ایک جائز حق

(معاشرتی تلخ حقیقت پر مبنی ایک کہانی)

ذاکرہ نے جھینپتے ہوئے کہا ،" باجی میں دومہینے کی چھٹی پر جا رہی ہوں اسلئے حلقے میں نہ آسکونگی
کہاں کہاں کیوں ؟ سب نے ایک ساتھ ہی پوچھ ڈالا--

وہ ایک توقف کے بعد کچھ جھینپے جھینپے انداز میں شرما کر کہنے لگی ، " میں عقد ثانی کر رہی ہوں" یہ سنکر تو سب جیسے سن ہوکر رہ گئیں --بڑی مشکل سے پوچھا کہاں کیسے ؟ " کوئیٹہ یونیورسٹی میں پروفیسر ہے پہلی بیوی سے طلاق ہوگئی ہے ایک جوان بیٹی ہے " اسکی آواز میں کافی اعتماد تھا--

یہ گروپ کیا تھا بس ایک بیواؤں کا ٹولہ تھا علاوہ ایک دو خواتین کے جو سہاگن تھیں باقی سب کے شوہر اللہ میاں کے پاس جاچکے تھے-- اورسب نے باقی زندگی اللہ سے لو لگانے کی ٹھان لی تھی اسی میں سکون تھا ، تقویت اور پاکیزگی تھی - اسلئے یہ اتنی بڑی انقلابی بات بہت بڑا دھماکہ تھا--

نصرت نے ماحول کو ذرا ہلکا کرنیکی کوشش کی ،یہ تو تم کافی نیک قدم اٹھا رہی ہو لیکن تمہارے بچے ، کچھ تو ابھی چھوٹے ہی ہیں، انکا کیا ہوگا ؟

" بچے راضی ہیں بچوں سے میں بات کر چکی ہوں اس فیصلے سے خوش ہیں-- اسنے فیصلہ کن انداز سے جواب دیا-

ہمارے معاشرے کے لحاظ سے انتہائی انقلابی قدم ہے اللہ مبارک کرے --

قمر نے دخل اندازی کرتے ہوئےکہا " اللہ بہتر کرے ، آج تلاوت کون کریگا ؟سب نے اپنا پروگرام پورا کیا -رخصت ہونے سے پہلے ذاکرہ نے کہا جس عمل کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے ہمارے لئے حلال اور جائز کردیا ہے اسکو حرام کرنا کہاں جائز ہے ؟ نکاح کرنا ہمارا حق ہے -- اسکے اتنے باعمل سوچ سےنصرت تو لرز گئی --

ہمارا معاشرہ تو اس معاشرے کے زیر اثر ہے جہاں بیویوں کو شوہر کے ساتھ ستی کر دیا جاتا تھا-- بر صغیر کے مسلمانوں پر اسی ہندوانہ معاشرت کے واضح اثرات ہیں -- نصرت نے اپنے بارے میں سوچا کہ اسنے شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی کے متعلق سوچنا بھی گناہ جانا --شوہر سے جسمانی تعلق تو اسکی موت کے ساتھ عرصہ دراز ہوئے ختم ہو چکا ہے لیکن روحانی تعلق ابھی تک قائم ہے--

نصرت کوذاکرہ کی وہ کیفیت یاد آرہی تھی جب سعودی عرب میں ایک کار حادثے میں اسکے شوہر کا انتقال ہوا تھا اور وہ کس ہیجانی اور ہذیانی کیفیت میں مبتلا تھی ایک زندہ لاش بن گئی تھی بڑی مشکلوں سے نارمل زندگی کی طرف واپس آئی غنیمت تھا کہ اسکے والدین اور بھائی بہن اسکے مکان کی نچلی منزل میں رہتے تھے اور اسکے لئے باعث سہارا تھے --

اگلے ہفتے کی کلاس میں وہ نہیں آئی --کلاس ختم ہونے کے بعدان پانچ خواتین نے اسکے ہاں ملنے اور اسکی خیریت جاننے کا ارادہ کیا --

اسکی بھابھی سے ملاقات ہوئی کہنے لگی" باقی سب خواتین اور ذاکرہ باجی شادی کی شاپنگ کرنے گئی ہیں --
" بہت مبارک ہو کیا شادی دھوم دھام سے ہو رہی ہے ؟ منیرہ نے پوچھا --
" ہاں ہال تو بک ہو گیا ہے پچھلے دنوں منگنی کی تقریب تھی "
سب سوالیہ نشان بنے ہوئی تھیں --نصرت سوچ رہی تھی یہ کس معاشرے کے لوگ ہیں پانچ بچوں کی ماں اور اتنی دھوم دھام سے شادی ؟
اتنے میں وہ شربت لائیں گرمی کے دن تھے اور کراچی کا حبس ناک گرم موسم تھا --
" میں آپکو منگنی کی تصویریں دکھاتی ہوں وہ الماری سے البم نکال لائیں -- سب جیسے گم سم بیٹھی تھیں- اسنے تصویریں دکھانی شروع کیں تو اسکی چھوٹی نند اور ذاکرہ کی چھوٹی بہن شہناز دلہن بنی بیٹھی تھی --
ارے یہ تو شہناز ہے سب حیران ہوئے
" ہاں تو آپلوگ کیا سمجھ رہی تھیں؟
" "ذاکرہ کی بھی تو شادی ہورہی ہے نا " اسکا چہرہ پیلا زرد پڑگیا بڑی مشکل سے بولی ذاکرہ باجی کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے-سب نے بات ختم کی اور خدا حافظ کہہ کر نکل آئیں --
اسکے چند روز کے بعد ہی نصرت کےساتھ ایک اورجانکاہ حادثہ ہوا اسکی اپنی حالت مردوں سے بدتر تھی- -جب ہوش آیا تو اسے اپنی زندگی کا احساس ہوا پھر اسے خیال آیا کہ اس جم غفیر میں ذاکرہ کہیں نظر نہیں آئی--
قمر سے ایک روز اسنے پوچھ ہی لیا ،" کیا شاکرہ کا نکاح ہو گیا؟"
" نہیں ہوسکا بہت بیمار تھی ملنے آئیگی"

چند روز کے بعد ملنے آئی نصرت بدیس جانے کی تیاری کر رہےتھی اور اپنا بوریا بستر سمیٹنے میں مصروف تھی- وہ گلے ملکر بلک بلک کر روتی رہی - میں کل ہی ہسپتال سے آئی تو مجھے معلوم ہوا وہ میرے بھی بچوں کی طرح تھا -سمیر کی اسنے مشکل حالات میں کتنی مدد کی تھی -- مجھ سے آپکا دکھ نہیں دیکھا جا رہا--
نصرت دکھ و یاس کی تصویر بنی بیٹھی تھی -بس اتنا بولی میرے لئے اور میرے بچے کے لئے دعا کرنا بس یہ دکھ تو اب زندگی کے ساتھ ساتھ ہے - دعا کرنا کہ اللہ مزید آزمائشوں سے بچا لے -
-تمہیں کیا ہوا تھا ؟
“ باجی بس کیا بتاؤں میں تو نفسیاتی ہسپتاؒل میں داخل تھی ابھی دو دن ہوئے آئی ہوں
قدرے توقف کے بعد بولی آپسے کیا چھپانا وہ جو میرے نکاح کا سلسلہ تھا گھر والے خاصکر بھابھیاں اسکی شدید مخالف تھیں وہ اسے اپنی بدنامی اور سبکی سمجھ رہی تھیں -پہلے تو مجھے منع کیا اور جب میں نہ مانی تو جس شخص سے میرا نکاح ہورہاتھا اسکو میرے متعلق بھڑکا کر منع کر دیا اسکا مجھے بے حد ذہنی صدمہ ہوا کیونکہ میں اس نکاح لئے ذہنی طور پر تیار تھی- میں نے اسے مختلف طریقوں سے فون کئے لیکن وہ نہیں مانا- میں اسکے اس فیصلے سے بہت آزردہ ہوئی اور ذہنی اذیت سے دوچار ہوئی- اس کیفیت میں یہ لوگ مجھے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں اور ڈاکٹر سےمیرے متعلق کافی بیہودہ باتیں کیں -
ڈاکٹر نے مجھے بجلی کے جھٹکے دینے شروع کئے اور دوائیاں دے کر مجھے مدہوش رکھا جاتا تھا - ایک مرتبہ میں قدرے ہوش میں تھی کہ ڈاکٹر دیکھنے آیا میں نے اس سے پوچھا کہ میرا کیا علاج کر رہے ہو ؟ اسنے جھجھکتے ہوئے کہا کہ اپکی شادی کی خواہش ختم ہوجائے- اس سے میں نے خوب بحث کی کہ جو عمل میر ے لئے میرے اللہ اورمیرے رسول نے جائز اور حلال قرار دیا ہے اسکو آپ حرام کیسے کر سکتے ہیں --میرے دین میں ہے کہ بیوہ کی عدت ختم ہونے کے بعد اسکے نکاح میں جلدی کرو تو کیا میں ناجائز کام کر رہی ہوں؟
ہمارا معاشرہ اسکوقبول نہیں کرتا “ ڈاکٹر نے جواب دیا
میں نے کہا آپ دیندار آدمی ہوکر ایسی جاہلیت کی باتیں کر رہے ہیں “ آپ میرا علاج بند کردیں اور مجھے گھر جانے دیں
بھا بھیوں سے بھی خوب لڑی ہمارے دینی گھرانے پر معاشرتی اثرات اتنے گہرے ہیں کہ کوئی ماننے کو تیارہی نہیں تھا سب کا یہی کہنا اپنے بچوں کی فکر کرو اور یہ سب بھول جاؤ وہ لوگ میرے اس فعل سے حد درجہ شرمندہ ہو رہے تھے -
لیکن دیکھئے گا میں یہ قدم ضرور اٹھاؤنگی --
میں تمہاری باتوں سے متفق ہوں لیکن کافی مسائل ہو سکتے ہیں خاصکر بچوں کے سلسلے میں اور خاندان کے مزید بکھرنے کا اندیشہ ہے “ نصرت نےاب بھی اسے باز رکھنے کی کوشش کی -
“باجی بیٹے کا رشتہ بھی کر رہی ہوں بیٹی کا بھی ہو جائے گا
اور تین جو چھوٹے ہیں “ نصرت نے پھر ٹوکا
“ باجی میری کوشش ہوگی کہ ایسا نکاح کروں کہ گھر سے بے گھر نہ ہوں “ اسنے اچھی خاصی پلاننگ کر لی تھی-
تمہارا ارادہ جب اتنا مضبوط ہے تو اللہ تعالٰی تمہاری مدد کرے اور تمہارے لئے آسان کردے”
بظاہر تو یہی لگ رہاتھا کہ اتنی کڑی شرائط پر شاید ہی کوئی راضی ہو؟
تقریبا ڈیڑھ برس کے بعد نصرت واپس لوٹی تو قمر ملنے آئی باتوں باتوں میں ذاکرہ کی خیریت پوچھی کہنے لگی “اسکے ہاں پچھلے دنوں بیٹی پیدا ہوئی ہے-اسنے ہمت نہیں ہاری کوشش میں لگی رہی ایک شخص نے بیوی کے ہوتے ہوئے نکاح کر لیا اور وہی ہواکہ ہفتے میں تین روز اسکے ساتھ رہتا ہے- واقعی وہ ایک عزم مصمم کئے ہوئے تھی
“اور پہلی بیوی ؟
اسکے بھی بچے ہیں پچھلے دنوں اسکے ہاں بھی ولادت ہوئی تو ذاکرہ اسکا کافی خیال رکھ رہی تھی -
نصرت بے یقینی سے قمر کو دیکھنے لگی
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254316 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More