عزمِ نو

کچھ فیصلے لینا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن قوم کی بقاء کے لئے لینے ہی پڑتے ہیں ۔ اب بھی ایک ایسی ہی صورت حال نے جنم لیا جہاں جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں ایک گروہ نے اپنے انداز میں طرز حکومت قائم کرنے کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جن سے ایک طرف تو حکومت اور ریاست کو چیلنج کیا جانے لگا دوسری طرف علاقے کا امن و امان تباہ ہو کر رہ گیا ۔ طالب علموں کے پڑھنے لکھنے پر پابندی لگنے لگی خاص طور پر بچیوں کے تعلیمی ادارے دھماکوں سے اُڑا دیے گئے۔ خواتین کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ سب سے بڑھ کر یہ خود کش دھماکوں کا رجحان بڑھنے لگا۔ بغیر سوچے سمجھے کہ کس کا نقصان ہورہا ہے اور کیوں ایسا کیا جارہا ہے۔ جہاں جی چاہا دھماکہ کر دیا اور بے قصور لوگوں کو قتل کر دیا۔ جہاں موقع ملا لوگوں کو اغوا کر لیا ۔ تیسرا پہلو جو سب سے زیادہ درد ناک تھا وہ وہاں کے مکینوں کا آزادی سے جینے اور کاروبار کرنے کا تھا۔ ان تمام شوائد سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی مقاصد کے لیے کام کررہے تھے اور کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ علاقے کے اکابرین اور عوام کی بات مانتے ہوئے حکومت نے بڑے حوصلے کا ثبوت دیا اور بہت سے امن معاہدے کیے۔ یہاں تک کہ ایک دیرینہ مطالبہ نظام عدل کے نظام کا بھی پورا کردیا۔ لیکن اس سب کے نتیجے میں بھی امن و امان کی کوئی صورت نہ بنی بلکہ الٹا دہشت گردی کے واقعات نہ صرف بر قرار رہے بلکہ مقامی آبادی کو زیادہ تعداد میں نقل مکانی کرنی پڑی۔ جان اور عزت کے خوف سے یہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف جانے لگے ۔

ایسے میں حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ سمجھانے بجھانے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ فیصلہ کرے کہ اب ان ہاتھوں کو روکنا ہے جو ظلم و ستم اور جبر کے لئے اُٹھ رہے ہیں ۔ اس ایک فیصلے سے ساری قوم متحد ہو گئی اور وہ لوگ بھی کہ جن کے دلوں میں ابہام پایا جاتا تھا کہ سختی سے اس معاملے سے نبٹنا چاہیے کہ نہیں سب متفق ہوگئے ہیں کہ اب ان بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو جو پاکستان کی سا لمیت کو کمزور کر رہے ہیں سے سختی ہی کی جائے گئی۔ علماء کرام نے بھی اپنا ایک دینی اور قومی فریضہ ادا کیا ہے اور لوگوں کو سچ اور حق اور فتنہ و فساد کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔ اس سے بھی لوگوں میں ہمت اور یکجہتی آئی ہے اسی طرح ذرائع ابلاغ نے بھی اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا اور اس کے مستقبل کے اثرات سے آگاہی دی ہے۔اس مشکل وقت میں قوم کو متحد رکھنا ایک اہم فریضہ ہے جو کہ سب مل کر ادا کر رہے ہیں ۔ افواج پاکستان نے جس طرح اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے قوم و ملت کے لیے قربانی کی مثال قائم کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ جس طرح فوج دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ساتھ ہی معصوم لوگوں کو ان علاقوں سے نکلنے میں مدد دے رہی ہے یہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں جب اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو یہی فوج کے جوان اپنے خون سے دیے جلا کر قوم کے لیے روشنی کی امید بن جاتے ہیں اور ساری قوم سرخرو ہوتی ہے ۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب صرف ایک مقصد سامنے رکھیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اپنے ملک و قوم کی عزت و حرمت پر ہم آنچ نہیں آنے دیں گئے۔ ہر اس سوچ کو ختم کریں گے جو ہمیں نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کرئے اور ہر اس ہاتھ کو روکیں گئے جو ہمارے ملک اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے اٹھے ۔ پاکستان کے قیام کے وقت بھی ہر مسلمان نے عہد کیا تھا کہ " لے کر رہیں گے پاکستان " ۔ آج پھر اس عزمِ نو کی ضرورت ہے کہ " بچا کر رہیں گے پاکستان" ۔
 
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.