پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل
تیسری نوجوان نسل ہے جو کہ پاکستان کو بدلنے کا خواب آنکھوں میں جگائے اسے
حقیقی تبدیلی کی طرف لے جانے کا ارادہ کیے ہوئے ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ آج
جب ہماری تیسری نسل آچکی ہے اور ہم ان تلخ تجربات سے نہیں نکل سکے جو کہ
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہمارے ساتھ ایسے چپکے ہوئے ہیں کہ جیسے ہمیں ان
سے چھٹکارہ پانے کا کوئی طریقہ ہی نہ آتا ہو وہ کیا وجوہا ت ہیں کہ پاکستان
کی نوجوان نسلیں اس کوچاہنے کے باوجود تبدیل نہ کر سکی کیا ہمارے اندر
مضبوط ارادے اور سچے جزبات کی کمی ہے؟ کیا ہم دنیا کی دوسری اقوام سے کم
ہیں؟ کیا ہمارے ہاں علم و ہنر کی کمی ہے ؟یا ہماری لیڈر شب میں وہ سچا جزبہ
نہیں ہے کہ جس کی بدولت ہم باقی اقوام عالم سے اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں
دنیاکہ بیشتر ممالک جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئے آج سائنس و ٹیکنالوجی میں
ہم سے بہت آگے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی آئے جو ہمیں لیڈکرئے جس کا
مرنا جینا پاکستان اور یہاں بسنے والے عوام، کے لیے ہو جو ہمارے وسائل کو
منظم انداز سے استعمال کرتے ہوئے ہمیں ترقی کی طرف لے کر جائے اس طرح ہمارے
ملک کا دوسروں ست پیچھے رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ جمہوریت کا بار بار ٹوٹنا
ار آمریت کے وہ تلخ تجربات ہیں جنھوں نے اس ملک کو تجربہ گاہ بنایا ہو اہے
جب جی چاہا جس کا جی چاہا منتخب حکومت کو چلتا کیا اور خود اقتدار پر قابض
ہو گیا جب بھی کوئی آمر اس قوم نے مٹھائیاں تقسیم کی اور جب رخصت ہوا تب
بھی یہی عمل دہرایا گیا مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان آمروں نے ملک کو آگے لے
جانے کے بجائے ریورس گیئر ہی لگایا اور نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے یوں کئی
بار یہ عمل دہرایا گیا مگر جب پانچ جولائی کا دن آیا تو قلم نے اس کو موضوع
گفتگو بنانا پسند کیا جو میرئے قائرین کے لئے پیش خدمت ہے پانچ جولائی کو
اقتدار سے محروم کئے جانے والے منتخب نمائندے کا نام ذوالفقارعلی بھٹو تھا
وہ بھٹو جس نے دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنیکا
جرم کیا تھا اور اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد کر کے دنیا کے
لئے مسلم امہ کے اکھٹا ہونے کا اشارہ دیا بھٹو جس نے ملک کو ایٹمی قوت
بنانے کا فیصلہ کیا اور گھاس کھا کر بھی ملک کو یہ عظیم ٹیکنالوجی دینے کا
وعدہ امر کر دیا بھٹو جس نے ملک کے گونگے بہرے عوام کو سیاسی شعور سے
روشناس کرایا اور سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گراس روٹ لیول تک لایا
اسکا جرم ہی یہ تھا کہ اس نے عوام کو سیاسی شعور دینے کی کوشش کی اور اس
جرم کی پاداش میں بالاخر پھانسی گھاٹ پہنچ گیایہی دن تھا جب اسلام کے نام
پر فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے آٹھ کروڑ مسلمانوں کو خدا کی دی ہوئی بنیادی
آزادی سے محروم کر دیا بھٹو نے پھانسی پر چڑھنا توقبول کر لیا لیکن نہ کسی
آمر سے بات کی اور نہ اس کے کہنے پر ملک چھوڑابھٹو کی یاد پاکستان کی سیاسی
تاریخ میں ہر سال اسی طرح منائی جاتی رہے گی پانچ جولائی انیس سو ستتر پا
کستان کی تاریخ کا سیا ہ ترین دن جب منتخب و جمہو ری وزیراعظم ذوالفقار علی
بھٹو کی حکو مت بر طرف اور اسمبلیا ں تحلیل کر دی گئیں چھتیس برس قبل یعنی
پا نچ جو لا ئی انیس سو ستتر کو ملک میں جمہو ریت کا گلا گھو نٹ دیا گیا
اسمبلیا ں تحلیل منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بر طرف ، کا بینہ
تحلیل کر دی گئی ابھی ملک کو دو لخت ہو ئے پا نچ برس ہی ہو ئے تھے کہ پا
کستان کو آئین کی نعمت سے روشنا س کرانے والے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے
سا ت ما رچ انیس سو ستتر کو قومی اور دس ما رچ کو صوبا ئی اسمبلی کے
انتخابات کرانے کا اعلان کیا سات ما رچ کے الیکشنز میں پیپلز پارٹی نے دو
تہائی اکثریت حا صل کی اپوزیشن پی این اے نے نتا ئج تسلیم نہ کرتے ہوئے
قومی اسمبلی کی چھتیس نشستوں پر دھاندلی کے الزامات اور صوبائی اسمبلی کے
انتخابات کا بائیکاٹ کیاحکو مت کے خلاف تحریک شروع ہو ئی مذاکرات کا مرحلہ
آیا مذاکرات تقریباً کامیاب ہوچکے تھے کہ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل محمد
ضیا الحق نے ما رشل لا نافذ کرکے جمہوریت کو تہہ تیغ کر دیاضیا الحق کے دور
میں منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل ہوا سیاسی کا رکنوں کو اذیت نا ک سزائیں
اور صحافیو ں تک کو کوڑے مارے گئے لیکن سب سے بڑھ کر ملک میں مذہبی تعصب،
فرقہ واریت، لسا نیت، ذات پا ت، کلا شنکو ف کلچر اور غیرجمہو ری روئیوں کو
اتنا فروغ ملا کہ ملک آج بھی انہی پا لیسیو ں کے سبب آگ و خو ن کی لپیٹ میں
ہے پانچ جولائی انیس ستترکو جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ
الٹ کر مارشل لا نافذ کردیا بعدازاں اسی تجربے کا سامنا حکمران جماعت مسلم
لیگ ن کو بھی کرنا پڑا اس طرح ملک کی دونوں بڑی جماعتیں آمریتوں کا تجربہ
کرچکی ہیں اس کی وجوہات کیا رہی ہیں اور سیاسی استحکام کیسے ممکن ہے اس کے
لئے سب کو جمہوریت کے تسلسل کی قسم کھانی ہو گی تاکہ اس کے فائدے عوام تک
پہنچ سکیں اور کسی آمر کو یہ نہ لگے کہ عوام اب جمہوریت ست اکتا چکے مصر
میں ہونے والی بغاوت سب کے سامنے ہے اس لئے آمریت کا راستہ روکنا اور
جمہوریت کا استحکام بہت ضروری ہے اس کے لئے عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں اور
سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور پرانا اور فرسودہ نظام
جس کو بدلنا ہو گا اور اس کے لئے ایک شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا جب تک کہ
پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی نہ ہوجائے آپ نے دیکھا تھا جب ایک آمر نے اپنی
طاقت کے بل بوتے پر عدلیہ پر وار کیا تھا صرف ایک شخص کے انکار نے آج ہماری
عدالتوں کا نظام بدل دیا اگر وہ شخص اکیلا ہوتا تو آج نظام وہیں کا وہیں
ہوتا مگر اس وقت جس طرح پوری قوم نے اس کا ساتھ دیا تھا آج ایک بار پھر اسی
جزبے کی ضرورت ہے ۔ |