اہلیانِ غزہ ! یہ محمد بن قاسم کا زمانہ نہیں
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے ہم سچ
کے لئے بی بی سی سنا کرتے تھے اور سرکاری سچ کے لئے پی ٹی وی۔پھر پاکستان
کے ایک آمر اور غدار نے ہمت کی اور کچھ نجی چینلز کو بھی لائسنس جاری کر
دئیے کہ وہ بھی اپنی مرضی کا سچ لوگوں تک پہنچائیں۔بی بی سی پہ انحصار کم
ہوا لیکن ہمارے اپنے وہی کام کرنے لگے جو کبھی بی بی سی والے کیا کرتے
تھے۔یعنی اپنی مرضی اور مطلب کا سچ۔جب چینلز کو لائسنس ملے تو ہمارے صحافی
بھائیوں نے بھنگڑے ڈالے کہ صحافت آزاد ہو گئی۔کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ پہلے
ایک خصم تھا اب ہر پیسے والا خصم ہے۔پہلے صرف اس سچ پہ پابندی تھی جو
حکمرانوں کو برا لگتا تھا۔اب ہر اس سچ پہ قدغن لگنے لگی جو ادارے کے مالک
کے ایجنڈے پہ فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔کوئی امن کی فاختہ اڑانے لگا تو کوئی
میڈیا ڈان بننے کی کوشش کرنے لگا۔کازکاروبا رہو کے بازار کی جنس بن گیا اور
بیچارے صحافی اس کے کارندے۔جس کی جدھر اچھی بولی لگی اس نے اس ڈال پہ بسیرا
کر لیا۔اس اتھل پتھی اور ادل بدل میں ایسے ایسے ٹکے ٹوکری ہوئے کہ آج تک
زخم چاٹتے ہیں۔یہ لیکن ہمارا ٓج کا موضوع نہیں۔اس پہ پھر کبھی سہی
سامراجی طاقتوں کو مختلف حوالوں سے مختلف لوگوں خصوصاََ مسلم دہشت گردوں کے
بارے میں معلومات درکار تھیں۔اسی مقصد کے لئے سوشل میڈیا لانچ کر دیا گیا۔
ایسے ایسے خوش رنگ نظارے دکھائے گئے اور ایسی ایسی سہولتیں کہ ہر کاہ و ماہ
سوشل میڈیا پہ جگمگانے لگا۔اسے لانچ کرنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ
اس پہ کون کیا لکھ رہا ہے اور کون کیا کہہ رہا ہے۔وہ کسی کو روکتے نہیں بس
گھر بیٹھے اس پہ نظر رکھتے ہیں اور جہاں کہیں انہیں اپنے مطلب کی چیز نظر
آتی ہے اسے قابو کرتے اور استعمال کر لیتے ہیں۔انہوں نے اسی پہ بس نہیں کی
بہت سی اپلیکیشنزلانچ کر دیں جن سے صارف کو بہت سہولت مل گئی لیکن اکثر لوگ
یہ نہیں جانتے کہ ان ایپلیکیشنزکے استعمال سے پہلے وہ کس معاہدے پہ دستخط
کرتے ہیں اور ایپلیکیشنز کے مالکان کو اپنے کون کون سے اختیارات تفویض کرتے
ہیں۔ذاتی معلومات،آپ کا کاروبار،آپ کی سیاسی معاشی ،سماجی ،رفاعی ہر طرح کی
سرگرمیاں اب انٹرنیٹ کی مرہونِ منت ہیں۔ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا کے کسی
کونے میں چھپ کے بیٹھا دجال ایک بٹن کے ذریعے آپ کی ہر چیز کو ساکت وجامد
کر دے گا اور آپ بس ٹاپتے رہ جائیں گے۔ لیکن یہ بھی ہمارا آج کا موضوع
نہیں۔اس پہ بھی پھر کبھی تفصیل سے بات ہو گی۔
آج کا موضوع تو سوشل میڈیا پہ چلنے والی وہ ویڈیو ہے جس میں ہزاروں لوگ
فلسطین کے کسی علاقے میں جمع ہیں اور پاکستانی قوم اور افواج کو اپنی مدد
کے لئے آوازیں دے رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلم امہ کا حصہ ہیں۔سرکارِ
دوعالم ﷺ کے فرمان کے مطابق ہم جسدِ واحد ہیں۔ان کی اس پکار میں اتنا درد
تھا کہ پہاڑوں کے پتھر وں کو بھی یوں پکارا جاتا تو وہ اپنی جگہ سے حرکت
میں آ جاتے۔فلسطین کے وزیر اعظم نے بھی اسی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے
دنیا بھر کے مسلمانو کے لئے ایک ٹویٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانو
! آپ کو صرف یہ بتانا تھا کہ ہم اسرائیل کے حملے کی زد میں ہیں۔آپ برازیل
میں منعقد ہونے والا فٹ بال کا فائنل دیکھیں ۔آپ کو ڈسٹرب کرنے لئے
معذرت۔سوشل میڈیا پہ ایک بچہ جس کی دو بہنوں کو اسرائیلی غنڈوں نے اپنی
بمباری سے شہید کر دیا تھا اس لہجے میں فریاد کر رہا تھا کہ جسے دیکھ کے ہی
شاید مغربی دنیا کے یہودی ربی بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ ساری دنیا اسرائیل کی
بربریت اور اس کے ظلم پہ سراپا فریاد ہے ۔اگر اس ظلم و بر بریت پہ کوئی محو
خواب ہے تو امریکیوں کے پٹھو عرب کے حکمران اور ان کے کارِ خاص باقی دنیا
کے مسلمان حکمران۔
واحد مسلم ایٹمی طاقت کے وزیر اعظم اور دفترِ خارجہ نے سوائے ممیانے کے اور
کچھ نہیں کہا حالانکہ جس لمحے پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو
فلسطینیوں نے اسرائیل سے کہا تھا کہ ہمارے ہاتھ میں اٹھائے پتھر نہ دیکھو
اب ہمارے ایک بھائی کے پاس ایسی طاقت ہے کہ دنیا سے تمہارا نشان مٹ سکتا
ہے۔وہی فلسطینی آج اس امید پہ پاکستان کے حکمرانوں کو آوازیں دے رہے ہیں
لیکن انہیں جواب نہیں مل رہا۔ملے بھی کیسے ہمارے ہاں فوج پہلے ہی ان صیہونی
ایجنٹوں سے برسر پیکار ہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن
مسلمانوں ہی کی مساجد خانقاہوں اور بازاروں میں خود کش حملے کرتے
ہیں۔۔پاکستانی عوام دل سے آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان سے بھی کسی مدد کی امید
نہ رکھیں کہ یہ بجلی پانی روٹی کی قلت کے مارے ہیں۔اپنا پیٹ بھرے گا تو یہ
کسی اور کی طرف دیکھیں گے۔رہے ہمارے سیاست دان تو ان سے کوئی امید اس لئے
بھی نہ رکھیں کہ یہ آج کل ایک دوسرے کی ناجائز اولادیں تلاش کر رہے
ہیں۔کوئی اقتدار بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے تو کوئی اقتدار چھیننے
کے لئے۔کسی کو جمہوریت کی فکر لاحق ہے تو کوئی انقلاب لانے کی تیاریاں کر
رہا ہے۔ کہنے کا مطلب میرے فلسطینی بھائیو! صرف اتنا ہے کہ ہم ابھی فارغ
نہیں ہیں۔ ہم ذرا اپنے جھمیلوں سے فارغ ہو لیں۔ ذرا انقلاب لے آئیں۔ذرا
لانگ مارچ کر لیں ذرا نصیبو لعل منجی تلے ڈانگ پھروا لے ۔ہمارے حکمرانوں کی
جائز اور ناجائز شادیاں اور اولادیں سامنے آ جائیں تو ہم اپنے سارے تیر
وتفنگ اٹھا کے آپ کی مدد کو پہنچیں گے۔ہم اسرائیل اور اس کے پٹھو امریکہ کو
ناکوں چنے چبوا دینگے بس ہمیں ذرا مریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ زملنے دو۔
جونہی امریکی عوام یو ایس سپورٹ فنڈ سے پاکستان روشن کر کے دینگے اور علم
کی روشنی گھر گھر پھیل جائے گی ہم تمہاری مدد کو پہنچیں گے۔فی الحال آپ
ترکی کے وزیر اعظم کی اس دھمکی سے دل بہلاؤ کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت سے
باز نہ آیا تو ہم زمینی حملہ بھی کر سکتے ہیں۔
دعا کرو کہ مسلم امہ شیعہ اور سنی کے عذاب سے نکلے۔دعا کرو یہ سارے مسلمان
بن جائیں۔دعا کرو امہ کو امریکی غلامی سے آزادی نصیب ہو۔دعا کرو کہ
مسلمانوں میں کوئی ایک غیرت مند حکمران پیدا ہو اور دعا کرو کہ امریکی اسے
پیدا ہونے سے پہلے ہی نہ مار دیں تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے۔جب تک تمہاری
یہ سب دعائیں قبول نہیں ہوتیں ہمیں آوازیں دے کے ہمارا اور اپنا وقت ضائع
نہ کرو۔عرب کے رہنے والو! تم سمجھتے کیوں نہیں کہ اب محمد بن قاسم کا دور
گذر گیا جب دیبل کی بندرگاہ سے ایک مسلمان عورت نے آواز دی تھی تو وہ عرب
سے اس کی مدد کو دوڑا آیا تھا۔اب وہ دور لد گیا اب پاکستان سے فلسطین آنے
کے لئے ویزہ لینا پڑتا ہے۔ویزہ لینے والے کو ویزہ بعد میں ملتا ہے ہمارے
آقاؤں کو اس کی خبر پہلے ہوتی ہے۔تم لوگ خود تو مر ہی رہے ہو ہمیں بھی
مروانا چاہتے ہو۔ کچھ تو خدا کا خوف کرویار۔ہم سوشل میڈیا پہ آپ کی مدد کے
لئے اﷲ سے بھی دعا کریں گے اور نعرے بھی لگائیں گے۔فی الحال اتنے ہی کو
کافی سمجھو اور وہ پتھر دوبارہ اٹھا لو جو ہمارے ایٹم بم کا سن کے تم نے
زمین پہ پھینک دئیے تھے۔اﷲ تمہارے پتھروں کو ابابیلوں کی کنکریوں والی طاقت
عطا فرمائے۔آمین |
|