بچہ
(Prof. Niamat Ali Murtazai, )
لفظ ’ بچہ ‘ کا
مارفولوجیکل تجزیہ کیا جائے تو یہ تین حروف: ب، چ اور ہ کا معصوم سا مجموعہ
نظر آتا ہے۔اس کے پہلے دو حروف پر غور کریں تو لفظ ــ ـــــــ’بچ‘ بنتا
ہے۔یہ بات بچے کے لحاظ سے عالمگیر سچائی ہے کہ بچے کو بڑا ہونے سے پہلے
ہزاروں بار یہ لفظ سننا پڑتا ہے کہ ادھر سے بچو، اُدھر سے بچو،یہ نہ کرو،
وہ نہ کرو۔یعنی بچ بچ کے جینے کو بچے کا جینا کہا جائے گا۔ اب اس لفظ کو
فعل کے زمرے میں رکھ کے دیکھیں تو بچاؤ، بچا، اور بچا بنتے ہیں۔’ بچاؤ‘ تو
از خود واضح ہے کہ اپنے بچائے جانے کی دھائی دے رہا ہے،’ بچا‘ بھی بچنے کا
ماضی ہے، اور تیسر ا لفظ’ بچا‘ بھی بچنے کی درخواست کہی جا سکتی ہے ۔ اب
اگر تیسرا حرف ہ بھی ملا لیا جائے تو ’بچہ‘ کی نیچے کو دبی ہوئی دُم ایسے
محسوس کرواتی ہے جیسے بڑے حیوانوں میں چھوٹے اور کمزور حیوان دم دبا کر
گھوم پھر رہے ہوں۔
اب اگر بچے کی صفات و رزائل کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو کچھ باتیں زیادہ
نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔وہ یہ کہ بچہ شور بہت مچاتا ہے رونے
لگتا ہے تو پھر کسی کی نہیں سنتا،بچہ زد میں آجائے تو بھی سب کو پچھاڑ دیتا
ہے ویسے بھی بالک ہٹ مشہور ہے۔بچہ اپنے بیگانے اور حلال حرام کی تمیز سے
آزاد ہوتا ہے، بچہ اپنے اندر ایک بہت بڑا حیوان رکھتا ہے جو کہیں ٹک کے
نہیں بیٹھتا۔یہ بات بھی بچوں کی قریباً قریباً عالمگیر سچائی ہو گی کہ تمام
بچے بڑوں کے جوتے ضرور پہنیں گے۔بچے کے اندر بے پناہ جہالت ہوتی ہے جو وقت
کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔بچہ زیادہ سے زیادہ مرضی کرتا ہے اسی لئے
بچپن کو بادشاہی عمر بھی کہا جاتا ہے۔ بچہ کچھ معقول اور بہت سی نا معقول
خواہشات کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے۔بچہ لڑنے کی طرف بہت مائل ہوتا ہے
بلکہ رہتا ہے۔بچہ دوسروں کے احساس سے عاری ہوتا ہے۔بچے کو کسی کام کی مہارت
نہیں آتی وہ ہر کام میں اناڑی ہوتا ہے۔ بچہ کسی کی برتری نہیں مانتا اور
اپنا آپ ہی منواتا ہے۔ بچہ بے فکر ہوتا ہے اسے نہ آج کی اور نہ کل کی فکر
ہوتی ہے۔بچہ کھلونوں سے کھیلتا ہے ۔ بچہ بہت لڑاکا ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو اس کے ساتھ ہزاروں بچے عالمِ رنگ و بو میں قدم
رکھتے ہیں۔ ان میں سے چند بچے نشو ونما پا کر بڑے ہو جاتے ہیں باقی بچے،
بچے ہی رہ جاتے ہیں۔ایک انسان کے اندر بے شمار بچے بھی ہوتے ہیں،جن میں سے
چند ہی بڑے ہو پاتے ہیں لیکن زیادہ تر بچے ہی رہ کر دنیا سے چلے جاتے
ہیں۔ایک انسان ایک، دو ،تین زبانیں جانتا ہے یا کچھ زیادہ جان لیتے ہیں۔
لیکن وہ دنیا میں پائی جانے والی اور دنیا سے چلی جانے والی بے شمار زبانوں
سے نا بلد ہوتا ہوتا ہے۔لہٰذا وہ ان نامعلوم زبانوں کے لحاظ سے بچہ ہے۔
دنیا میں بے شمار مہارتیں ہیں اور ایک انسان بس چند ایک پر ہی اکتفا کر
لیتا ہے، مثلاً پیدل چلنا ایک عام انسانی مہارت ہے لیکن رسے پے چلنا ایک
خاص انسانی مہارت ہے جو کہ اکثر لوگوں کو نہیں آتی لہٰذا رسے پر چلنے کے
لحاظ سے اکثر انسان بچے ہیں۔ایک انسان موٹر بائیک تو آرام سے چلا لیتا ہے
لیکن وہ ہوائی جہاز، بحری جہاز، وغیرہ نہیں چلا سکتا اس لئے وہ ان چیزوں کے
لحاظ سے بچہ ہی تو ہوا۔دنیا میں بے شمار علوم ہیں اور ایک انسان ایک علم کی
دسترس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ تو انسان اتنی بڑی تعدا میں علوم کے ہوتے
ہوئے اپنے آپ کو بچہ نہیں تو اور کیا سمجھے گا۔
بچہ کسی کو نہیں مانتا تو عام انسان بھی کس کو مانتا ہے، ہر بات میں یہی
کہتا ہے کہ اس کی بات ہی حرفِ آخر ہے،وہ دنیا کا سب سے بڑا فلسفی،
سکالر،اور سب کچھ ہے،توانسان بچہ ہی ہوا۔ایک بچہ ضدی ہوتا ہے تو بڑے ہو کر
ہم کون سی ضد چھوڑ دیتے ہیں شاید زیادہ ضدی ہو جاتے ہیں ہاں ہو سکتا ہے کہ
بعض کی ضد لو میرج کے بعد باقی نہ رہے۔
بچہ اگر بڑوں کے جوتے پہنتا ہے تو انسان کون سا کم کرتا ہے۔ ہم ہمیشہ بڑوں
کا حوالہ دے کر ہی اپنی بات کی سچائی یا وزن بڑھاتے ہیں۔ اکثر پڑھے لکھے
ماضی کے عظیم لوگوں کے حوالوں سے اپنی علمیت کا رعب جما رہے ہوتے ہیں۔ جو
جنتے زیادہ حوالوں سے بات کرے اتنا ہی بڑا مانا جاتا ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے
کہ علم کے میدان کی سب سے بڑی ڈگری یعنی پی ایچ۔ڈی سب سے زیادہ حوالوں کی
محتاج ہے۔ کسی کو ان حوالوں کے اپنے آپ کو حوالے کئے بغیر یہ ڈگری مل ہی
نہیں سکتی اور کتنی تعجب کی بات ہے کہ اگر بچہ بڑے کا جوتا پہن لے تو سو کا
سو بندہ ہی اسے کہے گا کہ یہ جوتا اتار کے اپنا پہنوں جب کہ اسے سمجھانے
والے خود بھی حوالوں کو حوالے رہے ہوتے ہیں۔
بچہ اپنے بیگانے یا حلال حرام میں تمیز نہیں کرتا کیونکہ وہ بچہ ہوتا ہے تو
کیا دنیا کے بہت پڑھے لکھے لوگ ایسا نہیں کر رہے کیا دنیا استحصال کا شکا ر
نہیں ہے، یا نہیں رہی ہے۔ دنیا کی کہانی فاتحین کی کہانی ہے ان کو کوئی حق
تھا کہ ایسا کرتے ۔ قومیں ایک دوسرے کے مال کو اپنا سمجھ کر شیرِ مادر کی
طرح گھٹ گھٹ ہڑپ نہیں کیے جا رہی ہیں یا کرتی رہی ہیں یا کرتی رہیں گی یا
انسان بچے کا بچہ ہی رہے گا۔
بچہ خود غرض ہوتا ہے تو عام انسان کی خود غرضی پر بات کرنے کی چنداں ضرورت
نہیں ۔
بچہ جلد دھو کہ کھا جاتا ہے، انسان بھی تو دھوکہ کھا کر ہی دوسروں کو دھوکہ
دیتا ہے جو دھوکہ کھا تا نہیں وہ کبھی دھوکہ دے نہیں سکتا۔انسان دنیا سے
دھوکے میں آکر اس کا غلام بن گیا۔ اور پھر ساری برائیاں پھوٹ پڑیں۔
بچہ جلد بھول جاتا ہے تو انسا ن بھی تو بہت جلد نسیان کا شکار ہو جاتا ہے۔
ادھر سے سنی ادھر سے نکال دی۔ پڑھتا گیا بھولتا گیا۔بعض صورتوں میں تو
پڑھنا کم اور بھولنا زیادہ ہے۔
بچہ اندھیرے اور اکیلے پن سے خوف کھاتا ہے انسان بھی باہر کے اندھیرے سے
ڈرتا ہے۔ اندر کے اندھیرے سے بچہ بھی نہیں ڈرتا اور عام انسان بھی نہیں تو
انسان بچہ ہی ہوا۔
کسی طرح سے بھی انسان بچے سے جوان ہوا نظر نہیں آتا۔اس بنا پر یہ حقیقت
تسلیم کرنے میں پس وپیش کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم سب اصل میں اندر سے بچے
ہی ہیں۔اور یہ حقیقت اپنے آپ اور کائنات پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ
ہم ابھی بہت بڑے بچے ہی ہیں، بچے سے انسان بننے میں ابھی کئی صدیاں
درکارہیں اور شاید کبھی بھی نہ بن سکیں۔ کیونکہ اتنی اچھی صدیاں گزار کر جو
انسان نہیں بناوہ اب کیسے بنے گا جبکہ آجکل بچے کے بچہ رہنے کے امکانات
ماضی کی نسبت زیادہ ہیں۔
اور جہاں تک دُم دبانے کا معاملہ ہے تو انسان زمینی و سماوی آفات، معاشی
حالات، ہارٹ اٹیک، شوگر، بلڈپریشر،گھریلو معاملات کی الجھنوں کی بھول
بھلیاں ان سب نے انسان کو بچے کی طرح دم دبا کر رکھنے،یا دبا کر رہنے پر
مجبور ہی تو کیا ہوا ہے ۔
بے فکری میں بھی انسان بچے کا بچہ ہی رہ گیا ہے کائناتی وسائل اس بے دردی
سے پامال کر رہا ہے کہ اسے کوئی فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ اس کی آنے والی
نسلیں کہاں رہیں گی۔ ہر چیز کو آلودگی سے اس قدر بھر دیا ہے کہ سانس لینے
جوگی ہوا بھی نہیں چھوڑی۔
رہی بات کھلونوں سے کھیلنے کی تو کون ہے جو ساری عمر کھلونوں سے نہیں
کھیلتا۔ انسان ساری عمر کھلونوں سے دل بہلاتا ہے اگرچہ وہ کھلونے بدلتا
رہتا ہے۔
بچہ اگر لڑاکا ہے تو بڑے کون سے صلح جو ہوتے ہیں۔ذات، برادری، قبیلہ، مسلک،
مذہب، علاقہ، نسل،رنگ، وغیرہ بیشمار چیزیں انسان کو مسلسل حالتِ جنگ میں
رکھے ہوئے ہیں۔لسانی جنگ، معاشی جنگ، علاقائی جنگ، ہر طرف جنگ ہی جنگ نظر
آرہی ہے کو کہ بظاہر بچے نہیں بڑے لوگ لڑ رہے ہیں لیکن دراصل جو بچے ہی
ہیں۔
لہٰذا ساری نہیں تو بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو یہ ظاہر بلکہ ثابت کرتی ہیں
کہ انسان دراصل بچہ ہے گو وہ کتنے ہی بچوں والا کیوں نہ ہو جائے۔اس لئے بڑے
ہونے کی ٹینشن کم ہی لینی چاہئے۔اس خیال یا گمان کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ
انسان کا سنہری بچپن ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔ |
|