ریاست جموں وکشمیرمیںموجودہ
پارلیمانی انتخابات معمول اورروایتی انتخابات سے ذراہٹ کرہوئے۔جہاں ایک طرف
ان انتخابات میں فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کے چہرے بے نقاب ہوئے وہیں
دوسری طرف لوگوں نے شخصیت کومدنظررکھ کربھی اپنے حق رائے دہی کااستعمال
کیا۔بالخصوص خطہ چناب اورخطہ پیرپنچال کے سیاسی نمائندوں جنھیں عوام نے
گذشتہ پارلیمانی یااسمبلی انتخابات میں بڑے جوش وجذبے کیساتھ ووٹ کااستعمال
کرکے اپنے علاقہ جات کی تعمیروترقی کے لئے پارلیمنٹ یااسمبلی نیزکونسل میں
بھیجاتھاان سے لوگوں کی کثیرتعدادخفانظرآئی ۔اس بات سے پردہ اُس وقت
اُٹھاجب ریاست کے مایہ نازثبوت اورکانگریس کے صاف وشفاف شبیہ رکھنے والے
لیڈراور مرکزی وزیرصحت غلام نبی آزادکے حق میں ریاستی ایوانوں کے عہدوں
پربراجمان ممبران قانون سازیہ کے تئیں لوگوں نے ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے
غلام نبی آزادسے صاف صاف کہاکہ ہم آپ کے حق میں ووٹ کااستعمال کریں گے
مگریہ لیڈران جنہیں گذشتہ انتخابات میں ہم نے بڑے جوش وجذبے کیساتھ ووٹ
دیکرکامیاب کیاانہوں نے ہمیں نظراندازکیاہے لہذاان سے کہہ دیں کہ آپ کے
کہنے پرہم ووٹ نہیں دیں گے۔ہم آپ کی شخصیت اورکارناموں کودیکھتے ہوئے آپ کے
حق میں ووٹ کااستعمال ضرورکریں گے۔ اس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ عوام کوجھوٹے
وعدوں سے لبھانے والے لیڈران سے عوام خفاہے ۔خطہ پیرپنچال میں بھی ایسی ہی
صورتحال دیکھنے کوملی جہاں مدن لال شرماکی ناقص کارکردگی سے عوام خفانظرآئی
۔تاہم کانگریس اورنیشنل کانفرنس سے وابستہ لیڈران نے عوام کوطرح طرح کے
لالچ دیکرلبھانے کی بھرپورکوشش کی اورایڑی چوٹی کازورلگایامگرکہاجاتاہے کہ
پبلک سب جانتی ہے۔۔عوام تعمیروترقی کے حقیقی متمنی شخص کوپہنچانے کی اہل
ہوچکی ہے۔تاہم جاہل ووٹران کی کثیرتعدادنے سیاسی لیڈران کے کہنے پربھی ووٹ
دیاہوگامگررائے دہندگان کی کافی تعدادایسی تھی جس نے ہرلیڈرکویقین دلایاکہ
میں آپ کے ساتھ ہوں مگرووٹ کااستعمال اپنی مرضی ومنشاکے تحت ہی کیا۔نہ صرف
اس سے عوام کی ممبران قانون سازیہ اورممبران پارلیمان سے ناراضگی ظاہرہوتی
ہے بلکہ رائے دہندگان نے یہ بھی عندیہ دیاہے کہ وہ تعمیروترقی کوترجیح دینے
والے لیڈران کوہی کامیاب کریں گے۔ گذشتہ انتخابات میں خطہ چناب اورخطہ
پیرپنچال میں اسمبلی انتخابات کے دوران لوگوں سے سیاستدانوں نے بڑے بڑے
اورنہ پورے ہونے والے وعدے تک کردیئے مگرجب سیاستدان اپنے مقاصدمیں کامیاب
ہوکرایوانوں میں پہنچ گئے تووہ عوام سے کیے گئے وعدوں کویکسربھول گئے ۔جوسیاستدان
ممبران اسمبلی منتخب ہوئے ان کاکام تھاکہ وہ لوگوں سے کیے گئے وعدوں اوران
کی توقعات کے عین مطابق کام کرتے مگرعوام سے ووٹ بٹورنے کے بعدمختلف سیاسی
جماعتوں کے منتخب ہونے والے ممبران قانون سازیہ عوام سے کیے گئے وعدوں
کوبھول گئے اوراس طرح سے عوام کواحساس ہواکہ انہیں انتخابات میں سیاستدانوں
نے بیوقوف بنایاہے۔اگرچہ منتخب ہوئے ممبران اسمبلی نے کچھ کام بھی کیے
مگرانہوں نے محدودلوگوں تک اپنے حلقہ ترقیاتی فنڈزکوواگذارکیاجس کی وجہ سے
عام عوام شدیدمتاثرہوئی ۔سڑکوں کی حالت بہترنہ ہوئی،نہ ہی بجلی،پانی سڑک
جیسی بنیادی سہولیات عوام کومیسرہوئیں ۔ممبران اسمبلی یاایم سی حضرات نے
اپنے ہی اگردگردکے اوراثرورسوخ رکھنے والے سیاسی لوگوں کوفائدہ
ضرورپہنچایامگرممبران اسمبلی نیزایم ایل سی حضرات زمینی سطح پرغریب عوام تک
فائدہ نہ پہنچاسکے جس کاخمیازہ انہیں آئندہ اسمبلی انتخابات میں
بھگتناپڑسکتاہے۔ یہ توسیاسی لیڈران کی خوش قسمتی ہے کہ اسمبلی انتخابات سے
قبل پارلیمانی انتخابا ت ہوئے جس سے لوگوں کی سوچ اوررجحان کاانہیں قبل
ازوقت پتہ چل گیا۔ منتخب ممبران قانون سازیہ کوچاہیئے تھاکہ وہ لوگوں کی
بہبودکےلئے قوانین بناتے مگرمنتخب نمائندوں نے نہ توعوام کی بہبودکےلئے
عوامی توقعات کے مطابق قوانین بنائے ۔اس کے بجائے انہوں نے بلاک سطح کے
کاموں کوکرانے یاحلقہ ترقیاتی فنڈزکے تصرف پرزیادہ دھیان دیااوروہ بھی
سیاسی اثرورسوخ والوں کوہی فائدہ پہنچایاجس کے سبب عام لوگوں تک فنڈزکے
استعمال کافائدہ نہ پہنچا۔بلاک سطح کے کاموں ودیگرچھوٹے موٹے کاموں میں
الجھ کررہنے سے ممبران قانون سازیہ کی اہمیت ایک پنچایت سرپنچ یابلاک صدرکی
رہ گئی جس سے ممبران قانون سازکی ساکھ بھی متاثرہوئی۔پارلیمانی انتخابات سے
ثابت ہوتاہے کہ عوام میں سیاسی نمائندوں کی شبیہ بگڑی ہوئی ہے اوروہ اب کی
باراسمبلی انتخابات میں بڑاسوچ سمجھ کرووٹ کااستعمال کریں گے اوروہ کسی بھی
سیاستدان چاہے وہ کتناہی شاطرکیوں نہ ہووہ اس کے جھوٹے وعدوںیاجھانسوں میں
آکربیوقوف نہیں بنے گا۔اب جبکہ سیاسی لیڈران کوپارلیمانی انتخابات کے توسل
سے عوامی رجحان کاعلم ہوہی چکاہے تو سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ تعمیروترقی
کے کاموں کوپنچایت نمائندہ یابلاک صدرجیسالیڈربن کرنہیں بلکہ اپنی ساکھ
کوبرقراررکھتے ہوئے بطورممبراسمبلی یاوزیرکی حیثیت سے کرائے اورایوانوں میں
عوامی مفادات کے قوانین بھی پاس کروائے تاکہ عوام کواس بات کااحساس
بغیرباویلامچائے ہی ہوجائے بجائے اس کے کہ اس لیڈرنے یہ یہ تعمیراتی کام
کیے ۔ موجودہ سرکارکے وزیراعلیٰ نے اپنے دورِاقتدارمیں الگ الگ موڑپرالگ
الگ چہرے دکھائے ۔ عوام نے سرکارکی نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کونوجوانوں کے
مستقبل کیساتھ کھلواڑقراردیامگراس کے باوجودوزیراعلیٰ اوراس کے
وزراءاورممبران قانون سازیہ پرکوئی اثرنہ ہوا۔ آج ریاست کے نوجوانوں میں بے
روزگاری اورسرکارکی غلط پالیسیوں کے وجہ سے مایوسی پائی جاتی ہے۔ریاست
بھرکے نوجوان موجودہ سرکارسے پوچھناچاہتے ہیں کہ اس نے نوجوانوںکے مستقبل
کوتاریک بنانے کی سازش کیوں رچی ؟اس سازش سے کس کابھلاہوگا۔طرہ یہ ہے کہ
انتخابات کے وقت بہت سے لیڈران نے روزگارپالیسی کوریاست کے نوجوانوں کیساتھ
کھلواڑقرارتودیامگرصرف اورصرف ووٹ بٹورنے کےلئے ۔سیاستدانوں کوسوچناچاہیئے
کہ سیاست کامقدس پیشہ کے تئیں عوام کیاتاثرقبول کررہی ہے ۔سیاستدانوں کوایک
جھوٹوں کی جماعت کے طورپرسمجھاجانے لگاہے ۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ
ایک وقت ایساتھاجب سیاست خدمت خلق انجام دینے کابہترین پیشہ
تصورکیاجاتاتھامگرآج کی غیرمعیاری سیاست کے سبب نوجوان سیاست کے پیشے
کواپنانے سے کترارہے ہیں ۔ سرکارکونئی ریکروٹمنٹ پالیسی لاگوکرنے سے قبل
عوام اوربالخصوص نوجوان دانشوروں کی رائے تولینی ہی چاہیئے تھی ۔ایسی بھی
کیاجلدی تھی کہ اس پالیسی کولاگوکرنے میں تاخیرنہ کی گئی ۔سرکارکونوجوانوں
کی معیشت کومضبوط کرنے کی ضرورت تھی مگراس نے غلط پالیسی مرتب دیکرنوجوانوں
کے مستقبل کوتاریک کرنے کی سمت اہم قدم اُٹھایا۔انتخابات میں مخلوط سرکارکے
لیڈران کے تئیں بالخصوص نوجوان طبقہ کاخفانظرآنانئی ریکروٹمنٹ پالیسی ہی
رہی ۔وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے وعدہ کیاتھاکہ وہ ہرایک گھرمیں ایک شخص
کونوکری عطاکرے گامگرکچھ ہی عرصہ کے بعدعمرعبداللہ نے اپنے ہاتھ کھڑے کرتے
ہوئے کہہ دیاکہ وہ ہرایک نوجوان کونوکری نہیں دے سکتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ
درست ہے کہ ہرایک نوجوان کونوکری دینامناسب نہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ
سرکاراگربہترحکمت عملی اپناکرہرشخص کےلئے قابل قبول روزگارپالیسی عمل میں
لاتی توریاست کی تعمیروترقی میں نوجوان اہم رول اداکرنے کے اہل ہوجاتے ۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کے باوجودپانچ سال تک آدھی تنخواہ وہ
بھی نہایت ہی قلیل اُجرت پرکام کرانازیادتی نہیں توکیاہے۔سرکارکوچاہیئے
تھاکہ وہ اپنے نوجوانوں کے مالی وسائل کوگھٹانے کے بجائے دیگروسائل کوترقی
دیتی ۔مرکزی وزیرصحت غلام نبی آزادایک سنجیدہ اورمخلص وبے داغ سیاسی
رہنماہیں ان کی سیاسی بصیرت سے کسی کوانحراف نہیں ۔اس لیے مرکزی وزیرصحت
غلام نبی آزادکوچاہیئے کہ وہ سیاستدانوں کوسیاست کے آداب سکھانے کے ساتھ
ریاست کے نوجوانوں کے مستقبل کوتاریک بنانے والی تشکیل شدہ نئی ریکروٹمنٹ
پالیسی کوکالعدم کرانے میں اپنارول اداکریں۔سیاستدانوں کوسمجھناچاہیئے کہ
مفادعامہ میں قوانین تشکیل دیں نہ کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے عوام
کی مالی ومعاشی حالت کمزورہو۔وقت کاتقاضایہی ہے کہ صحت مندسیاست کے ذریعے
سیاستدان ریاست کی تعمیروترقی کےلئے اپناموثرکردارنبھائیں ۔ایساکرنے کےلئے
سیاستدانوں کوایمانداری کے اصول کواپناناچاہیئے اورعوام کے ساتھ کیے ہوئے
وعدوں کونبھانے چاہیئں نہ کہ صرف انتخابات کے وقت عوام کوبیوقوف بنانے کی
کوششیں کی جائیں ۔آج زمانہ قدیم نہیں کہ لوگ جھوٹے وعدوں پریقین کرلیں ،رواں
پارلیمانی انتخابات کے دوران عوام کے رجحان سے یہی لگتاہے کہ پبلک سب جانتی
ہے اورسیاستدانوںکواس بات کومدنظررکھتے ہوئے وہی وعدے کرنے چاہیئں جووہ
پورے کرسکتے ہوں۔جاہلوں کوبیوقوف بناناآسان ہے مگرموجودہ دورتعمیروترقی
اوربیداری کاہے ۔عوام بیدارہوچکی ہے اورجانتی ہے کہ کون سالیڈرکتناپانی ہے
اورکتنی تعمیروترقی کرانے کااہل ہے اس لیے دیانتداری پرمبنی سیاست کرنے
والے سیاستدان ہی آج کے دورمیں عوام کے دِلوں کوجیت سکتے ہیں ۔جوسیاستدان
جھوٹ پہ مبنی سیاست کے ذریعے عوام کااستحصال کرناچاہتے ہیں انہیں ان کے
جھوٹے وعدے ایک دِن ضرورلے ڈوبیں گے ۔سیاستدانوں کوچاہیئے کہ وہ جاری
پارلیمانی انتخابات میں عوامی رجحان کوسمجھتے ہوئے تعمیروترقی اورمثبت
سیاست کے ذریعے عوام کادِل جیتیں ۔جوسیاستدان تعمیروترقی کے میدان میں
انقلاب لائیں گے انہیں عوام کے پاس جاکرووٹ نہیں مانگناپڑے گابلکہ لو گ
انہیں گھربیٹھے ہیں ووٹ دیں گے ۔مرکزی وزیرصحت غلام نبی آزادنے
بطوروزیراعلیٰ ریاست تعمیروترقی کے میدان میں انقلاب لایا،عوامی اُمنگوں
کوپوراکیا،مرکزی وزارت صحت کوسنبھالنے کے بعدبین الاقوامی سطح پرملک کے
شعبہ صحت کاوقاربلندکرکے ریاست کانام روشن کیا۔ریاست جموں وکشمیرکے
سیاستدانوں کوغلام نبی آزادکواپنے لیے مشعل راہ شخصیت تصورکرناچاہیئے اوران
کے نقش وقدم پرچل کرریاست کوتعمیروترقی کی راہ پرگامزن کرنے کےلئے مخلصانہ
کاوشیں کرنی چاہیئیں۔ |