ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
منیر نیازی اﷲ انہیں غریقِ رحمت
کرے دنیا جہاں کے شاعروں کی طرح حساس بھی تھے اور کچھ تنک مزاج بھی۔اپنی
مرضی کے مالک۔انہوں نے اپنی ایک مشہورِ زمانہ نظم میں فرمایا تھا کہ" ہمیشہ
دیر کر دیتا ہوں میں"خدا جانے وہ دیر کرتے تھے یا نہیں یہ تو محترم عطاء
الحق قاسمی ،جناب امجد اسلام امجد یا ان کے دوسرے دوست ہی بتا سکتے ہیں
لیکن اس بات کی گواہی تواپنے کالم میں آج نجم سیٹھی صاحب نے بھی دی اور
وزیر اعظم کے مزاج شناس جناب عطاء الحق قاسمی سے بھی آف دی ریکارڈ پوچھا
جائے تو وہ بھی دیں گے کہ ہمارے چہیتے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف
حکومتی معاملات کے کٹوں کو باندھنے میں ضرور دیر کر دیتے ہیں۔یہ کھلے کٹے
جب ہلا مچاتے مچاتے جناب وزیر اعظم کے خوابوں بلکہ ان کی خواب گاہ میں گھس
آتے ہیں تبھی حضورِ والا شہباز شریف کو کہتے ہیں" یار توں ای کج کر ۔مینوں
تے ہن ایہہ ٹکراں مارن تے آگئے نیں"
میں نے تقریباََ ایک ہفتہ پہلے" نقارہ خدا "میں لکھا تھا کہ چودہ اگست کو
کوئی مارچ نہیں ہوگا۔ اسی کی وجہ کوئی خبر نہیں بلکہ سیدھا سادا تجزیہ تھا
کہ حکومت نے ماضی سے سبق سیکھا ہوگا۔میں نے یہ بھی کہا تھا کہ طاہر القادری
خانہ زاد ہیں۔ان سے ایک ملاقات انہیں ریشہ خطمی کر سکتی ہے۔عمران خان چار
حلقوں کو کھولنے کے اعلان پہ اپنا مارچ ختم کرنے کا عندیہ دے رہے تھے۔اندر
خانے چوہدری نثار مشرف کی وکالت کر کے اسے محفوظ راستہ دینے کا مشورہ دے
رہے تھے۔یہ ساری باتیں اس بات کا کھلا اشارہ تھیں کہ بات مارچ سے پہلے ہی
بن جائے گی لیکن میاں صاحب کی طبیعت سے واقف ہوتے ہوئے بھی میں یہ امید لگا
بیٹھا کہ وہ بروقت کوئی قدم اٹھائیں گے۔یہ عجیب بات سہی کہ جناب نصرت جاوید
کی کوئی ایک بات بھی مجھے نہیں بھاتی لیکن وہ خود بہت بھاتے ہیں۔وہ جو صحیح
سمجھتے ہیں ببانگ دہل بولتے ہیں اور دوست دشمن کی پرواہ نہیں کرتے۔پنجابی
کی" نانی خصم کیتا" والی کہاوت ان کی بہت پسندیدہ ہے۔ مشرف والا معاملہ نون
لیگ کے لئے بھی "نانی خصم کیتا "والا معاملہ ہے۔جمہوریت کا چمپئین بننے کے
چکر میں اور فوج کو نیچا دکھانے کے شوق میں نون لیگ نے مشرف کے مقدمے کی
چچھوندر نگل تو لی ہے لیکن اب وہ اس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔آئی ایس آئی
بنام جیو یا جیو بنام آئی ایس آئی مقدمے میں حکومت کو اپنی اوقات کا بھی
اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے۔یہ الگ بات کہ یہ اندازہ لگوانے کے لئے بے چارے
حامد میر کو اپنی بڑی آنت زخمی کروا کے اپنے آقاؤں کے دیس جانا پڑا۔
وقت گذرنے کے بعد نون لیگ نے انتخابی اصلاحات کے لئے کمیٹی بھی بنادی ہے جس
میں تحریکِ انصاف کے ممبران بھی شامل ہیں لیکن اب پی ٹی آئی کی قلندر صفت
ترجمان نعرہ زن ہیں کہ اب دیر ہو گئی اب تو دما دم مست قلندر ہو گا۔اندر
خانے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت پہلی بار کسی ایونٹ کو بہت زیادہ سنجیدگی
سے لے رہی ہے۔بہت نچلی سطح تک کے کارکنوں کو متحرک کیا جا رہا ہے۔روپیہ بھی
سنا ہے کہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور عمران خان کا یہ مارچ اب رکنے
والا نہیں لگتا۔حکومت کے وزیروں کا رویہ اور ان کے بیانات دیکھ کے لگتا ہے
کہ وہ اپنے مخالفین سے بھی زیادہ حکومت گرانے کی جلدی میں ہیں۔ اپوزیشن کی
ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے
رکھے لیکن حکومت کے وزیروں کے بیانات اور ان کے اس مارچ کو روکنے کے
اقدامات دیکھ کے ہنسی آتی ہے۔مارچ چودہ اگست کی صبح لاہور سے چلے گا۔یہ ڈی
چوک میں چودہ اگست کی صبح فوج کی پریڈیں کروا رہے ہیں۔رات کو سولین کی پریڈ
کی تیاریاں ہیں۔جب یہ سب پریڈیں ختم ہو جائیں گی تب عمران کی فوج اس ایونیو
میں داخل ہو گی۔اب کی بار طاہر القادری نے بھی پتے سینے سے لگا رکھے
ہیں۔پھڈے کے استاد شیخ رشید اور شریفوں کے انتہائی دشمن چوہدری اب کی بار
قادری صاحب کے مشیر اور اتالیق ہیں۔انہوں نے ہی ابھی تک پروفیسر صاحب کی
جذباتیت کو لگام دے رکھی ہے ۔وہ تیل کی دھار نہیں دیکھ رہے پلان ترتیب پا
چکا ہے لیکن حکومت کو سرپرائز دینے کے لئے اس کا اعلان باقی ہے۔آصف زرداری
ویسے بھی مخالف کے پاؤں تلے سے زمین کھینچنے کے ماہر ہیں۔وہ عمران کے
مطالبات کی حمایت کر کے ایک اشارہ تو پہلے ہی دے چکے۔ویسے بھی ان کی پارٹی
کی سٹریٹ پاور تو اب قصہ ماضی ہوئی اب انہوں نے تو اخلاقی مدد ہی کرنی ہے۔
چشمِ تصور سے دیکھئیے تونظارہ یوں بنتا ہے کہ ڈی چوک میں اتنا ہجوم ہے کہ
تل دھرنے کی جگہ نہیں۔لوگ مشتعل بھی نہیں۔پر امن ہیں لیکن انہوں نے دھرنا
دیا ہوا ہے۔وہ اپنے مطالبات کے حق میں نعرہ زن ہیں۔حکمران محصور
ہیں۔پارلیمنٹ گھیرے میں ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ایسے میں فوج آ جائے گی۔فوج
عالمی اور ملکی حالات کی وجہ سے یہ ذمہ داری کبھی نہ لے گی۔کیا مظاہرین کو
منتشر کرنے کے لئے فوج استعمال کی جائے گی؟ پرامن مظاہرین کو ملکی قانون
تحفظ دیتا ہے ۔احتجاج اور مظاہرے ہر تنظیم اور جماعت کا حق ہے۔کیا حکومت یہ
پریشر برداشت کر پائے گی۔کیا اس وقت مذاکرات ممکن ہوں گے۔کیا لوگ حکومت کے
جانے سے کم پہ راضی ہوں گے۔کیا عدالت ازخود نوٹس لینے کی پوزیشن میں ہو
گی۔یاد رکھئیے ہم تماش بین لوگ ہیں گھر جلا کے تماشہ دیکھنے والے۔یہ ہجوم
کم نہیں ہوگا بڑھتا ہی جائے گا۔پنجابی کا ایک محاورہ ہے۔"ڈلہیاں بیراں دا
اجے وی کج نہیں گیا" ابھی مذاکرات کا وقت ہے۔
ایک منظر اور بھی میری چشم تصور دیکھ رہی ہے ۔نواز شریف وزیر اعظم ہاؤس کی
بالکونی میں چوہدری نثار اور ہمہ صفت موصوف جناب پرویز رشید کے ساتھ کھڑے
ہو کے اس ہجوم کانظارہ کریں گے اور پھر انہیں اپنالاہوریا شاعر منیر نیازیؔ
یاد آئے گا۔اس وقت جب پرویز رشید نزدیک ہو کے سننے کی کوشش کریں گے تو
انہیں پتہ چلا گا کہ وزیر اعظم منیر نیازی کو گنگنا رہے ہیں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو،کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو،اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں |
|