اپنا گھر ، اپنی سر زمین اور
اپنے آبا و اجداد کی نشانیاں چٔھوڑنے کا دکھ ایک مہاجر ہی جان سکتا ہے ۔
مہاجر جب اپنا سب کچھ چھوڑ کر بے سرو سامان انجانی جگہ پر روانہ ہوتا ہے تو
اس کے سامنے سمندر سے بھی گہرے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔خاص طور پر جب اپنے ہی
ملک میں کوئی گھر سے بے گھر ہوکر دربدر ہوتا ہے تو ان کی کسمپرسی کا اندازہ
لگانا بھی انتہائی مشکل کام ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے ایک رپورٹ گزشتہ
دنوں جاری کی تھی جس کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ سال پانچ کروڑ افراد کو
جبری طور پر نقل مکانی کرنا پڑی جو کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے ہونے والی
سب سے بڑی تعداد ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پانچ کروڑ میں سے ایک کروڑ
۶۷ لاکھ افراد کو جبری طور پر اپنا ملک چھوڑنا پڑا جبکہ تین کروڑ ۳۳ لاکھ
اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوئے ، انھیں آئی ڈی پیز کہا جاتا ہے۔
سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان بحرانوں کی سب سے اہم وجوہات ملکی داخلی
تنازعات ہیں جن کے سبب بے گھر افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ انٹونیو گوٹریس کا کہنا ہے کہ ان تمام تنازعات
نے امدادی اداروں کیلئے نہ صرف ڈرامائی صورتحال پیدا کردی ہے بلکہ یہ آج
عالمی امن اور سلامتی کیلئے بھی ایک بڑے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں ، ایک ایسا
خطرہ جو ہر جگہ محسوس کیا گیا۔لہذا مہاجرین کے ساتھ اظہار یکجہتی صرف
ہمدردی کامعاملہ نہیں بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ خود آگاہی کا معاملہ ہے۔ یو
این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ملک شام کے ۷۲ لاکھ
جبکہ فلسطین مہاجرین کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی زیادہ ہے ، جو اسرائیلی
جارحیت کے سبب اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ شام وفلسطین کے بعد
افغانستان ہے ، جسکے ۲۷ لاکھ سے زائد افراد مہاجرین بننے پر مجبور ، ۱۵
لاکھ سے زائد مہاجرین کیساتھ عراق جبکہ صومالیہ گیارہ لاکھ مہاجرین کے ساتھ
اس المیے میں شامل ہے۔
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ مہاجروں کو پناہ دینے والا ملک ہے ، پاکستان
میں اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد پناہ لئے ہوئے ہیں۔عالمی ادارے کی رپورٹ کے
مطابق گزشتہ سال سب سے زیادہ نقل مکانی شام کی جنگ کی وجہ سے ہوئی جہاں
تقریبا ۲۵ لاکھ افراد بیرون ممالک پناہ حاصل کرنے پر مجبورہوئے جبکہ ۵۶
لاکھ افراد کو اندرون ملک ہی نقل مکانی کرنا پڑی۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ
ان مہاجرین میں نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد میں پچاس فیصد سے
زاید بچے شامل ہیں۔
اس ضمن میں اعداد و شمار کے حوالے سے بڑی لمبی چوڑی فہرست ہے ، جیسے نقل
کرتے کرتے صفحات کم پڑ جائیں ۔ ان دنوں پاکستان کے شمالی علاقے وزیرستان
میں غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب بڑی شد ومد کے ساتھ
جاری ہے۔لیکن اس سلسلے میں ایک نہایت افسوس ناک پہلو جو سامنے آیا ہے ،وہ
یہ ہے کہ پاک فوج کو ایک طرف جنگی صورتحال کا بھی سامنا ہے تو دوسری جانب
دس لاکھ آئی ڈی پیز ، جن کی متوقع تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے، اس جنگ سے
براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اوران کی بحالی کا بھی سامنا ہے ۔پاکستانی قوم
میں ماضی کے مقابلے میں ویسا جذبہ نظر نہیں آرہا کہ وہ بڑھ چڑھ کر ان
متاثرین کی امداد کیلئے حصہ لیتے تھے، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے متاثرینِ
جنگ کو بھی طالبان عسکریت پسند سمجھ کر برتاؤ کیاجارہا ہے اور انھیں بھرپور
طریقے کیساتھ بنوں اور اسکے قرب و جوار میں محبوس رکھنے کی کوشش کی جارہی
ہے تاکہ یہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں نہ پھیلیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے
کسی ذاتی ایجنڈے کے تحت اپنی مرضی سے بے گھر نہیں ہوئے ہیں بلکہ عالمی سطح
پر نظر دوڑائیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ پانچ کروڑ مہاجرین کی اپنے
گھروں سے جبری بے دخلی میں امریکی اور اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی فوجی
جارحیت کاہاتھ ہے۔ فلسطین میں پچاس لاکھ سے بھی زیادہ مہاجرین ، امریکہ کی
معاشی شہ رگ اسرائیل کی من مانی اور بربریت کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑنے میں
مجبور ہوئے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ اگر اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرتا اور
صہیونی ایجنڈے کو کامیاب نہ بناتا تو مشرق وسطی کا یہ خطہ امن کی سرزمین ہی
رہتا ، لیکن امریکی جارحیت نے عراق کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیا اور جبری
جنگ مسلط کرنے کے سبب عراق تاراج ہوا ، بلکہ اب امریکہ ، برطانیہ پالیسیوں
کی سبب ، عراق تقسیم کی راہ پرگامزن اور امریکہ کی پھٹو مالکی حکومت نے
فرقہ وارنہ کشیدگی میں مسلمانوں کا جینا حرام کرکے لاکھوں انسانوں کی
زندگیوں کو نہ صرف خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ اس فرقہ وارنہ جنگ کا دائرہ ،
شام سے بڑھاتے ہوئے عرب کے دیگر ممالک کی جانب بھی موڑ دیا ہے، امریکی
پالیسوں کی سبب ہی شام میں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی اور گذشتہ سال ۷۲ لاکھ
افراد کی ہجرت کا سبب بنا -
کچھ اور آگے بڑھیں تو افغانستان کی عبرت ناک مثال ہمارے سامنے ہے کہ سرد
جنگ میں پہلے افغان ، روس کے نتیجے میں لاکھوں افغانی مسلمانوں کو ہجرت
کرنا پڑی تو ملکی خارجہ پالیسی نے جلتی پر تیلی کا کام کیا اور افغانستان
کی امریکی جنگ کو پاکستان نے اپنی جنگ بنا لیا اور پرائی جنگ میں اپنے گھر
کو آگ میں جھلسا دیا۔
پاکستان ، جسے مسلم ممالک کی سرپرستی اور سربراہی کرنا تھی ، اس جنگ میں اس
قدر مصروف ہوگیا کہ ایسے اپنے ہی علاقوں میں حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے جنگ
لڑنا پڑرہی ہے، پہلے جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات ، پھر سوات میں
آپریشن راہ راست اور اب شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج کے
جوان قربانیوں کی مثال قائم کر رہی ہیں۔ہمیں زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں
، بلکہ سادہ رائے یہی ہے کہ امریکہ ، بر طانیہ کے گٹھ جوڑ سے عالمی امن
خطرے میں پڑا ہے۔امریکہ اور برطانیہ نے صرف صلیبی جنگوں کا انتقام لینے
کیلئے مسلمانوں کے درمیان نا اتفاقی کا فائدہ اٹھا کر مسلم امہ کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا جس کا سلسلہ جاری ہے۔
عالمی دہشت گردی کے اس ایجنڈے میں شمالی وزیرستان کی عوام کا قصور نہیں ہے
کہ اسے چند گروپوں نے اس طرح یرغمال بنالیا کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوا کہ
وہ پاکستان کی عملداری میں رہتے ہیں۔عسکریت پسندوں کو کرپٹ اہلکاروں نے
کھلی چھوٹ دی ، جس کے سبب وزیرستان کے گنجلگ و گنجان علاقوں میں ملک بھر
میں انتہا پسندی کی منصوبہ بندیاں کیں جاتیں رہیں اور انھیں روکنے والا
کوئی بھی نظر نہیں آتا تھا کہ وہ پاکستانی قانون کے تحت پابند ہیں۔
ان علاقوں میں آج بھی قبائلی روایات کے مطابق قانون چلتا ہے اور1848ء سے
نافذ ایف سی آر جیسے کالے قوانین نے ان قبائل کو پاکستان کے آئین سے کوسوں
دور رکھا ہوا ہے۔ برطانیہ کا بنایا ہوا ایف سی آر کے قوانین کے تحت ہی
فیصلے کئے جاتے ہیں ، وہاں کی اکثریت کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ
پاکستان حدود میں رہتے ہیں یا افغانستان کی ، ان کے نزدیک پاک ، افغان
سرحدوں کاکوئی تصور نہیں تھا ، اس کے علاوہ اگر یہ کہا جائے کہ سابقہ
حکومتوں نے ان علاقوں کو اپنی خارجی پالیسی کے تحت استعمال کیا توغلط نہ
ہوگا۔پاکستان کے قیام کے بعد ان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت نہ ہوسکی اور
ایک لسانی مسئلے سے جنم لینے والے بحران نے دو قومی نظریہ پر اعتماد کو
متزلزل کردیا۔ملک آزادہوا نہیں تھا کہ گندم کے عوض امریکہ کا غلام بن گیا
اور سات سمندر پار غیر فطری حلیف کی وجہ سے پاکستان ، دنیا میں اپنے مفادات
کے بجائے غیروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے قربانی کا بکرا بنتا چلا گیا۔
آج پاکستان پھر نظریاتی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ ملک کی سیاسی
جماعتوں نے ماضی کی طرح پھر آنکھیں موند لیں ہیں ، کوئی ذاتی اقتدار کیلئے
سونامی لانے کا متمنی ہے تو کوئی کینڈا برانڈ انقلاب لیکر آیا ہے ، کوئی
جشن آزادی منانا چاہتا ہے تو اس لئے کہ کوئی لانگ مارچ نہ کرسکے ، تو کہیں
، نام نہاد قوم پرستوں نے علیحدگی کے نعرے اور منصوبے تیار رکھے ہوئے
ہیں۔دہشت گردوں نے کراچی کو یرغمال بناکر پورے ملک کی معاشی شہ رگ کو دبا
رکھا ہے تو دوسری جانب افغانستان ، ماضی کی پاکستان کی خارجہ پالیسوں کا
بدلہ لینے کیلئے شمالی وزیرستان آپریشن کو ناکام بنانے کیلئے تلا ہوا ہے۔
ذرا آپ اور ہم بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ۔ کیا
ہمارا بھی وہی رویہ نہیں جو دشمنان پاکستان کا ہے؟؟۔ |