے ہو ابنا کر پیش کیا اور اس بات کے دعوے
کئے گئے کہ القاعدہ مبینہ طوراس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ وہ امریکہ و یورپ
کے ہرملک کو نشانہ بنا سکتی ہے اس لئے اس کی قوت کو توڑنا ضرور ی ہے۔ نائن
الیون کے واقعہ میں القاعدہ کو ملوث قرار دیا گیااور پھر اسی بہانے
افغانستان پر چڑھائی کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ۔ اسی طرح
سابق امریکہ صدر جارج بش کے دور میں اسامہ بن لادن کے پاس ایٹمی بریف کیس
کی موجودگی کادعوی کر کے الیکشن جیتا گیااور پھر عراق پر چڑھائی کر کے دس
لاکھ سے زائد بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تاہم بعد میں اسامہ کے
ایٹمی بریف کیس اور عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے سب پروپیگنڈے
غلط ثابت ہوئے۔ بھارتی خفیہ اداروں کو عالمی سطح پر القاعدہ کے خلاف ماحول
اور پروپیگنڈہ کا بخوبی علم ہے ۔ اس لئے ان کی پوری کوشش رہی ہے کہ
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کسی طرح القاعدہ اور طالبان کے ساتھ جوڑ اجائے
تاکہ پوری دنیا میں تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کر کے نہتے کشمیریوں کی
پرامن جدوجہد آزادی کچلنے کیلئے ان کی مددوحمایت حاصل کی جاسکے اور دوسرا
عالمی انسانی حقوق کے ادارے جو وقتا فوقتا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے
بدترین مظالم، اجتماعی قبروں ، خواتین کی عصمت دری اور اس نوع کے سنگین
نوعیت کے جرائم کے حوالہ سے رپورٹیں نشر کرتے رہتے ہیں اور پوری دنیا پر
بھارت کی سبکی ہوتی ہے ‘ اس سلسلہ کو روکا جاسکے۔جہاں تک القاعدہ اورتحریک
طالبان کی کشمیر آمد کی بات ہے تو یہ بالکل فضول بات ہے۔اسامہ بن لادن کی
شہادت کے بعد القاعدہ کی موجودہ قیادت کے نظریات میں واضح تبدیلی نظر آتی
ہے۔اس کی توجہ نہ تو پہلے کبھی کشمیر کی طرف تھی اور نہ اب ہے۔ اسی طرح
تحریک طالبان اور کشمیری قیادت کے نظریات میں بعد المشرقین پایاجاتا ہے۔
بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور دیگر قائدین واضح طور پر تحریک
طالبان کے پاکستانی افواج پر حملوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے بار بار کہہ
چکے ہیں کہ وہ کلمہ طیبہ کی نام پر حاصل کئے گئے پاکستان میں کاروائیوں کے
ذریعہ ایسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر وہ خود بیٹھے ہیں۔اسلام بندوق اور
بارود سے نافذ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پاکستانی فوج، رینجرز، مذہبی و
سیاسی قیادت، ایئرپورٹ اور نیول ہیڈکوارٹرز جیسے حملوں سے شریعت لائی
جاسکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیری قیادت کے اتنے واضح موقف کے بعد
القاعدہ اور طالبان کے لیے کشمیر میں کوئی سکوپ نہیں ہے۔ کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی ایک مقامی اور خودمختار تحریک ہے ۔ مظلوم کشمیری مسلمان ایک
طویل عرصہ سے آٹھ لاکھ غاصب بھارتی فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ ڈیڑھ لاکھ
سے زائد شہادتیں پیش کرنے کے بعد بھی ان کا مورال اسی طرح بلند ہے اور
بھارتی فورسز کے مظالم ان کے جذبہ حریت کو سرد کرنے میں کامیاب نہیں ہو
سکے۔اس لئے اگر یہ کہاجائے کہ کشمیریوں کو بھارت کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے
کیلئے القاعدہ یا تحریک طالبان کے کسی تعاون کی ضرورت نہیں ہے تو بیجا نہیں
ہوگا۔ اس لئے تحریک طالبان کے کشمیر کا رخ کرنے کی باتیں انتہائی مضحکہ خیز
ہیں جس کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے۔بھارتی فوج اور خفیہ اداروں کی جانب
سے اس پروپیگنڈہ کے پیچھے اصل میں ان کی عسکری قیادت کے ذہنوں میں پایا
جانے والا وہ خوف ہے کہ جب امریکہ اور اس کے اتحادی اس خطہ سے نکلیں گے تو
پاکستان بھی بیرونی دباؤ سے آزادہو گا اورپھر کشمیری مجاہدین کی بھارتی فوج
کے خلاف عسکری کارروائیوں میں یقینی طور پر تیزی آئے گی جس سے پیدا ہونے
والی صورتحال کا مقابلہ کرنا اس کیلئے بہت زیادہ مشکل ہو گا یہی وجہ ہے کہ
بھارت باربار امریکہ کو باور کروارہا ہے کہ میں آپ کی ہر طرح سے مددکرنے
کیلئے تیار ہوں‘ آپ جتنی فوج کہتے ہیں میں افغانستان بھیج دیتا ہوں اور بھی
جس قدر سہولیات آپ کو چاہیے ہوں ہم دینے کو تیار ہیں مگر آپ یہاں سے نہ
جائیں کیونکہ آپ کے نکلنے کے بعد اس خطہ میں حالات پر قابوپانا مشکل ہو
جائے گا۔بہرحال ان دنوں بھارت سرکار کی طرف سے القاعدہ کی کشمیر آمد کا ہوا
کھڑا کرنے کا مقصد اسرائیلی طرز پر کشمیری پنڈتوں اور غیر ریاستی عناصر کو
مقبوضہ کشمیر میں بساکر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی خوفناک سازشوں کے
خلاف کشمیریوں کی تحریک سے توجہ ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت حریت کانفرنس
کے دونوں دھڑوں، جے کے ایل ایف، دختران ملت، فریڈم پارٹی آف جموں کشمیر اور
دیگر کشمیری قیادت اس بات پر متحد ہے کہ جس طرح اسرائیل نے یہودیوں کو دنیا
بھر سے لاکر انہیں فلسطینی علاقوں میں بسایا اور بسایاجارہا ہے اسی طرح
کشمیری پنڈتوں کی آڑ میں بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہندو انتہا پسندوں کو
یہاں لاکر آباد کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیاجائے گا۔ اس حوالہ
سے بھارت سرکار کی طرف سے کشمیر میں پنڈتوں کیلئے مختلف مقامات پر تین الگ
شہر بسانے کی منصوبہ بندی کا بھی انکشاف ہواہے اور اس سلسلہ میں جموں کشمیر
کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور
وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے خفیہ ملاقات بھی ملاقات ہوئی ہے جس میں اس بات
کا فیصلہ کیا گیاہے کہ کشمیری پنڈتوں کے شہر آباد کرنے کیلئے 16,800کنال
اراضی وقف کی جائے گی۔ ہر شہر میں 75ہزار سے لیکر ایک لاکھ لوگوں کو
بسایاجائے گااور ان قلع بند شہروں میں ایک میڈیکل کالج، دو انجینئر نگ کالج،
بارہ سکول اور چار پولیس اسٹیشن بنائے جائیں گے۔ یہ ریاست کے اندر ریاست
قائم کرنے کا ایک خوفناک منصوبہ ہے جس پر عمل درآمد کی کوششیں کی جارہی
ہیں۔جموں کشمیرکاکوئی مسلمان پنڈتوں کی واپسی کامخالف نہیں ہے۔ وہ پہلے بھی
آپس میں اکٹھے رہتے ہیں اور اب بھی رہ سکتے ہیں لیکن پنڈتوں کیلئے الگ شہر
بسانے اور ان کی آڑ میں ہندو انتہا پسندوں کو وہاں بساکر مسلم آبادی کا
تناسب کم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی اور نریندرمودی کی قیادت میں
آر ایس ایس کاکشمیر پر قبضہ کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
|