جس طرح حکومت نے عوام کو نظر
انداز کررکھا ہے بلکل اسی طرح حکومت کے ملازمین نے حکومت کو نظرانداز
کررکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غربت،مہنگائی ،بے روزگاری سمیت بڑھتی
ہوئی لوڈ شیڈنگ سمیت عوام کا کوئی بھی مسئلہ حل نہ ہوسکا اگر حکومت کے اپنے
تعینات کیے ہوئے افسران حکومتی احکامات کو جوتے کی نوک پر نہ رکھتے تو آج
پاکستان کی تقدیر بدل چکی ہوتی کیونکہ وزیر اعلی پنجاب جس طرح محنت کررہے
ہیں اور خاص کر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تقریروں سے جس طرح عوام کا دکھ
جھلکتا ہے اگر انکی ٹیم حکومت کا ساتھ دیتی تو آج لوڈ شیڈنگ سمیت ہر بحران
کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا مگر بدقسمتی سے میاں نواز شریف اور میاں
شہبازشریف نے جن افسران کو اپنا مخلص اور ہمدرد سمجھ کر اعلی عہدوں پر
تعینات کیا وہی افسران حکومت کی ناکامی کا بعث بن رہے ہیں اگرمسلم لیگ ن کی
حکومت ان سرکاری بابوؤں کو میرٹ پر عہدے دیتی اور پارٹی سے مخلص پڑھے لکھے
ورکروں کو مناسب ذمہ داریاں سے نوازتی تو آج ملک کی جو صورتحال ہے وہ نہ
ہوتی ہوسکتا تھا کہ آج جن بحرانوں میں حکومت گھری ہوئی ہے اور جو مسائل
آئندہ چند روز میں پیش آنے والے ہیں یہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوتے مگر مسلم
لیگ ن کی حکومت کی شروع دن سے ہی بدنصیبی رہی ہے کہ میاں برادران نے جن
سرکاری ملازمین کو نوازا وہی انکی بدنامی کا باعث بنے پرویز مشرف کو میرٹ
سے ہٹ کر ترقی دی اور آخر کار پرویز مشرف نے ہی انکی حکومت کا تختہ الٹ دیا
اسی طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب اور جہاں مسلم لیگ ن نے میرٹ سے
ہٹ کر کسی کو نواز آخر کار اسی نے ہی انہیں نقصان پہنچایااب ہمیں پچھلے دور
حکومت کو کریدنے کی ضرورت نہیں کہ میاں نواز شریف کے پچھلے دونوں ادوار میں
انہیں کس طرح اپنوں نے ہی دھوکہ دیا ابھی آپ یہ گذرنے والے منگل کے روز
ہونے والی افطار پارٹی کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح صوبائی وزیر قانون رانا
مشہود ،صوبائی سیکریٹری اطلاعات مومن علی آغا ،ڈائریکٹر جنرل سپورٹس اور
ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز اطہر علی خان نے کیسے اپنے محسنوں کے احکامات
کو جوتے کی نوک پر رکھ کر انکا مذاق اڑایا مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ انکے
پاس اپنی صفائی کے لیے بہت کچھ ہوگا مگر صفائی وہاں کیا کریگی جہاں غلط
بیانی ہو امیرا مقصد افطار پارٹی کروانے پر تنقید کرنا نہیں بلکہ مقصد یہاں
پر یہ بتانا ہے کہ صوبے کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے سرکاری خرچ
پرپنجاب بھر میں افطار پارٹیاں کروانے پر سختی سے پابندی لگا رکھی ہے مسلم
لیگ ن جسکے قائد وزیر اعظم میاں نواز شریف ہیں انہوں نے بھی ملک بھر میں
سرکاری خرچ پر افطار پارٹیوں پر پابندی لگا رکھی ہے مگر پنجاب میں وزیر
اعلی میاں شہبازشریف کے چہتے وزیر اور افسران نے سرکاری خرچ پر ایک اچھے
اور مہنگے کلب میں صحافیوں کو افطار ڈنر کروادیا ہاں اگر وزیر موصوف اور
دیگر سرکاری عہدے دار اپنی جیب سے اپنے صحافی دوستوں کو ایک افطاری
کروادیتے تو کیا حرج تھا اور اس سے انکی کارکردگی کا بھی خادم اعلی کو
اندازہ ہوجاتا کہ واقعی میرے افسران بہت کام کررہے ہیں کیونکہ آئندہ چند
روز میں عمران خان اور نواز شریف کی ٹیموں کے درمیان میچ جو ہونے والاہے یہ
تو تھا پنجاب میں وزیر اعلی کی ٹیم کا حال جو اپنے محسن اور لیڈر کے
احکامات کی کوئی پراہ نہیں کرتے اب زرا میاں نواز شریف کے دست راست اور
وفاقی وزیر پانی بجلی کا حال بھی دیکھ لیں کہ کس طرح اب وہ منت سماجت پر
آچکے ہیں اور عوام سے کہہ رہے ہیں کہ بجلی پوری نہیں ہوسکتی اس لیے پوری
قوم دعا کرے کہ بارش ہوجائے اور گرمی کے روزے سکون سے گذر جائیں خود تو
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور عوام روزے میں پسینے سے شرابور ہورہی
ہے جب مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایسے وزیر اور سرکاری ملازمین ہو تو پھر کسی
اپوزیشن اور مخالف جماعتوں کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ بظاہر یہ لوگ حکومت
کے خیر خواہ ہی نظر آتے ہیں مگر اندر سے یا انجانے میں ان سے ایسی کاروائی
سرزد ہوتی رہتی ہیں جن سے حکومت کی کارکردگی ہمیشہ صفر رہتی ہے اور اگر
اپوزیشن بھی تگڑی قسم کی ہو تو پھر حکمران اپنا وقت مشکل سے ہی گذارتے ہیں
جب ایسے بندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اعلی عہدوں پر لگایا جائے گا تو پھر یہی
حشر ہو گا جو اب ہو رہا ہے کہ پنجاب کے وزیر اور سرکاری ملازم خود حکومتی
احکامات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور پانی بجلی کے وزیر لوڈ شیڈنگ سے نجات کا
حل دعاؤں کی صورت میں ہونی والی بارشوں میں ڈھونڈ رہے ہیں کیا عوام نے ان
حکمرانوں کو دعاؤں کے زریعے مسائل حل کروانے کے لیے ووٹ دیکر حق حکمرانی
بخشا تھااگر ایسی بات تھی تو اس کے لیے ہماری مذہبی جماعتوں میں بڑے بڑے
علماء کرام موجودہیں جو دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی کرتے ہیں۔ |