فکرِ غالب
(Muhammad Abu Zar Mehdi, Lahore)
زندہ قوموں کا المیہ ہے کہ وہ
اپنی ادبی میر اث کا جائزہ لینا ضروری سمجھتی ہیں ۔اس جائزے سے انہیں دو
طرح کافا ئدہ ہوتا ہے۔ایک تو وہ اپنی روایات کی حرارت کو جذب کرتی رہی ہیں
جس سے ان کی قومی شخصیت استواری حاصل کرتی رہی ہے ۔اور دوسرااپنے سامنے
روشنی کے کئی مینار دیکھتی رہتی ہیں جنہوں نے انہیں شاہراہ حیات سے ہٹنے
نہیں دیا۔ ہزار ظلمتوں میں گرجانے کے باوجودبھی وہ ان مینار وں کی روشنی
میں صراطِ مستقیم پرقائم رہی ہیں۔ حقیقت کی جستجوکامتلاشی ہرذی شعور ہوتا
ہے جو با لخصوص انسان کامحبوب ترین مقصودِحیات ہے۔ زندگی اپنی بالیدگی ا ور
تکمیل کا سامان اس طرح کرتی ہے کہ انسان حقیقت کے چہرے سے نقاب اٹھائے ا ور
اپنے مشاہدہ وتجربہ کوبڑھا کراس حد تک پہنچ جائے کہ جہاں سے و سیع ترزندگی
کے ا مکانات کا پتہ لگایاجاسکے۔ تاریخ نے حقیقت کی جستجوکے چار طریقے
متعارف کروائے ہیں۔
پیغمبرانہ ، فلسفیانہ، فنکارانہ اور جدیدسائنس کا طریقہ۔پیغمبر کی شمعِ راہ
اس کی روحانیت ہوتی ہے فلسفی کا ذہن تحیرآشنااور شاعرکا احساس
پرورتخیل۔تینوں اپنی اپنی شمع کی روشنی میں حقیقت کی تاریک منزلوں میں سفر
طے کرتے ہیں اور مقامِ حیات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مالکِ لم یزل
کی کائناتِ لامحدودمیں ایسی شخصیات نے جنم لیا ہے جواپنے لئے کسی مخصوص
راستے کی پابندی کولازمی نہیں سمجھتے بلکہ حقیقت تک کی رسائی ان کا
مقصدِحیات ہوتا ہے جس کے لئے ہر وسیلہ استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ایسے ذہن کے
مالک کو مفکر کہتے ہیں ۔مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں راہِ حقیقت کے پہلے
تین مسافر قطعِ منازل کے لئے اپنے زادِراہ اور اپنی خاص مشعل کا سہارا لیتے
ہیں وہاں مفکر ہر کونے سے زادِراہ اور مشعل سے روشنی حاصل کرلیتا ہے۔اسے اس
امر سے غرض نہیں کہ وہ حقیقت تک کیسے اور کیونکر پہنچے ،اس کا مقصد وہاں تک
رسائی ہے۔وہ وسائل کی جانچ پڑتال توضرور کرتا ہے مگر ان میں امتیازنہیں
کرتا کیونکہ اس کے نزدیک وسائل کا وجود ہی منتہائے منزل کے لئے ہے۔
مرزااسداﷲخاں غالب کا تعلق انسان کے اسی گروہ سے ہے۔وہ روحانیت کا قائل ہی
نہیں اس کے تمام تصرفات پہ ایمان رکھتا ہے۔وہ ذہن تحیرآشنا کو ایک محشرستان
تصور کرتا ہے مگر اس کی حقیقت سے کبھی انکار نہیں کرتا۔وہ احساس پرورکو بیک
وقت ایک ایسی آگ سمجھتاہے جو اسے ہر آن جلاتی رہتی ہے۔اور ایک ایسا بالِ
ہما جو ا سے وجودوعدم کی سیر کراتا رہتا ہے ا ور وہ جدیدسائنس کی مایہء ناز
قوتِ مشاہدہ کوکوستابھی ہے ا ور سراہتا بھی۔کوستا اس لئے کہ وہ اسے خونِ
جگر پینے پرمجبور کرتی ہے اور سراہتا اس لئے ہے کہ اس کی اپنی نگہ ِگرم اسی
کی عطاکردہ ہے۔بہرحال غالب ایک زندہ دل مفکر ہے اس کے فن کی بنیاد خردِتخیل
پر ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خداکیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں ؟ غمزہ وعشوہ واداکیاہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟ نگہِ چشمِ سرمہ ساکیا ہے؟
سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں ؟ ابر کیا چیزہے؟ہواکیا ہے؟
یہاں دیکھیں ایک مفکر ہی نہیں بلکہ کوئی فن کا رمفکر بول رہا ہے۔وہ ہستیِ
مطلق کو حسنِ ازل سمجھتا ہے اور اس حسن ِکامل کی موجودگی میں کسی پری چہرہ
اس کے غمزہ وعشوہ وادااس کی زلف ِعنبریں اور اس کی نگہِ چشمِ سرمہ ساکو بے
معنی خیال کرتا ہے کہیں چوتھے شعر میں سبزہ وگل کا ذکر آیا ہے اور حسن کے
علاوہ کائنات کے دیگر مظاہرِ حیات ’ابر‘ اور’ہوا‘کی ماہیت کے متعلق دریافت
شروع ہوئی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک فنکار مفکر کا انداز ِ فکرو نظر کیا ہوتا ہے اور
وہ محض مفکر کے اندازِنظر سے کیونکر مختلف ہوتا ہے۔
’’جب کہ تجھ بن کوئی نہیں موجود ‘‘ سے واضح ہے کہ غالب وحدت الوجودکا قائل
ہے۔اور اس کے اندر روحانیت اوریقین کا بھی فقدان نہیں اس ذاتِ مطلق سے
براہِ راست ہم کلام ہونے کا مطلب اس ذات کوپوری کائنات میں جاری و ساری
ماننے کے مترادف ہے۔محدود سائل ایک مفکر کے افکار میں رکاوٹ نہیں بن سکتے
اور محدود سوچ کا حامل انسان مفکر نہیں بن سکتا۔غالب اپنے محدود وسائل سے
ہٹ کر اپنے اعضاء کا پوراپورااستعمال کرتا ہے اور اپنی سوچ اور اپنے تخیل
میں ایک جدت پیدا کرتا ہے ۔وہ فنا کا قائل ہی نہیں ہے وہ اپنے وجود کو
برقرار رکھنے کی پوری تگ ودوکرتا ہے۔مفکر کسی چیزکا صرف مطالعہ ہی نہیں
کرتا بلکہ اس چیز کی گہرائی تک جاتا ہے۔مندرجہ بالااشعار میں غالب خدا ئے
برحق سے ہم کلام ہے یہاں غالب کا تفکراپنی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
محمدموسی خان کلیم نے غالب کے تفکر کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے۔۔۔۔
’’غالب کے نظریہء وحدت الوجوداورعام صوفیوں کے نظریے میں بڑا فرق ہے اور اس
فرق کی بنیادی وجہ اس کا بے پناہ ذوقِ ہستی ہے۔اپنی ’’ اناء‘‘ کو برقرار
رکھنے کا شوق غالب کو اس امر پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو
دوحصوں میں تقسیم کرے۔وہ عالم ِانفس میں اپنی فوقیت محسوس کرتا ہے ۔اس لئے
اپنی اناء کو آزادانہ قائم رکھتا ہے اور کسی سہارے کی تلاش نہیں کرتا۔جب وہ
عالمِ آفاق میں پہنچتا ہے تو اس فوقیت کا احساس ہوتا د کھائی دیتا
ہے۔چنانچہ شاعر شعوری یا غیر شعوری طور پراپنے سے قوی تر ہستی کے ساتھ تعلق
جوڑلیتا ہے اور اس میں جذب ہو کر فنا سے بچنے کی صورت قبول کر لیتا ہے۔اسی
مصلحت((reconciliationکو اس طرح بیان کرتا ہے۔
اے اہلِ نظر کون سنے طعنہ ء نایافت دیکھا کہ وہ ملتانہیں اپنے ہی
کوکھوآئے!‘‘
(جاری ہے) |
|