آپریشن ضربِ عضب اور چھابے

ابھی میں نے کالم کا عنوان ہی لکھا تھا کہ میرے موبائل پہ کسی میسیج کے آنے کی اطلاعی گھنٹی بجی۔لکھنا چھوڑ کے میسیج پڑھا تو بھائی نیاز نے ایک لطیفہ بھیجا تھا۔ پرانا لیکن حسبِ حال ہے آپ بھی سنئیے۔جج ملزم سے،دس سال تک تم نے اپنی بیوی کو ڈرا کر دھمکا کر اور خوفزدہ کر کے اپنے قابو میں رکھا۔ملزم لیکن جناب وہ۔۔۔جج بات کاٹتے ہوئے ۔۔۔صفائی نہیں طریقہ بتاؤ طریقہ۔۔۔آپریشن ضربِ عضب وزیرستان میں ہو رہا ہے۔فوج کر رہی ہے حکومت کروا رہی ہے ۔ملک دشمن مارے جا رہے ہیں ۔محب وطن ہجرت کی آزمائش سے دو چار ہیں۔ملک کے مخیر حضرات ان کی دلاداری اور دل جوئی میں مصروف ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اس آپریشن کی آڑ میں اپنے اپنے چھابے کھول کے بیٹھ گئے ہیں۔ضرب عضب کی آڑ میں وہ اپنا منجن بھی کہیں درمیان ہی میں بیچنا چاہتے ہیں۔یہ کون لوگ ہیں آئیے ذرا ان کی بھی خبر لیتے ہیں۔

وہ انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ میں انتہائی ذمہ دار حیثیت کا حامل ہوں جہاں کہیں جو بھی غلطی کرتا ہے مجھے ہی سب لوگ اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ملک میں کہیں کچھ غلط ہو رہا ہو یا نہ بھی ہو رہا ہو بے چاری حکومت اس کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔اس لئے ابتداء حکومت ہی سے کرتے ہیں۔ حکومت سے بھی کیا اس کے نابغہ روزگار وزیر اطلاعات سے جو یقیناََ پچھلے جنم میں پھاپھا کٹنی رہے ہوں گے۔ملک میں فل سکیل بد امنی اور مارا ماری کی تیاریاں ہیں اور موصوف تیل کی اس قلت کے زمانے میں بھی ٹنوں کے حساب سے نہ جانے تیل کہاں سے لاتے ہیں جو اس بدامنی کی آگ پہ پھینک کے اسے اور ہوا دے رہے ہیں۔پہلے وہ انقلابیوں،مارچیوں اور خارجیوں کوآپریشن ضرب عضب کی تڑیاں لگایا کرتے تھے اب ان کے ہاتھ جشنِ آزادی کی تقریبات بھی چڑھ گئی ہیں۔انہیں سامنے رکھ کے بھی وہ اپنی ہانڈی عین ڈی چوک میں پکائے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی قطعاََ فکر نہیں کہ اس سے ان کے مربی ومحسن میاں نواز شریف کے لئے مشکلات کس قدر بڑھ رہی ہیں۔
دریا کو بس اپنی جولانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

پرویز رشید کی لگائی آگ سے کوئی کونہ بچ رہے تو سعد رفیق کسی ریلوے انجن سے کوئی جلی لکڑی نکال کے اس کونے کو بھی آگ لگانے آ وارد ہوتے ہیں۔

کل تک فوج کے سب سے بڑے مخالف اور آج اتنے ہی بڑے حمایتی تیرے بھائی میرے بھائی الطاف بھائی نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا چھابہ کراچی میں لگایا۔جس میں انہوں نے آپریشن ضربِ عضب میں پاک فوج کے ساتھ یکجہتی اور یکسوئی کا اظہار کیا۔اس سے پہلے الطاف بھائی صرف فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اراکین کو بوری بند کرنے میں یکسوئی دکھاتے تھے۔لگتا ہے آخر کار ان دو طوطوں پہ جن میں الطاف بھائی کی جان ہے۔دو حریفوں کے درمیان کچھ پکی قسم کی صلح ہو گئی ہے کہ فوج کی طرف سے لکھنے والے بھی اس اقدام کی بڑے پیمانے پر تحسین کر رہے ہیں۔بہت مدت کے بعد آخر یہ شاہین زیر دام آیا۔خدا لگتی لیکن یہ ہے کہ الطاف بھائی کراچی حیدر آباد اور اندرون سندھ کے اردو بولنے والوں کے ہر دلعزیز لیڈر تو ہیں ۔اگر وہ اپنی مخاصمانہ سیاست چھوڑ کے قومی ملی اور امن کی سیاست کریں تو ملک اور ریاست کو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔اندیشہ صرف یہی ہے کہ مجبوری کے معاہدے زیادہ پائیدار ہوا نہیں کرتے۔

ایک چھابڑی اسی آپریشن کی آڑ میں وہ نادان دوست بھی لگائے ہوئے ہیں جو فوج کو خود سر اور من مانی کرنے والی فوج کے طور پہ پیش کرتے ہیں۔فوج حکومت کا حصہ ہے اور خوبصورتی یہی ہے کہ حکومت کے سب ادارے مل کے کام کریں۔مقننہ اگر انتظامیہ کو یا عدلیہ کو اور یہ ادارے اگر مقننہ کو متحارب سمجھیں گے تو ملک کبھی ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں ہو سکتا۔ یہ جو دانشور روز شام کو ٹی وی چینلز پہ بیٹھ کے فوج اور حکومت کے تعلقات کے اندر سے کچھ مشتبہ چیزیں برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ نہ تو حکومت کے خیر خواہ ہیں نہ فوج کے۔یہ جہاں حکومت کی کمزوری کا تائثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں یہ عوام کی نظروں میں فوج کو نجات دھندہ کے طور پہ نہیں ایک بد معاش کے روپ میں ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔فوج کے ان خود ساختہ ترجمانوں سے بڑھ کے فوج کا اپنا ایک ترجمان ادارہ ہے جسے بات کہنا بھی آتی ہے اور بعض اوقات سمجھانا بھی۔یہ حضرات اس طرح کی درفنطنیاں اڑا کے اپنی قیمت بڑھاتے ہیں اور بس

آپریشن ضربِ عضب کے اس تپتے تنور میں ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو اپنی روٹی بھی لگانا چاہتا ہے۔یہی ادارہ کل تک سر عام فوج کے لتے لے رہا تھا۔آج اسی کے کالم نگار آپریشن ضرب عضب کو آزادی اظہار کے ساتھ جوڑ کے اپنا الو بھی سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔یہ نہیں جانتے کہ جہاں انہوں نے پنگا لے کے اپنا الو ٹیڑھا کیا ہے وہاں دوبارہ سے اس الو کو سیدھا کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اس لئے ان سے درخواست ہے کہ وہ فی الحال اپنے اس الٹے اور ٹیڑھے الو ہی پہ گذارا کریں۔سناتو یہ بھی ہے کہ عنقریب ہی نمرود کی جنت میں کوئی نیا کٹا کھلنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔واﷲ اعلم
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291934 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More