عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر
طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر تمام سیاسی جماعتوں کو اے پی سی میں
شرکت کی دعوت دی تھی تاہم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے شرکت سے
معذرت کرلی جبکہ قادری صاحب کے گھر میں دنیا کے سامنے میڈیا کے توسط سے
بدترین بے عزتی کے باوجود مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری برادران ، ڈاکٹر
طاہر القادری کی بلائی گئی اے پی سی میں یقینی شرکت پر کمر کس لی جبکہ توقع
کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے شرکت پر آمادہ ہوئی تو با لاآخر تحریک انصاف
نے بھی انقلاب ٹرین میں سیٹ ریزو کرانے کیلئے رضامندی ظاہر کردی۔بظاہر اے
پی سی کا واحد ایجنڈا ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر تجاوزات
ہٹانے کی غرض سے پولیس اور تحریک منہاج القرآن کے درمیان جھڑپوں میں
12افراد کی ہلاکت اور80سے زائد افراد کے زخمی ہونے کا تھا لیکن پس پردہ
جمہوریت کی ٹرین کو پٹری سے اتار کر رائے ونڈ سے ماڈل ٹاؤن لانے کا منصوبہ
ہے۔
اس موقع پر قابل تحسین پی پی پی (پاکستان پیپلز پارٹی) اور اے این پی (عوامی
نیشنل پارٹی) کا جمہوری فیصلہ ہے کہ انھوں نے طاہری اے پی سی میں شرکت سے
انکار کرکے صائب فیصلہ کیا اور طاہری ایجنڈے سے گریز کی راہ اختیار کی۔طاہر
القادری کی جنونی کیفیت کی بنا ء پر عوام میں سخت بے یقینی پائی جاتی ہے
کیونکہ پاکستان میں ایک طرف شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے جس کے خلاف پاک
افواج حالت جنگ میں تو دوسری جانب روز بہ روز سیاسی بحران بھی شدت اختیار
کرتا جا رہا ہے اور لاکھوں آئی پی ڈیز کی بحالی سنگین انسانی مسئلہ بنتا جا
رہا ہے۔ اس سے تمام سیاسی حلقوں اور عوام میں بے چینی پیدا ہوچکی ہے کہ
جمہوریت کی گاڑی میں سوار ہونے والوں کو کسی نہ کسی صورت روکنے کی کوشش کی
جا رہی ہے اور پرواز میں سوار ہونے والے ایسے مسافر بورڈنگ ٹکٹ حاصل کرنا
چاہتے ہیں ،جو قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے قرضے معاف کرانے سمیت
متنازعہ ملکی معاملات میں ملکی ساکھ کومتاثر کرچکے ہیں۔اب جیسے جیسے طاہری
جوش خروش کے بیانات آرہے ہیں تومسترد لیڈراَن کی توجہ خصوصی طور پر ایسی
پروازوں پر مرکوز ہوچکیں ہیں جو انھیں ہر صورت اسمبلیوں اور پھر ایوان
اقتدار تک پہنچا سکے۔
عوام اپنی حالت تبدیل کرنے کیلئے کچھ کر سکی گی یا نہیں اس بارے میں تو
کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی کیونکہ جس طرح سیاسی جماعتوں میں کھمبوں
پر چڑھنے اور مسلسل جمہوریت کے خلاف احتجاج کے واقعات منظر عام پر آرہے
ہیں، جو ایسی سیاسی جماعتوں کے منشور پر سوالیہ نشان ہیں۔ بظاہر عدم برداشت
کی ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کو اپنے مطالبات منوانے کا اس سے سنہرا موقع
نہ جانے پانچ سال بعد ملے گا یا نہیں ملے گا ۔ لیکن چند ہفتوں میں ایسے
دودھ کے دُھلے سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے ضرور موجود ہیں ، جو جاگیرادری
،وڈیرانہ نظام ،سرمایہ داری اور خوانین کے زعم میں اپنے "غلاموں" سے خود کو
منتخب کرانے کی کوشش میں کامیاب ہوتے رہے ہیں اگر عوام کو صحیح معنوں ایسے
لوگوں کو سیاسی کلچر کے منظر نامے اور اپنی تقدیر کے فیصلے سے دور کرنا
مقصود ہے تو پھر انھیں ہر صورت مسترد کرنا ہوگا ۔یقینی طور پر سب فرشتے
نہیں ہونگے ، لیکن سب شیطان بھی نہیں ہونگے ۔ اسلاف پرستی اور شخصیت کے سحر
کو توڑ کر ایسی شخصیت پر اعتماد کرنا ہوگا، جس کا ووٹ آپ کے حلقے میں ہو ،
گذشتہ دور حکومت میں آپ کے مصائب و تکالیف کو دیکھنے اور پوچھنے کیلئے ، آپ
کے پاس اسی طرح آیا ہو جس طرح بھکاریوں کی طرح ہمیشہ ووٹ مانگنے کے بعد
غائب ہوجاتے ہیں۔ عوام کوان لوگوں پر اعتماد کرناہوگا جن سے ملنے جب آپ ان
کی دفتر ، حجرے ،ڈیرے پہنچتے تھے تو انھوں نے آپ کو دھتکارا نہ ہو ،گھنٹوں
انتظار نہ کرایا ہو ۔یقینی طور پر ہم سب کو یہ سمجھ لینا چاہےء کہ حکومتی
معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کا حق ہم خود مہیا کرتے ہیں ، ایسے
احسان فراموشوں کی پشت پناہی کرکے ہم اپنے پیروں پر کلہاڑی خود مارتے
ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کی سرگر میوں کو مناسب قرار دیا جاسکتا
ہے لیکن ملکی معاملات میں قوت فیصلہ کی حامل شخصیات کا انتخاب ہمارے ہاتھ
میں ہے۔روز بہ روز بڑھتی دہشت گردی ، معاشی اور سیاسی بحرانی کیفیت کے ذمے
دار ہم خود ہیں۔کیونکہ ہم اپنی ذمے داری انفرادی حیثیت میں بھی پورا نہیں
کرتے۔
اس حقیقت کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملکی حالات کو اس نہج
تک پہنچانے کی کچھ نہ کچھ ذمے داری سیاسی قوتوں ، سیاسی افراد ، غیر جمہوری
اداروں اور عوام پر مشترکہ عائد ہوتی ہے۔سیاسی وابستگیوں اور من پسند
جماعتوں کی مخالفت میں اس قدر حد سے گذرا جاتا ہے کہ نہ صرف اپنا مستقبل
داؤ پر لگا دیتے ہیں بلکہ ملک کو بھی آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکا
دیا جاتا ہے۔بڑی سیاسی جماعتیں ملکی میں جاری عوامی مسائل پر سالوں سال
خاموش رہتی ہیں لیکن جب الیکشن قریب آجاتے ہیں تو اقتدار کیلئے سیٹ
ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ان کے مفادات یکجا ہوجاتے ہیں ، ایک دوسرے کو معاف
کرتے ہوئے ، ایک دوسرے کے سر پر ٹوپی رکھ کر، گلے شکوے دور کرلیتے ہیں لیکن
غریب عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔جب ان کی مرضی ہوتی ہے ملک کو دہشت
گردی ، اور معاشی بحالی کے دلدل میں چھوڑ کر خودساختہ جلا وطنی اختیار کر
لیتے ہیں تو جب ان کی مرضی ہوتی ہے ، ایئر پورٹ پر ڈھول تماشوں کے ساتھ
اپنا استقبال کرانے کیلئے تماش بین اکھٹا کر لیتے ہیں۔ اب جبکہ کسی نہ کسی
صورت ملک میں اقتدار جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار ممکن ہوا تھا تو پانچ
سال عدم برداشت کی سیاست کیوں نہیں اپنائی جا رہی ۔ ہمیں یہ سوچ لیناچاہیے
کہ عالمی برادری ہماری جمہوریت کش روش پر ہماری کوئی مدد نہیں کرے گی۔ملک
کو داخلی طور پرانتشار و سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے ہمیں از خود کردار
ادا کرنا ہوگا ۔ ہمیں ایسے لوگوں کو یکسر مسترد کرکے حکومت کو عدم استحکام
کی جانب کرنے کی تمام سازشوں کو مسترد کرنا ہوگا۔روایتی سیاست کو خیر باد
کہنا ہوگا کیونکہ اس سے ملک کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا ۔ مملکت جس طرح معاشی
اور بے امنی کا شکار ہے اس کی ہلکی جھلک عدم برداشت کی حامل سیاسی جماعتوں
کے رہنماؤں کے رویوں میں دیکھ رہے ہیں ۔ عوام آخر کب تک اپنی جانوں کی
قربانی اُن لوگوں کیلئے دیتے رہیں گے ، جن کے نزدیک عوام کے مسائل کا حل
نہیں بلکہ ان کے "اپنے مسائل اور ان کا حل "ہے۔
پشاور ،کوئٹہ ، کراچی سے لیکر ملک کے کونے کونے میں ، انتہا پسندی کی آگ
بھڑک رہی ہے جس پر مورثی سیاست کرنے والے سیاسی خاندان پٹرول ڈال کر ،اپنے
لئے مفادات حاصل کرتے ہیں۔موجودہ بحران ، سیاسی ہو عدالتی ہو یا پھر شدت
پسندی کا ، شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ہمیں اس شدت کو کم کرنے کیلئے ازخود
ایک ایسا لا ئحہ عمل بنانا ہوگا کہ حکومت میں غریب ووٹر کے قریب المرگ وجود
پر پیر رکھ کر ایئر کنڈیشن ایوانوں میں جا کر عوام کو بھول جانے والوں کا
احتساب کرنے میں دشواری نہ ہو۔یقینی طور پر عوامی رٹ کو چیلنج کرنے والے ،
نہتے عوام سے زیادہ مضبوط ہونگے ، لیکن عوام اتنے کمزور بھی نہیں ہیں۔ ان
کااصل امتحان شروع ہوچکا ہے ۔اب دیکھنا تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم بھی کہیں
روایتی ، مورثی سیاست دانوں کی طرح بے حس و بے ضمیر ہے یا پھر واقعی شدت
اختیار کرتے ہوئے اس بحران کو ختم کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا درست استعمال
کریں گے ؟۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی صرف ایک پھٹا ڈھول ہے ، جو شخص اپنے گھر
آئے مہمانوں کی عزت کا پاس نہیں رکھ سکتا وہ کل کچھ بھی کر سکتا ہے ۔چوہدری
برادران و دیگر چند سیاست دانوں کی جس طرح طاہر القادری نے اپنے گھر میں جگ
ہنسائی کرائی اس سے قبل انقلاب کے پہلے فیز میں بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے
ساتھ بھی اپنے گھر میں بد ترین بد اخلاقی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت
کرچکے ہیں ۔ کیا اے پی سی میں شرکت کرنے والی کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات
کی ضمانت دے سکتی ہے کہ طاہر القادری کا ایسا دشنام خیز رویہ ان کے ساتھ
نہیں ہوسکتا ۔ یقینی طور پر کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کی ضمانت نہیں دے
گی بلکہ میرے نزدیک انھیں تو اس بات کا ڈر ہوگا کہ کہیں اے پی سی میں یا
لائیو پریس بریفنگ میں اس بار اُن کا نمبر نہ آجائے ، اس لئے متلون و بد
مزاج ، درشت خو راور عدم بداشت کی سیاست کرنے والے طاہر القادری سے کچھ
بعید نہیں کہ ان کا پل میں تولہ ، پل میں ماشہ، رویہ کیارنگ لائے۔ |