پاکستان میں حکومت اور طالبان درمیان جاری مذاکرات ناکامی
کاشکارہوکر ایک جنگ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر
ہوئے حملے کے تین بعد حکومت نے بڑے پیمانہ پر طالبان کے خلاف آپریشن شروع
کررکھا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور اسلامک مومنٹ گروپ نے قبول کی
تھی۔ ا ب تک تقریبا 50 سے زائد دہشت گرد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں وزیر
اعظم نواز شریف اس آپریشن کو طالبان کے خلاف بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے
ہیں۔ طالبان کے تئیں نرم رویہ اپنا نے والی تنظیم جماعت اسلامی اور تحریک
انصاف پارٹی نے بھی اس فیصلے پر ناگواری کا اظہار نہیں کیاہے۔افواجِ
پاکستان نے اِس آپریشن کا نام حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار کے نام
پر ضربِ عضب رکھا ہے ۔یہ تلوار آقا کوحضرت سعد بِن عبادہ نے دی اور غزوہ
بدر و اُحد میں استعمال بھی ہوئی ۔ یہ تلوار آج بھی قاہرہ کی جامع حسین میں
موجود ہے ۔ضربِ عضب کا لغوی مطلب ضربِ کاری ہے۔
پاکستانی ذرائغ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب حکومت نے طالبان کے خلاف یہ
سخت قدم اٹھایا ہے ۔ اور تقریبا سبھی جماعتوں نے اس کی حمایت کی ہے ۔لیکن
یہاں سب سے بڑاسوال پید ا یہ ہورہا ہے کہ طالبان کا یہ کوئی پہلا حملہ نہیں
تھا پھر کیا وجہ ہے نواز حکومت نے طالبان کے اتنا بڑا آپریشن شروع کررکھا
ہے ؟۔اس آپریشن کامقصد امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اس کے سوا کچھ اور
نہیں ہے جیسا کہ اس رپوٹ اس حقیقت پہ مہر صداقت ثبت کررہی ہے۔
2 جون 2014 کو امریکی سینیٹ نے سال 2015 کے لئے کارل لیون نیشنل ڈیفنس
آتھرآئزیشن ایکٹ کے تحت پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں فراہم کی
جانے والی 900 ملین یا 90 کروڑ ڈالر کی رقم کو موجودہ شرائط کے ساتھ ساتھ
نئی شق 1224 سے نتھی کرتے ہوئے رقم کی فراہمی کو پاکستان کی جانب سے فاٹا
کی ایجنسی شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کاروائی سے مشروط
کر دیا ہے! ایکٹ کی اس نئی شق 1224 کے تحت امریکی انتظامیہ پاکستان کو
کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں کوئی بھی قسط جاری کرنے سے پہلے کانگریس کو سند
جاری کرنے کی پابند ہے جس میں امریکی سیکریٹری برائے دفاع بیان کرے گا کہ
پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں خاطر خواہ
کامیابی حاصل کرتے ہوئے ان کی اکثریتی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا اور
دہشت گرد گروہ حقانی نیٹ ورک کی آزادآنہ نقل و حرکت کو با معنی حد تک محدود
کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
سال 2014 تک پاکستان کو ملنے والی یہی امداد 1,200 ملین یا 1 ارب20 کروڑ
ڈالر تھی۔ اسی طرح پہلے سیکریٹری برائے دفاع کانگریس کواس حد تک سند کرتا
تھا کہ پاکستان اپنی سرزمیں سے گزرنے والے امریکی ترسیلی روٹ کی سیکیورٹی
یقینی بنارہا ہے اور پاکستان نے القائدہ، پاکستان تحریکِ طالبان، حقانی نیٹ
ورک، کوئٹہ شورہ طالبان اور ان جیسے دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف
کاروائی میں قابلِ اثبات اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ان
گروہوں کی جانب سے پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے سرحد پار افغان
سیکیورٹی فورسز اور امریکی اہلکاروں پر حملوں کی روک تھام کے لئے موثر
طریقہ کار اپنانے کے علاوہ دھماکے سے پھٹ کر تباہی پھیلانے والے ہتھیار
بنانے میں استعمال ہونے والے مواد تک دہشت گرد وں کی رسائی روکنے کا خاطر
خواہ بندوبست کیا ہے۔
سال 2014تک بیان کردہ شرائط یا حد بندیاں امریکی سیکریٹری برائے دفاع کی
جانب سے دست کش کی جا سکتی تھیں پر اس صورت میں سیکریٹری برائے دفاع کی طرف
سے کانگریس کو یہ سند دینی پڑتی تھی کہ اس نے یہ فیصلہ وسیع تر امریکی مفاد
میں کیا ہے اور اپنے اس فیصلے کی مدلل وجوہات سے کانگریس کو آگاہ کرنا پڑتا
تھا ۔ اب سال 2015 کے لئے شق 1224 کے تئیں سیکریٹری دفاع اپنے اس قانونی
اختیار کا استعمال صرف60 کروڑ ڈالر تک کی امداد تک کر سکتا ہے۔ بقایا 30
کروڑ ڈالر محض اسی صورت میں پاکستان کو ادا کیے جا سکتے ہیں کہ اگر
سیکریٹری دفاع یہ سند جاری کرے کے پاکستان نے دیگر شرائط پوری کرنے کے ساتھ
ساتھ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف مو ثر ترین کاورائی سر
انجام دی ہے۔
سال 2015 کے لئے نیشنل ڈیفنس آتھرآئزیشن ایکٹ کی شق 1224کا خلاصہ تو یہ ہو
گیا۔ اب اس شق کا خلاصہ پیش کرنے کا مقصد آپریشن ضربِ عضب پر کسی قسم کا
سوال کھڑا کرنا نہیں۔ دوسرے زاویے سے دیکھنے کے بعد یہ بھی کہا جاسکتا ہے
کہ امریکہ نے 2015 کے لئے کولیشن سپورٹ فنڈکی فراہمی کو مزید سخت اور ٹھوس
شرائط سے مشروط کرتے ہوئے اس ایکٹ کی شق 1224 سے پاکستان کی حکومت اور
عسکری قیادت کودہشت گردی جیسے ناسور کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور کر دیا
ہے اور پاک حکومت حالیہ آپریشن کے ذریعے امریکہ کے حکم کی تعمیل میں شب
وروز سرگرم ہے اور بظاہر اس رپوٹ کو دیکھنے کے بعد یہی معلوم ہورہا ہے کہ
اس ضرب عضب کا مقصد محض امداد لینے کے لئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔
رسول پاک نے اس ضرب عتب کا استعمال کافروں کے لئے کیاتھا لیکن پاک حکومت
دشمنان اسلام کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف اس کا استعمال
کرکے رسول پاک کے مشن پر عمل پیراہونے کا دعوی کر رہی۔ ایئر پورٹ پر ہونے
والے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان مجرموں اور دہشت گردوں کے
خلاف کاروائی ضروری ہے لیکن جب امریکی فوج پاک شہریوں کا قتل کرتی ہے تو اس
وقت ضرب عضب کہاں غائب ہوجاتا ہے پاک فوج کے رہتے امریکی فوج آپریشن کرلیتی
ہے اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی ہے۔ اس آپریشن کانام ضرب عضب رکھنا میرے
خیال سے صیحیح نہیں ہے۔ |