میرے اور ہم سب کے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ” ایک وقت
ایسا آئے گا کہ دنیا تم پر ایسے چڑھ دوڑے گی جیسے کھانے پر مدعو کیا جاتا
ہے ۔اس وقت تمھاری تعداد بہت زیادہ ہو گی مگر تمھاری حالت ندی میں بہنے
والے تنکوں کے مانند ہو گی۔“
یہ وہ حدیث ہے جو کہ قرب قیامت اور فلسطین پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کی
کھلی دلیل ہے۔ آج ہماری تعداد بھی زیادہ ہے اور او آئی سی میں شامل ممالک
کی تعدا جی ۔ایٹ وغیرہ سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم تعداد میں
زیادہ ہوتے ہوئے بھی طاقت میں بہت ہی قحط زدہ ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ
میرے پیارے نبی ﷺ نے عیش و عشرت بیان فرمائی تھی۔ میرا ایک سوال ہے کہ کیا
کوئی حکمران چاہے وہ اوباما ہو، نتن یاہو ہو، ولادی میر پیوٹن ، شاہ
عبداللہ ہو یا پھر نواز شریف بتا سکتا ہے کہ اپنے کمزور کندھوں پر اپنے
نومولود اور جوان بیٹے کی لاش اٹھانے کا دکھ کیا ہوتا ہے ؟ کیا کبھی ان
لوگوں نے اس غم اور تکلیف کی شدت کو محسوس کیا ہے کیا کبھی ان لوگوں نے
اپنے جوان بیٹوں کی لاش کو اپنے کندھے پر اٹھا یا ہے ؟ کیا ان حکمرانوں نے
کبھی سوچا ہے کہ ایک مسلم ملک کا سربراہ ہونے کے علاوہ عالمی سطح پر ان کی
ذمہ داری کیا ہے ؟ان کو اسرائیل کی جانب سے کی گئی بربریت اور سفا کیت پر
کیا رد عمل دینا چاہیئے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ جو
ممالک کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا اس کا سیکڑی جنرل اگر کہے کہ
عالمی برداری اس جنگ کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تو اس کا مطلب کیا
ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے ۔کیا ان
ظلم کرنے والے اور اس ظلم کا تماشا دیکھنے والے حکمرانوں نے کبھی وہ اذیت
کے پل محسوس کیے ہیں جن کو محسوس کر کے ہر روز فلسطینی عوام اپنے دن کا آغا
ز کرتے ہیں؟ کیا اس خوف کے سائے میں ان لوگوں نے کبھی وہ ایک پل گزارا جب
ان کو خدشہ ہو کہ ناجانے کب کہاں سے کوئی راکٹ آئے اور ان کے پیارے کو ان
سے چھین لے یا اس اذیت کا شکار ہوئے جب گولہ بارود ان کے عزیزوا قارب کے
سینوں میں اتار دیا جائے ۔
فٹبال ورلڈ کپ کا میلہ سجا لاکھوں لوگ ٹی وی سکرین کے آگے بیٹھ کر پل پل
ہونے والے والے گول ا ور حرکت کو مانیٹر کرتے رہے مگر اس شور اور ہنگامے
میں ہم ان معصوم بچوں ، خواتین اور نوجوانوں کو بھول گئے جن کے سینوں کو
اسرائیل نے گولہ بارود سے بھر دیا اور ان کو ایک اور سانس لینے کی مہلت تک
نہ دی۔ اس لاپرواہی ، غفلت اور بے حسی کے ذمہ دار آپ میں ہم سب ہیں۔ اس
بربریت کو دیکھتے ہوئے بھی ہمارا ضمیر جنبش نہیں کرتا ۔دنیا بھر میں لاکھوں
لوگوں نے آواز اٹھائی اگر کسی نے کچھ نہیں کیا تو وہ مسلم ممالک کے حکمران
ہیں جو بے بسی اور بے حسی کا مجسمہ بنے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ
میڈیا نے بھی اپنی تیز دھار آلے کا جادو چلایا اور لوگوں کی نظریں اور
سوچیں کمال مہارت سے ورلڈ کپ کی جانب موڑے رکھا اور اس کے آڑ میں اسرائیل
نے معصوم اور نہتے 173 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ۔ اگر ہم لوگوں نے اپنی
عیش عشرت نہ چھوڑی تو یہ ممالک جو اپنی طاقت میں سرشار ہیں اور خاص طور پر
یہودی جو کہ اپنے آنے والے بادشاہ دجال کے لیے راہ ہموار کرچکے ہیں وہ ہمیں
روندتے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔ میرا اللہ فرماتا ہے ” اگر تم اپنا عہد پورا
نہیں کرو گے تو میں تمھاری جگہ دوسرے قوم لا کھڑی کروں گا“ |