جلسہ بہاولپور میں عمران خان نے 14 اگست2014 کو سونامی
مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا لانگ مارچ نہیں ہے،
اس سے پہلے بھی کئی اختجاجی تحریکیں چلائی گئی ہیں۔ہمارے پیارے ملک میں
لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں اور تحریکوں کی داستان خان عبدالقیوم خان سے
شروع ہو جاتی ہے۔ عبدالقیوم خان نے اسکندر مرزا کے صدارتی دور میں لانگ
مارچ منعقد کیا جسے قیام پاکستان کے بعد پہلا مارچ کا درجہ دیا جا سکتا
ہے۔اسکندر مرزا 5 مارچ1956 کواسلامی جمہوریہ پاکستان کاپہلا صدر منتحب
ہوا۔عبدالقیوم خان کی لانگ مارچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں فوجی
حکومت رائج ہوگئی۔27اکتوبر1958 کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے انھیں بر طرف کر
دیا ۔ اسکندر مرزا اپنی بیگم کے ہمراہ ملک چھوڑ کر لندن چلے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب خان کے دور میں ملک نے دن دگنی رات چونگنی
ترقی کی لیکن 1965 کی جنگ کے بعدطلباء نے معاہدہ تاشقند کے خلاف تحریک کا
آغاز کیا جو کافی شدت اختیار کر گئی۔اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز
پارٹی کی بنیاد رکھی، اور طلباء اور عوام میں موجودہ حکومت کے خلاف جذبات
کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔نومبر 1968 میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے
ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی، جس نے خون ریز ہنگاموں کی شکل
اختیار کر لی۔23 مارچ 1969 کو یحیی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ
اُلٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کورکمانڈر کو ضروری ہدایت دی۔25 مارچ
1969کو ایوب خان نے اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کیا، اس کے بعد یحیی خان
نے باقاعدہ مارشل لاء کا اعلان کر دیا۔
اب ملک کی سب سے تاریکی دور کی طرف آتا ہوں، میری مراد اس دور سے ہے جب ملک
کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کی ہاتھ میں تھی،1977 کے انتخابات میں
دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور اسطرح
5جولائی 1977کو ملک کا اقتدار ایک بار پھر فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے
سنھبال لیا۔
اس کے بعد بھی ملک میں احتجاجی تحریکیں اور لانگ مارچ منعقد ہوتے تھے جس سے
ملک اور عوام کو نقصان پہنچا ہے لیکن اس کا ذکر کرنا میں یہاں گوارا نہیں
سمجھتا۔اس کے بعد طاہرالقادری کی لانگ مارچ کی طرف آتا ہوں۔جنوری 2013 میں
اس نے ڈی چوک اسلام آباد میں زرداری حکومت کے خلاف کچھ مطالبات کی بنا پر
لانگ مارچ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا پہلا مطالبہ ہیں کہ موجودہ الیکشن
کمیشن کوتحلیل کرکے تشکیل نوکی جائے۔غیر سیاسی نگران حکومت قائم کی جائے ،
الیکشن آرٹیکل 62، 63 اور 218 کے تحت کرائے جائیں۔اس لانگ مارچ کا کوئی
نتیجہ نکلا نہ نکلالیکن اس سے اسلام آباد کے لوگوں اور تاجروں کا نقصان
ضرور ہواتھا۔
پھر عمران خان کی جلسوں اور دھرنوں کی طرف آتا ہوں ،خان صاحب نے 14 اگست کو
سونامی مارچ کا اعلان کر دیا ہے، ان کی اپنی کچھ مطالبات ہیں اور ان کا
دعوی ہے کہ پاکستان کا سارا عوام ان کے ساتھ ہیں، یہ ان کی خوش فہمی ہے یا
حقیقت ، یہ وقت ہی بتا سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں بہت سے سیاستدانوں نے اپنی کرسی،ذات اور پارٹی کیلئے
لانگ ماچ اوراحتجاجی تحریکیں چلائی لیکن ان تحریکوں سے کبھی عوام اور
پاکستان کا فائدہ نہ ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا، پھر بھی ہم عوام اس میں
شمولیت کرنا اپنا فرض اول سمجھتے ہیں، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہمارے
سیاستدانان صاحبان ہم عوام کو کس طرح استعمال کرتے ہیں،وہ ہمیں صرف اپنی
مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ جناب ہمارے لئے
ابہت کچھ کرتا ہے۔اب عمران خان کی مارچ کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے، یہ ہر
کسی کے ذہن میں ایک سوال بن چکا ہے لیکن اگر سوچا جائے تو اس سوال کا جواب
بہت آسان ہے کیونکہ اگر ہم پاکستان کی تاریح کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات
روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس لانگ سے مارشل لاء کی راہ ہموار ہو سکتی ہے،
دوسری بات کہ ملک میں خان جنگی پیدا ہوسکتی ہے اور ان سب کا ذمہ دار ہم
عوام ہونگے کیونکہ ہم کوئی کام سوچ سمجھ کر نہیں کرتے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ
ہمیں اپنے ملک میں خانہ جنگی اور امریت پسند ہے یا جو ملک ّآج کل ترقی کر
رہا ہے ، یہ پسند ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اس فیصلہ کرنے میں
بہت اختیاط کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے پیارے ملک کا سوال ہے۔ہمیں یہ بات
بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہم لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکوں سے صرف اور
صرف اپنی اور اپنے ملک کانقصان کرتے ہیں نہ کہ کسی سیاسی پارٹی اور
سیاستدان کی۔۔۔۔۔ |