دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن
آپریشن ہر پاکستانی کے دل کی آواز تھی جسے افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان
میں ضرب عضب کے نام سے شروع کردیا ہے۔ پاکستانی قوم گزشتہ بارہ سال سے دہشت
گردی کی نہ تھمنے والے طوفان کی زد میں ہیں۔ اس کی سرکش موجوں نے ملک کے
کونے کونے میں تباہی و بربادی کی انتہاء کردی ۔ آئے روز پاک افواج پر حملے
کئے گئے۔ بھرے بازاروں میں عام شہریوں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں،
نشانہ بنایا گیا۔سرکاری و نجی املاک تباہ و برباد ہوگئیں۔ترقی کا پہیہ رک
گیا۔ معیشت نیم دیوالیہ ہوگئی اورعالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید
نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے بہت سے علاقوں میں سول انتظامیہ
دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہوگئی۔ یہ علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گئے۔
انہوں نے اپنے زیر تسلط علاقوں کو بیس کیمپ بنا کر ایک طرف مقامی آبادی پر
ظلم وستم کی انتہاء کردی تو دوسری طرف ملک کے دوسرے حصوں تک اپنی مذموم
سرگرمیاں پھیلانے کا اعلان کردیا۔ افواج پاکستان نے ضرب عضب سے قبل بھی
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کئے لیکن انہیں جو کامیابیاں ملتی رہیں انہیں
سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر مستقل بنیادوں پر قائم نہ رکھا جاسکا۔ پاکستان
میں نئی سیاسی قیادت کو بھی دہشت گردوں نے یرغمال بنانے کی کوشش کی۔ انہوں
نے اس پر دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف شہروں میں حملے کرکے ان کی ذمہ داری
قبول کی ۔دہشت گردوں کی ان تمام کارروائیوں کے باوجودنئی حکومت نے انہیں
مذاکرات کا موقع دینے کااعلان کیا۔ اس دوران گو کہ دہشت گردوں نے زبانی طور
پر اپنی کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا تاہم عملی طور پرایسانہ ہوسکا۔
اسلام آباد کچہری، راولپنڈی آر اے بازار، اسلام آباد سبزی منڈی، ترنول کے
قریب افواج پاکستان کے دوسینئر افسروں پر حملہ اورکراچی ائر پورٹ پر دہشت
گردی کے واقعات کے بعد حکومت نے مذاکرات ختم کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف
بالآخر فیصلہ کن کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔
’ضرب عضب‘ دہشت گردوں کے خلاف صرف افواج کا نہیں، پوری قوم کافیصلہ کن
آپریشن ہے جو اس وقت کامیابی سے جاری ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل
شریف کے مطابق دہشت گردوں کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ آپریشن کے آغاز
پر وزیر اعظم نواز شریف نے بھی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ضرب
عضب دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گا۔ اس طرح آپریشن کا واضح ہدف
پاکستان سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہے اور قوم پرامید ہے کہ گزشتہ بارہ
سال سے جس عفریت نے اسے بری طرح سے جکڑ رکھا ہے ، بالآخر اس سے نجات ملنے
والی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاک فوج کو بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئی
ہیں اور طے شدہ منصوبے کے مطابق وہ اپنے اہداف حاصل کرتی جارہی ہیں۔آپریشن
کے پہلے مرحلے میں دہشت گردوں کو علاقے سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ ان کے
کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ فورسز کی کارروائی کے دوران
اب تک چارسو کے قریب دہشت گرد مارے جبکہ ان کے بہت سے ٹھکانے اور اسلحہ
خانے تباہ کئے جاچکے ہیں۔ میران شاہ میں زمینی کارروائی کے دوران بم بنانے
کی بہت بڑی فیکٹری بھی پکڑی گئی ہے جہاں سے بارود سے بھرے سینکڑوں سلنڈر،
بارودی مواد ، بموں میں بلٹ، نٹ اور ان سیلنڈروں کو باردی مواد بھرنے کے
بعد سیل کرنے کے لیے ویلڈنگ کا سامان بھی برآمد کیا گیا ہے۔
آپریشن میں حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں جبکہ دیگرتمام سیاسی جماعتیں
اور حلقے بھی اس حوالے سے متفق ہیں۔ عوام اور میڈیا میں بھی اس حوالے سے
کافی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواج
پاکستان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ ضرب عضب آپریشن کے حتمی اہداف میں
دہشت گردوں کو کچل کر ان علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم کرنا ، دہشت گردوں کے
ٹھکانوں کو مکمل طور پر تباہ کرنا، ہتھیار نہ پھینکنے والے دہشت گردوں کا
خاتمہ اور فاٹا اور ملحقہ علاقوں میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کرنا شامل
ہیں۔ افواج پاکستان نے آپریشن سے قبل تمام علاقے کو سیل کردیا تھا خاص طور
پر افغان سرحد پر نگرانی سخت کردی گئی تھی اور اس حوالے سے افغان حکومت اور
نیٹو کو بھی کڑی نگرانی کے لیے کہا گیا تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا
ہے کہ افغان حکومت نہ نیٹونے پاکستان کے ان مطالبات کو سنجیدگی سے لیا۔ جس
کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد افغانستان محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لینے میں
کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے پاکستان سرحد پر حملے بھی
جاری ہیں۔ افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں نے ایسا ہی ایک حملہ باجوڑ
ایجنسی کے قریب پاکستانی چوکی پر کیا جس سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت تین
فوجی شہید ہوگئے۔ دہشت گردوں کا مسلح ہوکر بلاروک ٹوک افغان سرحد پارکرکے
پاکستانی پوسٹوں پر حملہ کرنا اس بات کی طرف استدلال کرتا ہے کہ دہشت گردوں
کو کابل انتظامیہ کی آشیر باد حاصل ہے اور وہ آپریشن ضرب عضب میں رکاوٹ
ڈالنے کی متمنی ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان نے کابل پر واضح کیا تھا کہ
مولوی فضل اﷲ سمیت بہت سے دہشت گرد افغان صوبے کنٹر اور نورستان میں پناہ
گزیں ہیں جنہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ کابل کی جانب سے فضل اﷲ کی
موجودگی کی تردید کی گئی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے
کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے کے بعد کابل
کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ضرب عضب کے دوران سب سے زیادہ قربانی نقل مکانی کرنے والے افراد نے دی ہے۔
شدید گرمی اور ماہ رمضان میں ان کا صبر و تحمل دیدنی ہے۔ آپریشن کے دائرہ
کار اور اختتام کی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی تاہم جس طرح افواج پاکستان
کامیابی سے بھرپور آپریشن کررہی ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
نقل مکانی کرنے والے افراد بہت جلد اپنے علاقوں میں جاسکیں گے۔ اس وقت آئی
ڈی پیز کی تعداد آٹھ سے نو لاکھ کے قریب ہے جن کی دیکھ بھال ایک کٹھن مرحلہ
ہے۔ جہاں ایک طرف یہ نقل مکانی کرنے والے افراد کا امتحان ہے تو دوسری طرف
حکومت اور افواج کے لیے بھی یہ ایک کڑی آزمائش سے کم نہیں۔افواج پاکستان کے
ساتھ ساتھ حکومت اور ملک کے عوام نے اس سلسلے میں جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا
ہے وہ بھی مثالی ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں نے ملک و قوم کے بقاء کی خاطر
نامساعد حالات میں ہجرت کی ہے ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے اور جہاں تک ہوسکے
پاک فوج کی حوصلہ افزائی اورنقل مکانی کرنے والے افراد کی مدد کرنی چاہئے۔
آزمائش میں ہی اپنے اورپرائے کی پہچان ہوتی ہے۔ آئی ڈی پیز کی خدمت کرکے
انہیں بتا دیجئے کہ پاکستان قوم یکجا ہے اور ان کی تکلیف اور دکھ دراصل ہر
پاکستانی کی تکلیف اوردکھ ہے۔ |