کل،آج اور غالب

ملے دو مُرشدوں کو قُدرتِ حق سے ہیں دو طلب
نظام الدین کو خُسروسراج الدین کو غالب
۲۷دسمبر۱۷۹۷ء کالا محل آگرہ میں مرزا عبداﷲبیگ کے گھر عزت النساء بیگم کی گود میں ایک ایسی شخصیت نے آنکھ کھولی جس نے اپنی تہذیب کو اِنسانی نفسیات اور تاریخ دونوں میں موجود رہنے کے قابل بنایا۔
اُن کے تخیل نے تبدیلی کے راستے سے آدمی اور دنیا کوپرانا ہونے سے بچایااور اُن کی فکر نے غالباًپہلی مرتبہ ہماری تہذیب میں ایسی معنویت داخل کی جو صرف ذہنی نہیں تھی۔اُنہوں نے ذہن اور احساس کی بنیاد پر تقسیم شدہ اِنسانیت کو ایک ہونے کا ایسا موقع فراہم کیا جس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں کسی نظریاتی تحریک اور انقلابی طاقت کی ضرورت نہیں ۔وہ ہستی کے وفور کو ہم تک اس طرح منتقل کرتے ہیں کہ چیزیں ہمارے لیے کوئی نظریہ نہیں بنتی بلکہ تجربہ اور حال بن جاتی ہیں ۔جب مغلیہ سلطنت اور مسلم تہذیب دونوں مرجھانے کے عمل سے گزر رہی تھی،بظاہر چمک دمک تھی لیکن یہ سب کچھ ایسا ہی تھا جیسے مرنے والے کے زرد چہرے پر غازہ تھوپ دیا جائے۔اُنہوں نے بھانپ لیا کہ یہ تہذیب اپنے تمام ریاستی اور معاشرتی ادواروں سمیت ہاتھے کی دہلیز پر ہے۔اِس احساس میں ایسی شدت اور کیفیت تھی کہ اُنہوں نے اپنے فکر و خیال اور جذبات و احساسات سے لے کر الفاظ کے استعمال تک اپنے زوال آمادہ ماحول سے ایک بلندی پیدا کر دی۔

عظیم جرمن شاعرومفکرگوئٹے کی طرح اس عہد سازنے بھی اِنسان کے نفسیاتی اور تہذیبی پھیلاوٗمیں ایسے اضافے کیے جو آگے چل کر عالمگیریت کی بنیاد بنے۔اُن کا جوشِ تخیل اور ندرتِ فکر ایسی ہے کہ انہوں نے ہمارے وجودی تشخص کوہماری پہچان کے تمام دائروں پر غالب کر دیا۔اُن کے خاص کمالات میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے اِنسانی وحدت کو کوئی نظریاتی رنگ دینے کی بجاے ایک ایسی اُمنگ بنا دیا جس سے محروم رہنا گویا اِنسان بننے میں ناکام رہ جانا ہے۔شاید فلسفہ اپنی بہترین قوت کو بھی اِستعمال کر کے اِنسان اور کائنات کے بارے ایسے تصورات قائم نہیں کر سکتا جن کی بناوٹ اس قدر فطری ہو جتنی کہ اس بعیدالنظر انسان میں دیکھائی دیتی ہے۔

مشہور ادیب رشیداحمد صدیقی نے لکھا ہے ’’ مغل دور نے ہندستان کو تین چیزیں دی ہیں ۔تاج محل،اُردو زبان اور مرزا اسداﷲ خان غالب۔مغلوں نے پہلے تاج محل کی بنایا پھر اُردو زبان کی بنیاد ڈالی یہاں تک کہ تاج محل کی جمالیاتی حقیقت اور اُردو قوتِ اظہارغالب میں آ کر مکمل ہو گئی۔ان کے سامنے الفاظ کبھی علامت،کبھی اشارہ،کبھی استعارہ ،کبھی کیفیت،کبھی خیال اور کبھی احساس بن کرسامنے آتے ہیں‘‘
موجودہ دور کے بہت ہی پیارے تخلیق کار امجد اِسلام امجدکہتے ہیں:
:وہ زندگی کو ٹوٹیلٹی میں دیکھنے کی کوشش کرتاتھا۔اور ہر رنگ کو۔۔۔۔۔
؂ ہے رنگ لالہ وگل ونسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کااثبات چاہیے
تو یہ جو ہر رنگ میں بہار کا اثبات ہے۔۔۔۔

یہی چیز ہے کہ غالب کے یہاں ایک ڈیورسری نظر آتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں دوحدوں پر بات کرتا ہوا نظر آتا ہے۔لیکن جب وہ دونوں حدوں پر بات کرتا ہے تو اس کی بات میں ایک قوت ہوتی ہے ۔ہر تہذیب کے باطن میں ایک قوت ضرور ہوتی ہے جو اُسے سنبھالنے کا بھی کام کرتی ہے اور اُسے بدلنے کے بھی قابل بناتی ہے۔ہماری تہذیب کی یہ قوت اگر کسی ایک شخص میں مجسم ہوئی ہے تو وہ مرزا اسداﷲخان غالب ہیں ۔

غالب اُردو اور فارسی ادب کے ایک عظیم شاعر ہیں ۔انہیں شاعری کا کوہِ نور کہا جاتا ہے۔دادا بختاور سنگھ کے ہاں ملازم تھے۔والد جو کہ خانہ جنگی میں گولی کا شکار ہوگئے۔والد کی وفات کے بعد چچا نصراﷲبیگ نے پرورش کی۔نو سال کی عمر میں شعرگوئی پر دسترس حاصل کر لی تھی۔تیرہ برس کی عمر میں ریاستِ لوہارو،شہر کے رئیس کی بیٹی امراوٗ بیگم سے شادی ہوئی۔فارسی کی تعلیم مولوی معظم صاحب سے حاصل کی ۔۱۸۱۰ء آگرہ سے دلی آگئے۔
؂ رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہوہم زُباں کوئی نہ ہو
غالب کی ابتدائی شاعری اتنا مشکل اور بلند خیال تھی کہ لوگوں میں یہ عام کہاوت تھی کہ ـــــــــــــ؛غالب کی شاعری یا تو خدا سمجھتا ہے یا وہ خود۔کیا خوب فرماتے ہیں اس کے بارے
؂ یا رب وہ نہ سمجھے ہیں،نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل اُن کو،جونہ دے مجھ کو زباں اور

غالب لفظوں کی حدوں سے ماورا ہے ۔اُس کا اندازِ بیاں ہویا اندازِ ندامت ایک منفردحیثیت رکھتا ہے۔

شاہد موہالی (ڈائریکٹرغالب انسٹیٹوٹ)کہتے ہیں :
؛غالب ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے عظیم شاعروں میں ایک منفرد شاعر ہے؛

ڈاکٹرالوک واجپائی(دانشور)کہتے ہیں :
؛غالب کی اُردو میں وہی جگہ ہے جو ہندی کویتا میں کبیر کی۔کبیر کے لکھے ہوئے دوہے اور لکھی ہوئی باتیں ہندوستان کی سائیکی میں اس طرح شامل ہو گیں کہ نا جانے بھی لوگ کبیر کو کوڈ کرتے ہیں۔ویسے ہی مرزا غالب کی اُردو میں حالت ہے۔کیونکہ جس ہیومین رینج کو غالب نے
لکھا ہے وہ وقت کی مشکل ہویاچاہے وہ دوری ہو:
؂ بازیچہء اَطفال ہے دنیا مِرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے

اعجاز احمد بٹالوی نے لکھا ہے۔

’’ شعر الفاظ ومعنی کا روپ محل ہیں غزل کا شعر تو اعجاز و اقتصارکا حسن ہے۔یہ اپنے بظاہردومصرعوں میں معنی کی دنیائیں لئے ہوتا ہے‘‘
صوفی غلام محمد تبسم نے کہا ہے ۔

’’حیاتِ انسانی کی غرض وغائت،فلسفہ ء مرگ ،صحیح وغلط کی انتہاء،خوشی وغم،غلامی وآزادی کی زندگی حسن کی رنگین ادائیں ،فطرت کی دل فریبی،عشق کی وارفتگی وبے چارگی،مجاز و حقیقت یہ تمام باتیں غالب کے موضوعاتِ شاعری ہیں‘‘۔

ماہرِ عروض ،شاعر،محقق ونقاد فریدساجد کہتے ہیں۔

’’خواتین کی عزت و حرمت اورخدابندے کے گھر پیدا ہونے والا غالب نہ صرف تاحیات اُردو ادب پرغالب رہابلکہ جب تک اُردو زبان باقی رہے گی غالب اس کے ادب پر غالب رہے گا‘‘۔

تہتر سال اور کچھ دن کم چارماہ کی عمرپا کر ۱۵فروری۱۸۶۹ء کولقمہء اجل بن گئے۔ہر آنے والا دن غالب کو غالب کر رہا ہے اور قیامت تک غالب ،غالب رہے گا۔
Muhammad Abu Zar Mehdi
About the Author: Muhammad Abu Zar Mehdi Read More Articles by Muhammad Abu Zar Mehdi: 5 Articles with 5216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.