یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کے
ارباب اختیار ریٹائر ہونے والوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔ اگر وہ انسان
سمجھتے تو کم ازکم پنشن کی ماہانہ اتنی رقم ضرور رکھتے کہ بیماریوں ٗ مالی
تنگدستیوں اور گوناگوں مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کے لیے کم ازکم پنشن کی
رقم 10 ہزار روپے تو کرہی دیتے ۔پنشنروں کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک پنشنر وہ
ہیں جو سرکاری اداروں میں 17ویں گریڈ سے 21 ویں گریڈ تک جاتے ہیں ایسے
سرکاری افسروں کو ریٹائرمنٹ پر جہاں چالیس پچاس لاکھ روپے یکمشت رقم ملتی
ہے جو وہ کسی بھی سیونگ بچت کے ادارے میں جمع کروا کر ایک معقول رقم ماہانہ
حاصل کرتے رہتے ہیں پھر انہیں اپنی تنخواہ کا 75 فیصد ماہانہ پنشن کی صورت
میں بھی ملتا ہے اگر کسی افسر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے تو اسے 75 ہزار
روپے ماہانہ پنشن ٗ پچاس لاکھ رقم کے علاوہ تاحیات ملتی رہے گی ایسے خوشحال
پنشنروں کی بیوؤں کو بھی 30 ہزار روپے سے ماہانہ پنشن تاحیات ملتی رہتی ہے
۔اس کے برعکس سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کے وہ چھوٹے ملازمین ہیں جن کی
تنخواہ دس ہزار سے بمشکل بیس ہزار روپے تک ہوتی ہے ایسے افراد جب ریٹائر
ہوتے ہیں تو ان کو پانچ لاکھ روپے یکمشت اور ماہانہ پنشن کی صورت میں آٹھ
سے دس ہزار روپے ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔پاکستان کی بدترین مہنگائی کے ہر دور
میں اتنی رقم سے کوئی زندہ بھی رہ سکتا ہے کوئی اپنا علاج بھی کروا سکتا ہے
حکومت کواس سے کوئی غرض نہیں ہے ۔ ناانصافیوں اور محرومیوں کا سلسلہ یہیں
تم نہیں ہوتا ۔معاشرے میں ایسے محروم و مایوس لوگ بھی موجود ہیں جو کسی
فیکٹری ٗ کارخانے یا پرائیویٹ ادارے میں زندگی بھر کم ترین تنخواہ پر
بدترین حالات میں نہ صرف کام کرتے ہیں بلکہ جب وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو
پہنچتے ہیں تو پرائیویٹ ادارے اور کارخانوں کے مالکان ( حکومت کی مقررکردہ
تنخواہ دینا بھی گناہ تصور کرتے ہیں )انہیں ہاتھ گھر بھجوا دیتے ہیں ۔حکومت
کی مہربانی سے ایسے عمر رسیدہ ریٹائر افراد کی مالی معاونت کے لیے ایک
ادارہ اولڈ ایج بینیفٹ قائم کیاگیا ہے جس کے ملک کے بڑے شہروں میں دفاتر
موجودہیں ۔یہ ادارہ اپنے ہاں رجسٹرڈ کارخانوں اور اداروں کے ملازمین کی
تنخواہوں سے ماہانہ رقم وصول کرکے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرتا ہے جب کوئی
رجسٹرڈ ادارے کا ملازم ریٹائرہوتا ہے تو یہ پنشن کی صورت میں 36 سو روپے
رقم ماہانہ دینے کا پابند قرار پاتا ہے اس کے باوجود کہ پاکستان کے لاکھوں
پرائیویٹ ملازمین ایسے بھی ہیں جو کسی ایسے ادارے میں کام نہیں کرتے جو
اولڈ ایج بینیفٹ میں رجسٹرڈبھی ہو ایسے افراد میں دیہاڑی دار مزدور ٗ
کھیتوں میں کام کرنے والے غریب کاشتکار ٗ دکانوں ٗ ورکشاپوں پر کام کرنے
والے وہ چھوٹے جو ساری زندگی انہیں دکانوں اور ورکشاپوں میں تو گزار دیتے
ہیں لیکن انہیں انتہائی کم ترین تنخواہ اور بدترین حالات میں خدمات انجام
دیتے ہوئے وہ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں ایسے بدقسمت افراد بطور خاص
دینی مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام اور مسجدوں میں امامت کے فرائض
انجام دینے والے علمائے کرام بھی شامل ہیں جن کو کوئی بھی ادارہ حکومت کی
مقررہ تنخواہ ٗ ریٹائرمنٹ پر پنشن اور سرکاری اخراجات پر تعلیم اور علاج کی
سہولتیں فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے یہ لوگ زندہ رہیں یا دنیا سے روتے
پیٹتے رخصت ہوجائیں ان کے بچے بھکاری بن جائیں یامزدور حکومت خود کو بری
الذمہ قرار دیتی ہے۔بہرکیف اولڈ ایج بینیفٹ کے ادارے کی جانب سے جو 36 سو
روپے بطور ماہانہ پنشن ملتے ہیں کیا اتنے کم پیسوں میں انسانوں کے پاکستان
میں زندہ رہنا ممکن ہے ۔یہ وہ ادارہ ہے جس میں پیپلز پارٹی کے دور میں
اربوں روپے کا سیکنڈل پکڑا گیا ہے عدالت عظمی میں سالہاسال سے مقدمہ چلنے
کے باوجود غریبوں کی خون پسینے کی کمائی لوٹنے والے ابھی قانون کی گرفت سے
آزاد ہیں ۔ایسے واقعات کسی بھی ملک کے لیے مثال بنتے ہیں لیکن ارباب اختیار
اور حکمرانوں کی اس ادارے کی جانب توجہ ہی مبذول نہیں ہے وہ 36 سو روپے دے
کر اس ملک کے غریب اور بے وسائل ریٹائرمزدوروں پر احسان عظیم کررہی ہے
حالیہ بجٹ میں اس رقم کو پانچ ہزار روپے کرنے کا اعلان تو ہوا ہے لیکن اس
اعلان پر عمل کب ہوتا اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔اس کے
باوجود کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں اس وقت
10 کروڑ افراد غربت کے انتہائی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبورہیں لیکن
جب چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرلوگوں کا معاملہ آتا ہے تو اپنے
لیے بلٹ پروف گاڑیوں اور جہازوں پر سفر کرنے والوں کے انڈے چھوٹے ہوجاتے
ہیں۔حضرت عمر ؓ اس خوف کانپ اٹھتے تھے کہ ان کے دور میں دریائے فرات کے
کنارے کوئی کتا بھی بھوکا نہ رجائے لیکن ہمارے وزیر خزانہ اور حکمرانوں کو
شاید آخرت یاد ہی نہیں ہے انہیں اس بات کا ہرگز احساس نہیں ہے کہ ان کے دور
میں بھوک سے انسان مریں خود کشیاں کریں یا جانور بھوکے مریں وہ تو خود بھی
اربوں میں کے مالک ہیں اور اقتدار میں آکر کھربوں کے مالک بن جاتے ہیں۔قومی
خزانہ ان کے باپ کی جاگیر بن جاتا ہے نہ پہلے حکمرانوں نے کبھی غریبوں پر
ترس کھایا تھا نہ موجودہ حکمرانوں کو رحم آتا ہے ۔بجلی ٗ گیس ٗ پٹرول ٗ
اشیائے خورد نوش اور ادویات کی حدسے بڑھی ہوئی قیمتوں لاکھوں روپے ماہانہ
کمانے والوں کو رولا دیاہے ان حالات میں وہ پنشنر حضرات جن کوصرف 36 سو
روپے ماہانہ ملتے ہیں کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں لاکھوں مزدور اور کسان ایسے
بھی ہیں جن کو اتنے پیسے بھی نہیں ملتے ۔ اگر حکمرانوں کو خدا کا کچھ خوف
ہے تو اولڈ ایج بینیفٹ سمیت تمام پنشروں کی کم ازکم پنشن 15 ہزار فوری طور
پر کردیں ان میں ایسے مزدور ٗکاشتکار اینٹوں کے بھٹوں ٗ دکانوں ورکشاپوں
اور دینی مدرسوں کے اساتذہ کرام کو بھی شامل کردیں جو کسی بھی رجسٹرڈ ادار
ے میں کام نہیں کرتے۔بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کا مستحق ایسے لوگ ہیں سیاسی
طور پر نوازنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیئے ۔ |