خوشحال پاکستان

موجودہ دور میں وطن عزیز کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،تمام تر کوششوں کے باوجود ہر آن مسائل گھٹنے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں ایسا کون سا مسئلہ ہے جو عوام کو در پیش نہ ہو ،مہنگائی ، بد عنوانی ،جرائم ،بھوک و افلاس ، ناانصافی ، ظلم و تشدد اور ماحولیاتی کثافت کے علاوہ دہشت گردی جس میں علاقائی ،معاشی اور سیاسی دہشت گردی سر فہرست ہے ،ان تمام تر سنگین مسائل کی وجہ سے قوم بے حال ہو چکی ہیں ۔

کہنے کو تو پاکستان ایک اسلامی اور جمہوری ریاست ہے لیکن اس ریاست میں نہ تو مکمل طور پر اسلامی قوانین رائج ہیں اور نہ ہی سیاست دانوں میں رتی بھر اہلیت کہ وہ ان مسائل کوحل کر سکیں ،ملک کو جمہوری طریقے سے چلانے کیلئے آئین موجود ہے لیکن وہ صرف کتابی شکل میں موجود کسی کباڑ خانے میں پھینک دیا گیا ہے اور جب بھی نئی حکومت برسر اقتدار آتی ہے اپنے مفاد کیلئے نئے قوانین بناتی ہے آئین میں ترامیم کی جاتی ہیں اور ان ترامیم سے صرف یہ نام نہادلیڈر اپنی جیبیں بھرتے ہیں ،عوام اور ان کے بنیادی حقوق کو گندی نالی کا کیڑا سمجھ کر مسل دیا جاتا ہے۔عدلیہ ،انتظامیہ ،سرکاری ،غیر سرکاری ادارے ان حکومتوں کی غلامی کرتے اور تلوے چاٹتے ہیں۔

پاکستان کو قدرت نے اپنی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے زمین سونا چاندی اگلتی ہے کسی چیز کی کمی نہیں لیکن تعمیری کاموں میں استعمال کرنے کی کسی میں اہلیت نہیں اور اسی وجہ سے ملک مسائل در مسائل سے دوچار ہوتا جا رہا ہے ،ایک مسئلہ حل نہیں ہوپاتا دیگر نت نئے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں ،کمزور اور بے بس عوام بھوک و افلاس ،ظلم و زیادتی ،ناانصافی ،مہنگائی کے خاردار سنگی پاٹوں میں پس رہے ہیں،مایوسی اور خود کشی کے رحجانات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ان مسائل کا کوئی سدباب یا حل کرنے والا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ ملک میں آئین ، جمہوریت ،مرکزی و صوبائی حکومتیں ، عدلیہ و انتظامیہ اور ان کی مد د کیلئے مختلف ادارے ہونے کے باوجود یہ سنگین مسائل کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ ان کے رکنے کی بجائے بڑھنے کے کیا اسباب ہیں ؟کیا ان کا علاج ممکن ہے؟اگر ان مسائل کا حل یا خاتمہ ممکن ہے تو کیسے؟اور اس کا ذریعہ کیا ہے؟یہ تمام سوالات انتہائی اہم اوربنیادی حیثیت کے حامل ہیں ،ماسوائے موجودہ دہشت گردی کے، دیگر مسائل آج کے نہیں بلکہ جب بھی حکومتیں تبدیل ہوئیں جمہوریت ہو یا آمریت ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ ان مسائل میں بھی اضافہ ہوتا رہا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا روزبروز ملک و قوم کا معیار و گراف تیزی سے ڈاؤن ہوتا گیا اور مختلف بحرانوں کا شکار ہوا۔جب تک پرنٹ میڈیا کاراج تھا ملک میں سکون اور طمانیت کا دور دورہ تھا لیکن جیسے ہی الیکٹرونک میڈیا اور بالخصوس سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کا دور شروع ہوا اس وقت سے آج تک بتدریج مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا ،دنیا کے کئی ممالک نے الیکٹرونک میڈیا سے فائدہ اٹھایا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے برعکس ترقی کی راہ پر چلنا تو درکنار پاکستان میں اس میڈیا نے ایسے ایسے کارنامے انجام دئے جس سے میڈیا مالکان نے اربوں کھربوں روپے کمائے لیکن انکی غیر ذمہ داری نے قوم کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ۔

جمہوری ممالک میں میڈیا کی آزادی کو اہم ترین تصور کیا جاتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عملی طور جمہوریت اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب کہ میڈیا کو آزادی حاصل ہو اور اظہار رائے پر پابندی نہ ہو ، میڈیا ایک طاقت ور اور باوقار حیثیت کا حامل ہے دیگر ملکی اداروں کی طرح یہ بھی تعمیری اور اصلاحی رول ادا کرتا ہے ،سوال یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو پوری آزادی حاصل ہونی چاہئے یا نہیں ؟۔

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران آزاد میڈیا نے جو کردار پیش کیا ہے اور ہنوز کر رہا ہے وہ ملک و قوم کے حق میں بہتر ثابت ہونے کی بجائے خطرناک ثابت ہو رہا ہے ،نجی ٹی وی چینلز دولت اور مقبولیت حاصل کرنے کیلئے اپنے فرض اور ذمہ داری کو بھول گئے ہیں جس کے نتائج ہر سطح پر دکھائی دے رہے ہیں ،انٹر ٹینمنٹ کے نام پر تمام چینلز معاشرے میں زہر گھول رہے ہیں اور نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر لےجارہے ہیں ،نیوز چینلز قتل و غارت گری ،اغواہ، ریپ کی خبریں بڑھ چڑھ کر نشر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مقابلہ رہتا ہے کہ یہ خبر سب سے پہلے ہمیں نشر کرنے کا اعزاز حاصل ہے،کہنے کو تو یہ چوبیس گھنٹے کے چینلز ہیں لیکن چوبیس گھنٹوں میں شاید دو چار اہم و تعمیری خبریں نشر کر پاتے ہیں ،یہ چینلز عوام میں سنسنی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جوبھی الٹی سیدھی خبریں موصول ہوتی ہیں بغیر تصدیق اور ٹھوس ثبوت کے نشر کرتے رہتے ہیں،لائیو کوریج کے نام پر اکثر اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ یہ سوچ نہیں پاتے آیا یہ خبر قوم کے مفاد میں ہے بھی یا نہیں اور عوام کا کیا رد عمل ہو گا علاوہ ازیں جرائم پیشہ افراد یا دہشت گرد عناصر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،ملک کے کسی بھی حصے میں اگر دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجائے تو ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی خواہش میں تما م ڈھکی چھپی باتوں کا پردہ فاش کر دیا جاتا ہے یہ نہیں سوچتے کہ اس لائیو کوریج کو ہزراوں کلو میٹر دور بیٹھے دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ تک تمام معلومات پہنچ رہی ہیں اور وہ نئی حکمت عملی تیار کرسکتے ہیں ۔

الیکٹرونک میڈیا کی اس آزادی نے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا ہے دنیا میں ہر چینلز لائیو کوریج کرتا ہے دس سے پندرہ منٹ کے بعد دیگر خبروں یا واقعات کو نشر کرنا شروع کیا جاتا ہے لیکن پاکستانی میڈیا خبر کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا ہے، بال کی کھال نکالی جاتی ہے بات ہاتھا پائی تک پہنچتی ہے تو بیان دئے جاتے ہیں کہ پریس پر تشدد کیا گیا،یہ سب غیر ذمہ داری اور آزادی کا ناجائز استعما ل ہے ۔

حکومت کو چاہئے نیوز چینلز کو اتنا بے لگام نہ چھوڑا جائے کہ ان کی وجہ سے ملکی اور قومی مفادات متاثر ہوں،انہی چینلز پر انٹرٹینمنٹ اور ثقافت کے نام پر سماج میں عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے اور وہ پروگرامز جو معاشرے کے لئے سود مند نہیں ہیں انہیں فوری بند کیا جائے ،کیا ملک میں کوئی ایسا سٹوری رائٹر یا پروڈیوسر ڈائیریکٹر نہیں جو تعمیری ، ثقافتی یا قومی یکجہتی پر سیریل یا ڈرامہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ملک کے غیر تعلیم یافتہ افراد انہی ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے بے ہودہ پروگرامز جن میں ظلم و ستم ،تشدد ،خواتین اور بچوں سے زیادتی کو ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے آسکر ایوارڈ کیلئے بھیجا جائے گا، کو دیکھ کر جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں اور حکومت جانتے بوجھتے ہوئے خواب و خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔یاد رہے دنیا کے ہر ملک کی انفورمیشن منسٹری میڈیا پر گہری نظر رکھتی ہے کہ کوئی ایسی خبر نشریا پروگرام پیش نہ کیا جائے جس سے ملک و قوم میں انتشار ، بد نظمی یا ایسا ماحول پیدا ہو جس سے ملک وقوم کی بدنامی ہو یا حکومت پر انگلی اٹھائی جائے،اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک میڈیا اصلاح پسند اور غیر متعصب نہیں ہو گا اس وقت تک اس کے فوائد سامنے نہیں آئیں گے۔

ملک میں جرائم کی شرح جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے نے مجرموں اور بد کردار لوگوں کے آگے سپر ڈال دی ہے اور مرکزی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں سب کا کام جرائم پر قابو پانا نہیں بلکہ ان کے اعداد و شمار جمع کرنا رہ گیا ہے ،نام کی کمیٹیا ں اور کمیشن بٹھائے جاتے ہیں جو نہ کوئی رپورٹ تیار کرتے ہیں نہ کسی مجرم کی شہہ رگ تو دور انکی دھول تک نہیں پہنچ پاتے اس دوران پھر کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے اور پھر نوٹس لئے جاتے ہیں اور کمیشن بٹھائے جانے کی ڈرامہ بازی شروع ہو جاتی ہے سالوں سے یہی چلتا آرہا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا۔

کہنے کو جرائم آج پوری دنیا میں ہو رہے ہیں اور ہر جگہ ان کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں جرائم کی رفتار اس کی آبادی میں اضافہ سے کہیں زیادہ ہے ،گزشتہ چند سالوں میں حکومتوں نے جرائم اور مجرموں کا قلع قمع کرنے کیلئے نہ تو کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا اور نہ ہی جرائم کو روکنے کی پلاننگ کی ،پولیس فورس میں اضافے کے بعد بھی جرائم کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی کیونکہ مجرمانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی پولیس ہی مجرموں کی پشت پناہ بن جاتی ہے،آج اگر معاشرے میں قتل و غارت گری ، ڈاکہ، لوٹ مار ،عصمت فروشی اور عصمت دری روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں تو اس کی ذمہ داری انتظامیہ اور اس پولیس پر عائد ہوتی ہے جس پر سالانہ کروڑوں اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ،علاوہ ازیں ملک کے تمام ٹی وی چینلز مجرموں اور پولیس کی حرکات سکنات سے واقف ہیں اور کئی معاملات و واقعات کو پوری ذمہ داری سے نشر کرتے ہیں تاکہ حکومت اور اداروں تک حقائق پہنچیں ،لیکن حکومت ان مجرموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی۔

جرائم میں روز مرہ کے اس اضافے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ملک کے عام لوگ سماج دشمن عناصر سے مقابلے کی ہمت کھو بیٹھے ہیں وہ اپنی نگاہوں کے سامنے ظالم کے ظلم اور مظلوم کی بے بسی ،بے کسی کو دیکھتے ہیں لیکن مداخلت کی جرأت کرتے ہیں نہ ہی مجرموں کی نشاندہی اور نہ ہی عدالتوں تک جا کر ان کے خلاف گواہی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ،کیونکہ ہر فرد جانتا ہے ملک میں قانون و انصاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کسی مصیبت میں پھنس جائے گا ،ایک ڈوکٹر اپنے مریض کو نااہلی کی بنا پر غلط انجیکشن دے کر مار دے گا یا ایک قانون کا رکھوالا وکیل اپنے کلائنٹ کو قتل کرے گا تو ایسے ماحول میں بھلا کون ہوگا جو اتحاد و اتفاق کا دامن تھامے گا؟

ان نام نہاد لیڈرز کو سوچنا چاہئے جیسے انہیں اپنی ماں ، بہن ، بیوی ، بہو اور بیٹی کی عزت عزیز اور پیاری ہے ایسے ہی عوام کو بھی ان کے تمام رشتے ہر دلعزیز اور پیارے ہیں ،اپنی جان اور عزت کی حفاظت کیلئے ہزاروں کی نفری میں ہر سو پولیس تعینات کی جاتی ہے جبکہ یہی پولیس خود بے گناہ عوام کی جان لیتی اور سرعام عزت اتارتی ہے ،شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے،جمہوریت کے نام پر ملک وقوم کی چمڑی تک اتار لی گئی ہے،اور اس نازک اور افسوسناک ماحول میں اگر کوئی اصلاحات کی بات کرتا ہے تو لطیفے سننے کو ملتے ہیں۔

جمہوریت نما میری کرسی کو کوئی نہ کھینچے ،جمہوریت نہ ہوئی دھوتی ، شلوار یا پینٹ ہو گئی جو اتر گئی تو۔۔۔۔۔

کالم کے آغاز میں چند سوال تھے کہ ملک میں سنگین مسائل کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ان کے رکنے کی بجائے بڑھنے کے کیا اسباب ہیں ؟
کیا ان کا علاج ممکن ہے؟ان مسائل کا حل یا خاتمہ ممکن ہے تو کیسے اور ذریعہ کیا ہے؟

تو ان سوالوں کے چند جوابات پیش خدمت ہیں۔پہلی بات اس ملک میں نہ انقلاب آسکتا ہے اور نہ کوئی لا سکتا ہے ،ملک میں انقلاب موجودہ حکومت ہی لا سکتی ہے لیکن حکومت کو نئے سرے سے اپنے منشور کا اعلان کرنا ہو گا اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ چودہ اگست تک صرف ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنے تمام وزیروں سفیروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے،اور سب سے پہلے اوپر بیان کئے گئے مسائل کا حل نکالے ،اپنے اخراجات جو کروڑوں اربوں میں ہیں انہیں کم کرے پولیس اور کرپٹ اداروں میں تبدیلی لائے(پولیس میں کم سے کم ایف اے پاس کو بھرتی کیا جائے)اور ان کی ٹریننگ فوج سے کروائی جائے تاکہ وہ ملک و قوم سے وفاداری کے جذبے سے سرشار ہوں۔

جس دن پولیس کا مورال بلند ہو گیا کوئی غیر ملک پرندہ بھی ملک میں پر نہیں مار سکے گا، عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جائے فوری طور پر جعلی توانائی کے بحران کو ختم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر ملک کے کونے کونے میں سکولز بنائے جائیں، کم سے کم میٹرک تک تعلیم مفت کی جائے اور سکولز میں بچوں پر اساتذہ کا تشدد جرم میں شمار کیا جائے ،کچہری اور پٹواری سسٹم کو فوری ختم کیا جائے، وکلا اور ججز کیلئے ایک ایسا ادارہ یا سسٹم بنایا جائے جہاں نا انصافی کو کچلا جائے ،انصاف اور سچ کا بول بالا ہو، یہ سب کچھ ناممکن نہیں ہے ،میرا دعوہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر ملک میں خوشحالی کا انقلاب آجائے گا ، تب نہ کوئی کسی کی پگڑی اتارے گا نہ ہی ٹانگیں یا کرسی کھینچے گا۔

سوال یہ ہے حکومت خودخوشحالی کا انقلاب لانا چاہے گی یا اس وقت تک انتظار کرے گی کہ واقعی کوئی خونی انقلاب لائے اور سب کچھ اتار لے؟فیصلہ حکومت نے کرنا ہے اور حکومت کے پاس سب کچھ ہے لیکن وقت نہیں۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246093 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.