سرمایہ درویش

ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کسی دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اپنی توہین سمجھی جاتی ہے اورٹھوکریں کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ کسی بھی شخص کا حاصل اس کے تجربے کی بناء پر ہوتا ہے مگر ہمارا بگڑامعاشرہ طالبعلم بننا یا طلب علم رکھنا اپنی کم علمی کو تقویت دینا قرار دیتا ہے‘ ہمیں ہر دوسرا شخص دوسروں کو نصیحتیں کرتا نظر آتا ہے مگر کسی کی نصیحت پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے‘ ایم بی بی ایس کے بغیر ہی ادویات تجویز کرنیوالے ماہر ہر گھر میں وافر‘حکیم ہر دوسرا شخص‘ہرفن مولاتو ہرفرد ہو چکا ہے مگر ہر کوئی اس شاعر کی مانند ہے جو اپنا کلام ہر ایک کو صرف سنانا چاہتا ہے کسی کا کلام سننا نہیں ‘یہاں کسی دوسرے کی بات نہیں سنی جاتی اور معاشرے کی بے راہ روی اور عدم برداشت پر تبصرے ہر شخص کرسکتا ہے ‘دراصل ہم لوگ ایسے جاہل ہیں جو دوسروں میں جہالت تلاش کرتے ہیں اور اپنی جہالت کو علم کا نام دے کر سب پرتھوپنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اور اختلاف رائے کو قبول نہ کرنے کی رسم پر معاشرے کو عدم برداشت کی راہ پر گامزن سمجھتے ہیں۔

اسی معاشرے میں معاشرے کے ایسے رسم و رواج سے ہٹ کر مجھے اپنی بے مائیگی اور کم علمی کا ازحد احساس ہے اور اسی تشنگی کے سبب ہر صاحب علم و دانا حضرت کی صحبت کا خواہاں رہا ‘عصر حاضر کے ہر صوفی‘ ہر درویش کے پاس جانے کا شرف حاصل کیا اور سب کے علوم و فیوض اور تجربات سے مستفید ہونے کی کوشش کی ’اپنی اسی تشنگی کے سبب گوجر خان کے پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب‘ جہلم کے بابا عرفان الحق صاحب‘سرگودھا کے صوفی صاحب‘چکوال کے صوفی قمراقبال صاحب‘لاہور کے سید سرفراز احمد شاہ صاحب‘جی ٹی روڈ سنگھ پورہ کے لیاقت صاحب‘پی آئی اے سوسائٹی کے صوفی نیاز صاحب‘گڑھی شاہو کے آغا اطہر صاحب ‘گوپال نگر کے راجہ محمد نعیم صاحب و دیگر حضرات کو اکثر تنگ کرتا رہتا ہوں اور درجنوں دوستوں کو بھی ان کے پاس بھجواتا رہتا ہوں ‘ایک روز اسی خیال سے پروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب سے ملنے چلا گیا ‘حسب روایت کمرے کی تمام کرسیوں پر ان کے چاہنے والے براجمان تھے اورپروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب اپنے مریدین کی فرداً فرداً بات بھی سن رہے تھے ‘ انہوں نے مجھے کمرے سے لیا اور باقی افراد کو وہیں بٹھا کر باہر آگئے اور بڑے اطمینان و تحمل سے علمی گفتگو شروع کردی ‘اپنا تعارف کروائے بغیر ہی اتنا پروٹوکول دیکھ کر پھولے نہیں سما رہا تھاانہوں نے جس مفصل انداز اور محبت سے علم کے چند پرت کھولے میرے دماغ میں علم کو وسعت ملنا شروع ہوگئی ۔

پروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب سے اس ایک ملاقات نے ہی مجھے ان کا گرویدہ بنادیااب ان سے اکثرملاقات ہوتی رہتی ہے گزشتہ روز انہوں نے اپنی نئی کتاب مجھے عنایت کردی اس خصوصی شفقت پر اس حد تک خوشی ہوئی کہ یک نشست میں ہی کتاب پڑھ لی‘کتاب کو پڑھنے کے بعد محو حیرت ہوں کہ اس درویش نے کچھ بھی مخفی نہ رکھا بلکہ اپنی زندگی کا حاصل‘اپنے تمام تر تجربات کا نچوڑ‘اپنی محنت کاثمر‘اپنے تمام کمالات کا تمام سرمایہ اپنی تمام محنت شاقہ سے عوام کیلئے مختص کرتے ہوئے مجرب ترین اعمال وظائف کے صدیوں پرانے سربستہ رازوں کا دنیا میں پہلی بار انکشاف’’سرمایہ درویش ‘‘ میں کردیا ‘آج تک سینکڑوں کتابیں پڑھی ہیں مگر سرمایہ درویش حقیقی معنوں میں عصر حاضر کے اس عظیم درویش کا سرمایہ ہے جو انہوں نے فیض عام کی صورت میں تبدیل کردیا ہے۔سرمایہ درویش عاملین کاملین‘فقیروں درویشوں ‘قلندروں‘حکیموں کے مجربات اور ایک درویش خدامست کے ذاتی ‘خاندانی مخفی رازوں پر مشتمل لاجواب و بے مثال اسلامی روحانی مجرب اور جامع ترین اعمال و وظائف کا انسائیکلوپیڈیا ہے جو کہ 61ابواب پر مشتمل ہے ‘سرمایہ درویش بلاشبہ علم کے متلاشیوں کیلئے ایک سمندر ہے‘کتاب میں اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام سے ہربیماری کا علاج اور ہر کام کیلئے اﷲ تعالیٰ کے ناموں کا ذکر ‘تسبیحات اور قرآن مجید کی رہنمائی و آیات سے ہر مشکل کا حل بھی درج ہے‘ کتاب کا انتساب پڑھ کر ہی ایمان تازہ ہوجاتا ہے‘ملاحظہ فرمائیں ’’غار ثور میں مکڑی کے جالوں سے سرکتی ہوئی ان ہواؤں کے نام جو رخ روشن کا دیدار اور چومنے کیلئے بیتاب و بیقرار اپنے مکین کے مختصر قیام کی حسین یادوں کی وارث ہیں‘‘۔

عصر حاضر کے معروف روحانی و جسمانی معالج اور معروف صوفی سکالر پروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب نے رموز روحانیت پر کمال مہارت حاصل کرکے ان علوم کو بھی روحانیت کے طالبعلموں کیلئے جاری کیا اور ان علوم کوبھی کتابی شکل عطا کی ‘پروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب کی تصانیف میں’’اسرار روحانیت‘ ’’فکر درویش‘‘ ’’سرمایہ درویش‘‘ ’’بزم درویش‘‘ ’’ثمرات اسم اعظم‘‘ودیگر کئی کتابیں شامل ہیں جو چند مہینوں میں ہی اتنی مقبول اور زبان زدخلائق ہو چکی ہیں کہ ارباب علم و فن اور متلاشیان حق کیلئے اب کسی خاص تعارف کی ضرورت نہیں ہے ‘ ’’اسرار روحانیت‘‘ کو جو شہرت و مقبولیت اﷲ تعالی نے عطا کی کسی اور کتاب کو یہ اعزاز نہیں ملا جس نے بھی مذکورہ کتاب کو پڑھا اس کے سحر میں مبتلا ہوگیا‘کتاب میں روحانیت اورتصوف کی پوری تفصیل موجودہے ‘مختلف روحانی سلسلوں کی تفصیل‘پہلی صدی سے ہر صدی کے بزرگوں کے حالات اور روحانیت کے وہ تمام شارٹ کٹس جن پر عمل پیرا ہو کر روحانی مسافر اپنی منزل مقصود کو پا سکتے ہیں جبکہ ’’فکردرویش ‘‘میں راہ سلوک کے مسافر عارف باﷲ پروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب کا حصول قرب الٰہی پر فکرانگیز اور سوز بیاں ایک مرد درویش کے دریچہ فکر سے نامعلوم سے معلوم کی سمت جانے کی جاں سوز و دل گداز گفتگو اور مجاز سے حقیقت تک رسائی پانے والے ایک درویش کی آشفتہ بیانی ‘تصوف کے رموز و اسرار ‘صوفی کا مجاہدہ ‘مشاہدہ اور کمالات پر مبنی پر از حقائق تجربات‘ان روحانی معارف کا بیان جو آج تک عوام الناس کی نظروں سے اوجھل تھے بیاں ہیں۔بلاشبہ پروفیسر عبداﷲ بھٹی صاحب کی تصانیف متلاشیان علم کیلئے بحرعلم اور اس قوم کیلئے صدقہ جاریہ ہیں ۔
MUHAMMAD ATHER KHURRAM
About the Author: MUHAMMAD ATHER KHURRAM Read More Articles by MUHAMMAD ATHER KHURRAM: 2 Articles with 2828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.