کیا پاکستان میں ہیلتھ انشورنس اسکیم کامیاب ہوگی
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں
میں ہر سال بہت سے مریض صرف غربت کی وجہ سے ہسپتال کا خرچ نہیں اٹھا پاتے
اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس اس کا ایک اچھا علاج
ہے تاہم ترقی پذیر ملکوں میں اب تک عام شہری کی پہنچ اس تک نہیں۔ ہیلتھ
انشورنس کا بنیادی مقصد کم پیسے ادا کرتے ہوئے محدود طبی سہولیات تک رسائی
ہے۔ جرمن انشورنس کمپنی آلیانز کے میتھائیل انتھونی کا کہنا ہے کہ ’’ایک
شخص جس کی آمدنی دو ڈالر یومیہ تک محدود ہو، عمومی طور پر میڈیکل انشورنس
سروس کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہیلتھ انشورنس کی دنیا میں کم آمدنی
والے صارف کی جگہ بن نہیں پاتی۔‘‘
دوسرے انشورنس نظاموں کی طرح مائیکرو ہیلتھ انشورنس کو بھی زیادہ تعداد میں
صارفین کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ اخراجاتی رسک کو کم سے کم ہو۔ دنیا بھر میں
اب انشورنس کے ذریعے طبی سہولتیں حاصل کرنے کا رجحان ہے۔ پاکستان میں میں
ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے ادارے جو اپنے ملازمیں کو طبی سہولتیں دینا
چاہتے ہیں ان کا رضحان بھی ہیلتھ انشورنس کی جانب ہورہا ہے۔ دنیا کی سب سے
بڑی معیشت امریکہ میں گزشتہ برس ایسے افراد کی تعداد 50 ملین کے قریب تھی
جن کے پاس بیماری کی صورت میں علاج کے لیے کوئی ہیلتھ انشورنس نہیں تھی۔ یہ
تعداد سن 2009 کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ایک مطالعے کے دوران ماہرین کو پتہ
یہ چلا کہ وہ مریض جن کے پاس بیماری کی صورت میں علاج کے اخراجات کی
ادائیگی کے لیے بیمے کی سہولت نہیں ہوتی ان میں سے ہر ایک اوسطا صرف 2.8
روز تک کسی نہ کسی ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ ان میں سے زیادہ تر مریض دمے
اور ذیا بیطس جیسی بیماریوں کا شکار تھے ۔امریکی صدر براک اوباما نے ہیلتھ
انشورنس کے لیئے بہت بڑی جنگ لڑی ہے۔ امریکہ میں پاس ہونے والے ’ایفرڈایبل
کیئر ایکٹ‘ کے تحت 80 لاکھ شہریوں نے ہیلتھ انشورنس کی سہولت حاصل کی
ہے۔انتخابی سال کے دوران، ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اس
قانون کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔صدر اوباما پر امید ہیں کہ اس قانون کی
بدولت عام شہریوں کی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔ پاکستان میں بھی
زیراعظم محمد نواز شریف نے غریب ترین افراد کیلئے نیشنل ہیلتھ انشورنس سکیم
کی منظوری دی ہے۔جس میں 10 کروڑ افراد کیلئے مرحلہ وار ہیلتھ انشورنس
پروگرام اجرا کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے نواز شریف نے کسی انشورنس کے ماہر
ایکچوئیری کو اس اسکیم کا سربراہ بنانے کے بجائے مریم نواز کو اسکیم چلانے
کا فریضہ سونپا ہے۔ تخت لاہور کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ کسی بھی اہم منصب کے
لیئے اپنے خاندان کے سوا کہیں نہیں دیکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اہمیت کی
تین بڑی انشورنس کارپوریشن ، اسٹیٹ لائف انشورنس، نیشنل انشورنس، اور
پاکستان انشورنس ایک سال سے زائد مدت گذرنے کے باوجود چئیرمین اور بورڈ آف
ڈائریکٹرز سے محروم ہیں۔ جس کے سبب اربوں روپے کی کارپوریشن کے معاملات
تعطل کا شکار ہیں۔ ایسے میں اگر کسی مالیاتی ادارے میں کوئی بڑا مالیاتی
اسکنڈل ہوگیا تو عوام کو جن کی پالیسیساں ہیں، اور جن کی رقوم کے لائف فنڈز
پر یہ ادارے کھڑے ہیں۔ بے حد نقصان ہوگا۔ہیلتھ انشورنس پروگرام معاشرے کے
معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کو صحت کے تحفظ کی فراہمی کا واحد راستہ ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی سکیم ہے جس نے شکایات کے حل پر
مبنی نظام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے غریب ترین لوگوں کے لئے سماجی تحفظ کا
نظام متعارف کرایا ہے۔ اس پروگرام کے نتیجہ میں ملک کے محروم طبقات کو نہ
صرف بلامعاوضہ صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل ہو گی بلکہ پاکستان بھر میں
جدید ہیلتھ انفراسٹرکچر کو ترقی دینے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم چاہتے
ہیں کہ اس سکیم سے پاکستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ ملے اور اس
سے سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھلیں گی۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کا اندازہ
اٹھارہ سے بیس کروڑ نفوس کے لگ بھگ لگایا جاتا ہے جن میں سے تقریباآدھی
آبادی بے وسیلہ افراد کی ہے جو دو وقت کی روٹی تو کسی نہ کسی حیلے سے محنت
مشقت کے ذریعے بے شک حاصل کر لیتی ہے مگر بیماری اور حادثے وغیرہ کی صورت
میں دوا دارو کا حصول ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ان بے چاروں کا
کوئی پرسان حال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ملک کے دس کروڑ غریب ترین افراد کے
لیے ہیلتھ انشورنس اسکیم کی منظوری کے اعلان کو ایک انتہائی اہم پیشرفت
قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کریڈٹ بھی ضیا دور میں میاں یاسین وٹو کو جاتا ہے
کہ انھوں نے پہلی بار پاکستان میں حادثاتی انشورنس اسکیم کا اجرا کیا تھا،
جس کے ذریعہ کسی حادثاتی موت پر دس ہزار روپے کا معاوضہ دیا جاتا تھا۔ اس
اسکیم کا انتظام و انصرام اسٹیٹ لائف انشورنس نے بری کامیابی سے چلایا تاہم
بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ گذشتہ دور میں بے نذیر
انکم سپورٹ کے تحت بھی محدود پیمانے پر ایک اسکیم کا اجراء کیا گیا۔ لیکن
عوام تک اس کے ثمرات پوری طرح نہیں پہنچ سکے۔ محترمہ مریم نواز کے ساتھ اب
، وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ کو بھی اس اسکیم کی سربراہی کے لئے
چنا گیا ہے۔ جن کا تعلق بھی وزیر اعظم کے قریبی خاندان سے ہے۔اس اسکیم کے
تحت ملک کے غریب لوگوں کو امراض قلب، ذیابیطس (شوگر)، ہیپاٹائٹس، اعضا کے
ناکارہ ہونے اور کینسر (سرطان) جیسے بڑے امراض کے مفت علاج معالجے کی
سہولیات فراہم کرنے کا سوچا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس سکیم
کے لئے اچھی انشورنس کمپنیوں کی مشاورت اور ماہرین کے تعاون سے کوئی ایسی
راہ نکالے جس سے عوام کی مشکلات میں کمی ہوں اور انشورنس کے مفید منصوبوں
سے عوام کو فائدہ ہو۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.