جی کا جانا ٹھہر گیا ہے

بالآخر این آر او کا اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھتا نظر آرہا ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آہی گئی....! حکومت نے این آر او کے مسئلہ پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں پیش نہ کرنے کا ”اصولی“ فیصلہ کرلیا ہے، این آر او کو اسمبلی میں پیش نہ کرنے کے پس پردہ کیا حقائق ہیں وہ اب زیادہ ڈھکے چھپے نہیں رہ گئے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں میں سے سب سے سرگرم ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین نے صدر زرداری سے ”قربانی“ مانگ لی ہے حالانکہ ابھی ”عید قربان“ میں کم و بیش ایک ماہ باقی ہے، ایم کیو ایم کے علاوہ ”فرینڈلی“ اپوزیشن نے بھی قدرے سخت مؤقف اپنانا شروع کر دیا ہے، اور تو اور این آر او کے خالق کو دس دس بار وردی میں منتخب کرانے کے دعویدار اور این آر او کے اجراء کے وقت عنان حکومت سنبھالے ہوئے لوگ بھی اس کے خلاف بیانات دے رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر اسمبلی سے واک آﺅٹ بھی کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی سیاست ایسے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جہاں ”مارو یا مر جاﺅ“ والی بات سامنے نظر آرہی ہے، اگر وہ ابھی بھی صدر زرداری کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھیں گے اور بڑا بھائی بننے کی کوشش کریں گے تو بظاہر ان کی سیاست ختم ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان کے عوام متفقہ طور پر این آر او اور امراء کی کرپشن سے انتہائی تنگ آچکے ہیں۔ جب وہ نواز شریف کو بھی صدر زرداری اور دیگر این آر او یافتہ حکومتی زعماء کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے دیکھتے ہیں تو ان کا سیاستدانوں پر سے ایمان اٹھ جاتا ہے۔ ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال، کیری لوگر بل جیسے متنازعہ امدادی پیکجز اور امریکہ کی حد سے زیادہ تابعداری بھی عوام کو انتہائی گراں گزر رہی ہے۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم، جس نے مبینہ طور پر این آر او سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا ہے وہ اچانک اس کی مخالفت پر کیسے اتر آئی؟ کیا پاکستان میں سسٹم کو دوبارہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں؟ کیونکہ ایم کیو ایم ہمیشہ اس کشتی سے اترتی آئی ہے جس کے ڈوبنے کا اندیشہ و احتمال پیدا ہوجاتا ہے اور بعض ”ایجنسیاں“ اور ”ایجنٹ“ انہیں اندر کی رپورٹس پہلے ہی پہنچا دیتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے قربانی کے مطالبہ اور این آر او کی مخالفت کو کچھ لوگ ”ریٹس“ بڑھانے سے بھی تعبیر کررہے ہیں جس کی صداقت وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ 2 نومبر کی صبح سے یہ خبر بڑی گرم تھی کہ قائد تحریک الطاف حسین نے صدر زرداری سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ہے لیکن رات گئے جیسے استعفیٰ کا مطالبہ سلیمانی ٹوپی پہن کر اڑ گیا اور اس کی تردید آگئی کہ الطاف حسین نے ایسی کوئی بات نہیں کی.... عوام کو ہمیشہ بیوقوف سمجھنے اور بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن اس مرحلہ پر عوام بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں، ع
”اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!“

سپریم کورٹ نے این آر او کے مسئلہ کو واپس پارلیمنٹ کو بھیج کر انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، اپنی جان چھڑائی ہے یا عدلیہ کو ”کہیں“ سے ایسی اطلاعات مل چکی تھیں کہ پارلیمنٹ میں این آر او کا مستقبل تاریک ہی رہے گا اور عین وقت پر جب حکومت اس بدنام زمانہ اور لٹیروں کے محافظ آرڈیننس کو قائمہ کمیٹی سے منظور کروانے کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظوری کے حوالے سے پر امید تھی، کیا ہوا چلی کہ ایم کیو ایم جیسی جماعت نے اس کی مخالفت کردی، ”فرینڈلی“ اپوزیشن نے اپنی توپوں کا رخ اسی جانب موڑ دیا اور سیاسی درجہ حرارت انتہائی اونچا ہونے لگا جس طرح مارچ میں اچانک تذبذب سے نکل کر میاں نواز شریف نے لانگ مارچ اور اس سے بھی آگے جانے کا پروگرام بنا لیا تھا، حالانکہ اس سے ایک دن پہلے تک میاں صاحب گومگو کا شکار تھے اور احتجاج کرتے نظر آتے تھے کہ وکلاء قیادت نے لانگ مارچ اور دھرنے کے معاملہ پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا!

صدر زرداری اور گیلانی حکومت کا مستقبل کیا ہے؟ اب جبکہ این آر او کو اسمبلی میں پیش ہی نہیں کیا جاسکا تو این آر او یافتہ ٹولے کا کیا بنے گا جس نے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو چوری کا مال سمجھ کر ہاتھ صاف کئے تھے، سرے محل سے انکار کرنے والے اب اس کی قیمت وصول کرچکے ہیں بلکہ بغیر ڈکار ہضم بھی کرچکے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے والا، ٹوکنے والا، سزا دینے والا نہیں ہے! اپنی جانیں بچا کر، ڈیل کر کے، عوام کو ایک آمر کی چیرہ دستیوں کے سامنے چھوڑنے والے اور کسی اور ڈیل کے تحت واپس آنے والے اب کس منہ سے عوام کا راگ الاپتے ہیں؟ ایم کیو ایم اور قاف لیگ (جس کو یار لوگ قبرستان لیگ کہتے ہیں)، جے یو آئی اور اے این پی کا تو مطمع نظر ہی کچھ اور تھا! اب پاکستان بچانے کیا کوئی باہر سے آئے گا؟ باہر سے جو بھی آئے گا وہ تو وائسرائے کے روپ میں آئے گا، باہر سے کوئی جب بھی آئے گا تو عوام تو دور کی بات ان کے راستہ میں چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مار سکے گا کیونکہ باہر سے آنے والوں کی جان کی قیمت اٹھارہ کروڑ لوگوں سے بھی زیادہ مہنگی ہوتی ہے! عوامی مسلم لیگ (جس میں عوام دور دور تک نظر نہیں آتے) کے قائد شیخ رشید کے طرز سیاست سے سو طرح کے اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ان کی ایک بات سے اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ اگر میاں نواز شریف اپنا یہی طرز عمل جاری رکھیں تو موجودہ حکومت بالعموم اور صدر زرداری اور ان کے ”نو رتن“ بالخصوص ایک دھوبی پٹخے کی مار ہیں، شیخ صاحب کے بقول
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ این آر او کے باوجود صدر زرداری کو استثناء حاصل ہے لیکن صدارت سے پہلے والے ”کارناموں“ کا کیا بنے گا، اس بابت کوئی کچھ نہیں کہتا! اب بال دوبارہ سپریم کورٹ کی کورٹ میں جانے والا ہے، صدر زرداری فارغ ہو بھی گئے تو کیا کوئی امریکہ کو آنکھیں دکھانے والا آئے گا یا اس سے بھی بڑا خوف زدہ شخص ایوان صدارت میں براجمان ہوجائے گا؟ کیا وہ وقت نہیں آگیا جب ہر پاکستانی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوجائے، کیا ابھی بھی عوام آزمائے ہوﺅں کو ہی آزماتے رہیں گے تاکہ وہ ان کے سینوں پر مونگ دلتے رہیں؟ کیا اب بھی کسی ایسے شخص کو موقع نہیں دیں گے جو کم از کم امریکہ کی غلامی پر یقین نہ رکھتا ہو، جس کا وژن کلیر ہو، جس کے ہاتھ کرپشن میں نہ رنگے ہوں، جو انصاف کی بات کرتا ہو، جو انصاف کے لئے تحریک چلاتا ہو! عمران خان! یہ قوم کوئی راہنما چاہتی ہے، کیا آپ پر اعتماد کرسکتی ہے؟ کیا آپ اس کے اعتماد پر پورا اتر سکتے ہیں؟ خدارا عمران خان اور اس جیسے لوگوں کو اب خاموشی مکمل طور پر توڑ دینی چاہئے، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں وہ کتنی تیز چل رہی ہے، بس انہیں کوئی سمت دینے کی دیر ہے، انہیں یقین دلانے کی دیر ہے کہ اب آپ کے بھروسے اور اعتماد کو کسی قسم کی ٹھیس نہیں پہنچائی جائے گی، بس بہت ہوچکا! اب یہاں انصاف ہوگا، سب کے ساتھ انصاف ہوگا! انصاف کے لئے کسی کا حسب،نسب، ذات، برادری اور عہدہ نہیں دیکھا جائے گا! قوم تو تیار ہے کیا راہنما بھی یہ چیلنج قبول کرنے کو تیار ہیں؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222764 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.