لانگ مارچ نہیں ہوگا
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
کل سوشل میڈیا پہ ملک کے
نامور صحافی محترم رؤف کلاسرا کے حوالے سے ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ
تحریک انصاف کے نوخیز ایم این اے مراد سعید نے عمران خان کی شان میں گستاخی
پہ ارسلان افتخار کو اوپر تلے تین تھپڑجڑ دئیے۔اسی خبر کو ان کے سٹیٹس اپ
ڈیٹ کی بنیاد پہ اردو کی ایک بڑی ویب سائیٹ نے اٹھایا اور پھر اسے فیس بک
پہ چڑھا دیا۔فیس بک پہ چڑھنا کوٹھوں چڑھنے کے مترادف ہے۔ساری دنیا سے مراد
سعید کے لئے تہنیت کے پیغامات آنے لگے۔میں حیران تھا کہ ہمارے معاشرے کو
آخر ہوکیا گیا ہے۔ پہلے تو مراد پہ افسوس ہوا کہ باتوں سے جذباتی لیکن
حرکتوں سے سلجھا ہوا نوجوان لگتا ہے۔وہ کیسے اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے۔پھر
خیال آیا کہ ہمارے ہاں لیڈر تو کوئی پیدا ہی نہیں ہوتا سب خدا ہوتے ہیں اور
خدا کی شان میں گستاخی کوئی بندہ کیونکر برداشت کر سکتا ہے۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ ہم بیس کروڑ غلام ہیں جو اس ملک کے چھوٹے چھوٹے خداؤں کے پجاری
ہیں۔کوئی نواز شریف کا ،کوئی الطاف بھائی کا اور کوئی عمران خان کا۔ایسا نہ
ہوتا تو ہم میں سے بہت سارے ابھی تک گڑھی خدابخش کی قبروں کی پوجا کر رہے
ہوتے؟
حیرت اس وقت دو چند ہو گئی جب ارسلان کا اپنا بیان آگیا۔"مراد سعید سے تلخ
کلامی ہوئی ۔کوئی تھپڑ مارتا تو میں نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں" میں کلاسرہ
صاحب کا مدت سے قاری ہوں اور ان کے طرزِ تحریر کا مداح بھی۔میں حیران ہوتا
رہا کہ وہ جو آئے دن کرپشن کے میگا سکینڈلز بے نقاب کرتے رہتے ہیں کہیں ان
میں بھی تو اسی طرح کی بے تابیاں نہیں ہوتیں جیسی انہوں نے مراد سعید کے
تھپڑ کیس میں دکھائیں۔کیا اتنا بڑا صحافی بغیر تصدیق کے اس طرح کی خبر بریک
کر سکتا ہے؟کیا یہ بھی کرپشن ہی کی ایک قسم نہیں؟ایک ایسی خبر جس سے کسی کے
کردار پہ حرف آئے۔اس میں دوسری طرف ارسلان افتخار نہ ہوتا تو شاید ابھی تک
مراد سعید سوشل میڈیا پہ نکو بن چکا ہوتا۔ حیرت اپنی جگہ لیکن اس سے ایک
فائدہ یوں ہوا کہ وہ بات جسے میں بہت دنوں سے دل میں دبائے بیٹھا تھاکہنے
کی ہمت پیدا ہوئی۔ہم تو کسی شمار نہ قطار میں اگر کلاسرہ صاحب جیسا بڑا
صحافی اس طرح کی بات کر سکتا ہے تو ہمارے لئے تو یہ استاد کا قول ہے۔اسی
بناء پہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت میں سب چلتا ہے۔تبھی تو کہا جاتا ہے کہ
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔
معاف کیجیئے تمہید طولانی ہو گئی۔تحریک انصاف کے وائس چئیرمین جناب شاہ
محمود قریشی فرماتے ہیں کہ کوئی بھول میں نہ رہے لانگ مارچ ہر صورت ہو کے
رہے گا۔شیخ رشید تو ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے ۔انہوں نے فرمایا ہے کہ
قوم کا انتظار ختم ہونے کو ہے۔صرف پندرہ دن انہوں نے نواز شریف کی حکومت کو
عنائت فرمائے ہیں۔یہ دعویٰ تو خیر یوں ہی ہے جیسے انہوں نے ڈالر کے بارے
میں فرمایا تھا۔شیخ صاحب تو یوں بھی آجکل شیخوں والی سیاست کر رہے ہیں۔
اپنا خرچ کوئی نہیں۔بندے عمران یا قادری کے انہیں تو بس تقریر کھڑکانا ہوتی
ہے۔اسی شوق میں جناب ایم کیو ایم کی ریلی میں بھی اپنی خطابت کے جوہر
دکھانے جا رہے ہیں۔اسے کہتے ہیں خرچہ مالکاں دا تے نخرے لوکاں دے۔ ان سب کے
برعکس عمران خان نے یہ کہہ کے بال پھر سے حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے کہ
اگر حکومت چار حلقے کھول دے تو میں اپنا لانگ مارچ ملتوی کر سکتا ہوں۔یہ
ایک کھلا اشارہ ہے اور میں ذاتی طور پہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان جیسے بڑے
لیڈر اپنے لفطوں کے غلام بن جاتے ہیں۔انہیں زعم ہوتا ہے کہ وہ عقلِ کل
ہیں۔عمران کو بھی تھا لیکن تجربے نے عمران کو ایک میچیور لیڈر کی شکل دے دی
ہے اور اسے اپنی غلطیاں ماننے کا فن آ گیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ نون کے وزیر
اطلاعات یو ٹرن کے طعنے دے دے کے نواز شریف کے لئے کوئی نئی مصیبت کھڑی کر
لیں جنہیں پہلے ہی چوہدری نثار کے ترلوں نے کھانواں کر دیا ہے۔ویسے میں
حیران ہوں کہ اگر اب کی بار ان کے ترلے نہ کئے جاتے تو وہ کہاں جاتے۔خدا
لگتی یہ ہے کہ ان کا وزن مسلم لیگ نون ہی سہار سکتی ہے اس کے علاوہ ملک کی
کوئی دوسری پارٹی ان کے مزاج کی جولانیوں کی تاب نہیں لا سکتی۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔اس وقت ملک کے جو حالات چل رہے ہیں۔ان میں نہ تو
قادری صاحب کا انقلاب ہی کوئی گل کھلا سکتا ہے اور نہ ہی عمران خان اتنا
ناعاقبت اندیش ہے کہ ایسے حالات خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کر دے کہ کسی کے
ہاتھ کچھ نہ آئے۔پاکستان اس وقت اپنی بقا ء کی جنگ لڑ رہا ہے اور جو صبح و
مسا ء اپنے لہو سے اس دھرتی کا چہرہ گلنار کر رہے ہیں انہیں بھی بیک ہوم
کسی قسم کا ایڈوینچر سوٹ نہیں کرتا۔میں اپنے کالم میں انگریزی کے الفاظ سے
پرہیز کرتا ہوں لیکن کیا کیا جائے کہ کچھ لفظوں کا ترجمہ ان کا مفہوم ہی
بدل کے رکھ دیتا ہے۔یہی بات بہت جلد سارے انقلابیوں اور احتجاجیوں کو سمجھ
آ جائے گی اور پھر مذاکرات کا ڈول ڈلے گا۔ ویسے بھی دھاندلی اتنی بار ہو
چکی ہے کہ اس کا اگلا ایڈیشن اب چلتا نظر نہیں آتا۔ عمران کا اصل مطالبہ تو
مڈ ٹرم انتخاب ہے ہی نہیں ۔ان کا مطالبہ ہی یہ ہے کہ ا گلے انتخابات کو
شفاف بنانے کی گارنٹی دی جائے۔یہ الیکشن جیتنے کے بعد تو یہ گارنٹی خود
مسلم لیگ نون کی ڈیمانڈ ہونی چاہئیے کہ اگلی بار خدا جانے کوئی پنگچر لگانے
والا ملے نہ ملے۔
آپریشن ضرب ِعضب میں شمالی وزیرستان کا چالیس فیصد حصہ غیر ملکی دہشت گردوں
سے کلیئر ہو چکا۔ایک آدھ ماہ میں انشاء اﷲ باقی کے بھی اپنے انجام کو
پہنچیں گے۔اس کے بعد جو ہوگا وہی کام پاکستان کو ان شاء اﷲ قوموں کی برادری
میں سربلند و سرفراز کرے گا ۔کیا ہوگا میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی اپنے دماغ
کی لسی بنائیے لیکن ایک بات یاد رہے کہ شورش اور بدامنی کسی بھی قوم اور
ملک کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے ۔امن قائم کرنے کے لئے بعض اوقات معمول سے
زیادہ کی سختی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ریاست کی رِٹ اسی وقت قائم ہوتی ہے جب
سزا اور جزا کا نظام رائج ہو۔جب ہر کوئی مادر پدر آزاد پھر رہا ہو تو پھر
رِٹ رِٹ نہیں رہتی رَٹ میں بدل جاتی ہے ۔اس ملک میں قانون نافذ کرنے والوں
کا خون بہت بہہ چکا ۔کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ملک دشمن بھی تہہ تیغ لائے
جائیں؟سوچتا ہوں انقلاب تھم جائے گا اور سونامی بھی رک جائے گا تو اپنے شیخ
کا کیا بنے گا۔وہ کمال کا فنکار ہے اسے آستین سے بہت سے کبوتر نکالنے آتے
ہیں۔یہ کبوتر کیا کم ہے کہ حلقے میں اس کا ووٹر کوئی نہیں اور وہ پھر بھی
ایم این اے ہے۔ |
|