دہشت گردی۔تشخیص اور علاج

کسی بھی بیماری کے علاج کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس کی تشخیص کی جائے ، ایسا نہ کرنیوالے ڈاکٹر مریض کو جتنی بھی مہنگی دوائیں پلا ڈالیں بیماری سے چھٹکارہ ناممکن ہے ۔ 2002ء میں میری مرحومہ بیگم جس کے دل میں پہلے ہی ایک مصنوعی Valve لگا ہوا تھا، کو لگاتار تیز بخار ہونا شروع ہو گیا، جب اْن کو ڈاکٹروں کے پاس لے کر گیا تو بتایا گیا کہ ان کا مصنوعی ہارٹ ویلو دوبارہ infectہو گیا ہے اس لئے ان کا پانچواں دل کا اپریشن ہو گا۔ میں دوسری opinion لینے کیلئے اْنکو برطانیہ لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے کہا کہ دل کا Valve بالکل ٹھیک ہے ۔ اِن کی تشخیص کے مطابق ہڈیوں کے گودے میں ٹی بی کے کچھ جراثیم پائے گئے ۔مرض کی تشخیص کے بعد اس کے مطابق میڈیسن دی گئی تو جسمانی درجہ حرارت جو تین ماہ سے 103 ڈگری سے واپس نہیں آ رہا تھا صرف تین دنوں میں نارمل ہو گیا۔ اگر میں غلط تشخیص کی بنیاد پر مریضہ کی ہارٹ سرجری کی اجازت بھی دے دیتا تو شاید وہ مزید دس سال تک زندہ نہ رہ سکتیں۔

اس وقت پاکستان جو ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کی وجہ سے دہشتگردی کے بہت ہی مہلک عارضے میں مبتلا ہے اور یہی آج ہمارا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے جس کی پیشہ ورانہ بہترین تشخیص کے بعد ہی حقیقی علاج سودمند ثابت ہو سکتا ہے ۔ جہاں تک بیرونی خطرات کا تعلق ہے تو افغانستان ایک ایسا بم ہے جس کو اگر ڈیفیوز نہ کیا گیا تو پھٹ سکتا ہے اور اسکی آگ ہمارے آنگن تک ضرور آئیگی۔ دوسری طرف ہندوستان کے رویے کو سمجھنے کیلئے انڈین ڈیفنس ریویو (IDR) کے ایڈیٹر Bharat Verma کے ایک حالیہ کالم کے صرف دو فقرے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس میں کہا گیا
Many conveniently propose the myth that a stable Pakistan is in India's interest. This is a false proposition. The truth is that Pakistan is bad news for the Indian Union since 1947- Stable or Unstable.
یعنی کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ ایک متوازن پاکستان ہندوستان کے مفاد میں ہے ۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء سے لیکر اب تک پاکستان کا وجود ہندوستان کیلئے ایک بْری خبر ہے خواہ وہ مضبوط ہو یا کمزور۔ قارئین یہ بات میں نے شروع میں ہی اس لئے لکھ دی ہے تاکہ ہم اپنے اندرونی مسائل کا حل تلاش کرتے وقت اس ہندو ذہنیت کو بالکل نظر انداز نہ کریں اور کسی خوش فہمی کا شکار نہ رہیں چونکہ خطے کے حالات اور بیرونی خطرات کا ہمارے اندرونی خلفشار سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ جہاں تک دہشتگردی کو ہَوا دینے والے اندرونی مسائل کا تعلق ہے ان میں سب سے اہم پچھلے پاچ چھ عشروں میں پاکستان پر زیادہ تر ایسی کمزور قیادت کا مسلط رہنا ہے جس کا مطمح نظر ریاستی مفادات کا دفاع کرنا کم اور اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی مضبوطی اور حلال و حرام دولت کے انبار لگانا زیادہ تھا۔ اس سے کمزور حکمرانی نے جنم لیا جس سے کرپشن، کینہ پروری، فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت جیسی مہلک بیماریاں پاک وطن کے اعصاب کو مفلوج کرتی رہیں۔

اس وقت بلوچستان میں سیاسی و معاشی محرومیوں کی بدولت انسرجنسی زوروں پر ہے جس کے مقاصد زیادہ تر سیاسی ہیں۔ انسرجنسی کا ہدف حکومتیں گرانا ہوتا ہے اس لئے عام لوگوں کی بجائے ریاستی سکیورٹی ادارے اسکے نشانے پر ہوتے ہیں۔ کراچی میں کمزور حکمرانی اور سیاسی دہشتگردی کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور کئی جگہ جرائم پیشہ افراد سیاسی قیادت کے کنٹرول سے باہر اپنی دیہاڑیاں لگاتے ہیں باقی تمام ملک گوریلا جنگ اور دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے ۔ دہشتگردوں کے مقاصد میں حکومت کی تبدیلی شامل نہیں ہوتی اس لئے اْن کا نشانہ بے گناہ لوگ بھی بنتے ہیں، اْن کا مقصد ملک کو توڑنا یا اس کو کمزور کرنا ہے اس لئے وہ مساجد، امام بارگاہوں، ہوائی اڈوں، منڈیوں اور اہم ترین عسکری اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جس کیلئے اْن کو رہنمائی، مالی معاونت اور انٹیلی جنس اْن ممالک سے ملتی ہے جن کیلئے پاکستان کا وجود ایک بْری خبر ہے ۔

پاکستان میں اس وقت دو طرح کے حملے ہو رہے ہیں، ایک جانی نقصان پہنچانے کیلئے تاکہ عوام میں دہشت پھیلائی جائے اور دوسرے بین الاقوامی ہوائی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا مقصد پاکستان کی ریاست کو مفلوج کرنا، بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے وقار کو گرانا اور پاکستانی عوام کے حوصلے توڑناہے تاکہ قومی مورال زمین بوس ہو جائے ۔ یہ ہارڈ ہیٹنگ اپریشن کہلاتے ہیں۔ ان حملوں کیلئے ٹارگٹ اور حملے کے ٹائم کا تعین ٹی ٹی پی کرتی ہے ، القاعدہ والے اسکی لاجسٹک اور انٹیلی جنس سمیت پیشہ ورانہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU) والے مقامی سلیپرسلز کو ایکٹویٹ کر کے اور اْن کا تعاون حاصل کر کے اِن منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں ،اس کیلئے انہوں نے ہِٹ سکواڈز بنائے ہوئے ہیں۔ انکے پاس سب سے خطرناک ہتھیار خودکش جیکٹ ہے اسکے علاوہ بارودی سرنگیں (IED)، راکٹ لانچرز، بندوقیں اور گرنیڈ اِنکے اہم ہتھیار ہیں جن سے یہ خودکش حملے کرتے ہیں، بارودی سرنگوں سے گاڑیاں اْڑاتے ہیں، فوجی کانوائے کو Ambush کرتے ہیں اور اس کیلئے ہِٹ اینڈ رَن کی حکمتِ عملی استعمال ہوتی ہے ۔

قارئین ریاست کیخلاف دہشتگردی کے اس کینسر کو مزید مہلک بنانے میں بدقسمتی سے ہمارے بہت سارے مذہبی انتہا پسند اور فرقہ واریت کے اندھیروں میں گم ہمارے اپنے بھائی زیادہ تر غیر دانستہ طور پر بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں یہ نہ جانتے ہوئے کہ ہم اْس درخت کے تنے کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس کی ٹہنیوں پر ہمارے اپنے آشیانے ہیں۔ اس وقت دہشتگردی کے خاتمے کیلئے جو مثبت اقدام اٹھائے گئے ہیں اْن میں قابل ذکر تحفظِ پاکستان قانون کی پارلیمنٹ سے منظوری اور شمالی وزیرستان کو دہشتگردوں کے چنگل سے آزاد کروانے کیلئے اپریشن جس کیلئے پوری قوم کا مکمل اتحاد ہے لیکن صرف عسکری کارروائی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گی۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ -1 بے گھر لوگوں کے جیتنے کیلئے اْن کی توقعات سے بھی زیادہ مدد کی جائے -2 شمالی وزیرستان کے اپریشن کے جواب میں ممکنہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے کاؤنٹر ٹیررازم اپریشن پورے ملک میں کئے جائیں -3 اپریشن ختم ہونے سے پہلے پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرے کہ اپریشن کے اختتام پر کیا فاٹا کے مروجہ انتظامی ڈھانچے کو بحال کیا جائیگا، اس کو نیا صوبہ بنایا جائیگا یا خیبر پی کے کا حصہ بنایا جائیگا اس کیلئے فوری قانون سازی کی ضرورت ہے -4 دہشتگردوں کے بیانات کی تشہیر پر پابندی ہو -5 ملک کے اندر سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں اور مدرسوں میں ایک جیسا تعلیمی نظام نافذ ہو -6 نارتھ وزیرستان کے اپریشن کے بعد پورے فاٹا کیلئے ایک بہترین معاشی پیکیج کا اعلان ہو جس میں تعلیم، صحت، صنعت، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں دوررس اصلاحات کا اعلان ہو۔ دہشتگردی کے کینسر کی یہ بیماری جو آج سارے پاکستان کو لاحق ہے وزیرستان اس کا صرف ایک بڑا زہریلا پھوڑا ہے ۔ جہالت، فرقہ واریت، معاشی محرومیاں، بعض سیاسی جماعتوں کی صفوں میں خونخوار سکواڈز کی موجودگی، پولیس فورس کی ناگفتہ بہ حالت، سراغ رسانی کے نظام کی فالٹ لائنز، میڈیا کی بے راہ روی، پاک افغان سرحد پر بغیر روک ٹوک آمد و رفت، افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد سول جنگ کے خطرات اور ہندوستان کے دانشوروں کا 1947ء کے بعد پاکستان کے وجود کو ہندوستان کیلئے ایک بْری خبر سمجھنا متعدد دوسرے پھوڑے وہیں جو وزیرستان سے زیادہ زہریلے ہیں۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کی طرف حکومتِ وقت اور پارلیمنٹ کو فوری توجہ دینا چاہئے ۔ امریکہ کی عراق میں لگائی ہوئی آگ کے شعلوں کی تپش سے نہ صرف اب خود امریکہ کے اپنے پَر جل رہے ہیں بلکہ سعودی عرب، ایران اور شام کی حکومتیں اور اپوزیشن سارے پریشان ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال کی ساری Hypotheses کیلئے ہمارے پاس Contingency منصوبے تیار ہی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ حکومتِ پاکستان کو افغان امن منصوبے میں مکمل شامل رہنا چاہئے ۔ ہمارا مقصد صرف شمالی وزیرستان پر جھنڈا گاڑنا نہیں بلکہ ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہے ۔ یہ بیماری لاعلاج نہیں لیکن دوا تجویز کرنے سے پہلے مرض کی تشخیص ضروری ہے ۔
LT GEN ABDUL QAYYUM
About the Author: LT GEN ABDUL QAYYUM Read More Articles by LT GEN ABDUL QAYYUM: 2 Articles with 1141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.