امریکی جیلوں میں برسوں سے قید
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے برسر پیکار انکی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
کی کال پر گذشتہ دنوں عافیہ سیکریٹریٹ میں دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا۔جس
میں عافیہ کی رہائی کیلئے کوشاں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے
بڑی تعداد میں شرکت کی۔ڈاکٹر فوزیہ نے شرکاء کو عافیہ رہائی کے حوالے تازہ
ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ عافیہ کی رہائی کے حوالے سے وائٹ
ہاؤس کی ویب سائٹ پر آن لائن پٹیشن دائر کی گئی ہے، جس پر ایک لاکھ پر
افراد کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اب تک چالیس ہزار سے زائد
افراد مذکورہ پٹیشن پرد ستخط کرچکے ہیں جبکہ ۴اگست تک مطلوبہ ہدف پورا کرنے
کیلئے پچاس ہزار سے زائد افراد کے دستخط ہوناابھی باقی ہیں۔انکا کہنا تھا
کہ مطوبہ ہدف کے خصول کے بعد عافیہ کی رہائی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔انہوں
نے شرکاء کو بتایا کہ ایک لاکھ افراد کے دستخط کے بعد یہ ایک عوامی پٹیشن
امریکی صدر اوبامہ کو پیش کی جائیگی، جس کے بعد صدر اوبامہ عافیہ کی سزامیں
تخفیف کے ساتھ اسے بالکل ختم بھی کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ
عافیہ کی رہائی کیلئے کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔شوشل میڈیا پر جاری
مہم کے حوالے سے انہوں کہا کہ چند روز قبل شروع کی جانیوالی مہم کے بہتر
نتائج سامنے آرہے ہیں تاہم اب بھی ایک بڑی تعداد تک اس پیغام کو پہنچانے کی
ضرورت ہے۔شرکاء نے اس موقع پر مذکورہ تعداد کو حاصل کرنے کیلئے مختلف
تجاویز دیں۔
ان تجاویز کا نتیجہ ہی تھا کہ جمعہ ۱۸جولائی کو شہر قائد میں محتلف مساجد
کے باہر اس حوالے سے ناصرف ہینڈز بلز تقسیم کئے گئے بلکہ آئمہ کرام نے اپنے
خطبات میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے خصوصی ذکر کیا۔آئمہ کرام نے
فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کا بھی
خصوصی تذکرہ کیا، اور عافیہ صدیقی کی رہائی سمیت دنیا بھر کے مظلوم
مسلمانوں کیلئے دعائیں کیں۔
ماہ اگست جو کہ مادر وطن پاکستان کی آزادی کا مہینہ ہے اس ماہ کو عافیہ
موومنٹ کے رضاکار عافیہ صدیقی کی رہائی کا ماہ بنانے کی بھرپور کوششوں میں
مصروف ہیں۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن اور اسکے تین معصوم بچوں کے اغوا
کے بعد ہر در کھٹکھٹایا، قریبا تمام ہی سیاسی ، جماعتوں سے رابطے کئے، حز ب
اختلاف و اقتدار کی سبھی جماعتوں کے سامنے اپنی بہن کی روداد رکھی،صدر ،
وزیراعظم سمیت حکومتی اکابرین اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتیں کیں،
سبھی نے انہیں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے وعدے کئے ،عافیہ کی رہائی کے ایک
نقطے پر سبھی یکسو تھے اور آج تلک ہیں لیکن اس قومی خواہش کے باوجود آج تک
عافیہ پس زنداں ہیں۔موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقتدار میں آنے سے
پہلے عافیہ کی رہائی کیلئے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے تھے، وزیر اعظم بننے
کے بعد بھی دورہ امریکہ سے قبل عافیہ کی والدہ اور بچوں سے یہ وعدہ کیا تھا
کہ امریکی صدر سے عافیہ رہائی پر ضرور بات کرینگے،تاہم نتیجہ آج تلک عافیہ
کی قید کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔۵۵سے زائد مسلمان ممالک اور ڈیڑہ ار ب
سے زائد مسلمان ملکر بھی ایک عافیہ کو آزادی نہیں دلواسکے ہیں۔ڈاکٹر فوزیہ
صدیقی نے اپنے تئیں عافیہ کی رہائی کے حوالے سے تمام تر کوششیں کر لیں۔
ملکی سطح پر ان کاوشوں کے بعد اب انہوں نے امریکہ میں عافیہ کیس کو ری اوپن
کرنے کیلئے تما م قانونی تقاضے پورے کر لئے ہیں۔ جس کیلئے کثیر سرمایہ
درکار ہے، گذشتہ دنوں ایک نجی ٹیوی چینل کے افطار پروگرام میں انہوں نے
بتایاکہ صرف کیس کو ری اوپن کرنے کیلئے ایک لاکھ ڈالرچاہئیے ہونگے، حالیہ
آن لائن پٹیشن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وہ بارہا یہ بات کر چکی ہیں کہ
اگر حکومت چاہے تو عافیت کی رہائی دنوں نہیں گھنٹوں میں ممکن ہو سکتی ہے
اور یہ بات عافیہ کی وکیل ٹینا فوسٹر سمیت کئی امریکی شہریوں نے جنہوں نے
عافیہ کی رہائی کیلئے نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا بھر میں آواز اٹھائی ہے
ان تمام افراد کا بھی یہی کہنا تھاکہ اگر پاکستانی حکومت چاہے تو عافیہ کی
رہائی میں دیر نہیں ہوسکتی۔سابقہ عوامی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی لیکن
انہوں نے بھی عافیہ کی رہائی کے حوالے سے کچھ نہیں اور اسی روش پر موجودہ
حکومت بھی چل رہی ہے۔وہ کیا مجبوریاں ہیں جن کے تخت عافیہ کی رہائی اب تلک
ممکن نہیں ہوسکی ہے یہ تو حکومتی اکابرین ہی بتا سکتے ہیں، عوام کے سامنے
بلند و بانگ دعوے کرنیوالے ہمارے رہنماریمنڈ ڈیوس اور اس جیسے کئی امریکی
جاسوسوں کو تو فوری طور پر امریکی حکومت کے حوالے کردیتی ہیں لیکن ایک
عافیہ کے سوال پر یہ رہنما بغلیں جھانکنا شروع کردیتے ہیں۔
شوشل میڈیا پر عافیہ کی رہائی کے لئے درکار ایک لاکھ دستخطوں کی اگر بات کی
جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ تعداد کوئی بڑی تعداد نہیں،
منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ایک لاکھ تو کیا دس لاکھ کی تعداد بھی عافیہ
کیلئے صرف کراچی سے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں،کراچی جو کہ اس وقت دو کڑوڑ کی
سے زائد آبادی کا شہر بن چکاہے اور وطن عزیز کی آبادی ۱۸کڑور سے تجاوز کر
چکی ہے، عافیہ کی رہائی کیلئے شہر قائد ہی نہیں پورا پاکستان اور پورا عالم
اسلام چاہتا ہے ایسی صورتحال میں ایک لاکھ دستخط کی شر ط کوئی معنی نہیں
رکھتے تاہم اس کم وقت میں اس مہم کو جس منظم انداز میں شروع کیا جانا چاہئے
تھا ایسا نہیں ہوسکااور اب صورتحال یہ ہے کہ مقابلہ سخت ہے اور وقت کم، ۴اگست
تک پچاس ہزار سے زائد افراد کے آن لائن دستخط بظاہر مشکل ضرور نظر آتے ہیں
لیکن یہ ناممکن قطعی نہیں۔
باوجود اس کے کہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے عید کی آمد آمد ہے ملک
اس وقت حالت جنگ میں ہے اور بھی ایسے کئی مسائل درپیش ہیں تاہم اب بھی کچھ
نہیں ہو ا، اس کے باوجود اس وقت بھی منظم منصوبہ بندی کی جائے انٹرنیٹ
صارفین ، میڈیا ، طلبہ برادری ، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد
چند لمحوں کیلئے اس بات کا احساس کرلیں کہ عافیہ ، فوزیہ کی نہیں ان کی
اپنی سگی بہن ہے تو اس احساس کے سامنے یہ ایک لاکھ کی تعداد ریت کے ذروں کے
برابر ثابت ہوگی۔اس احساس کے ساتھ جب کام ہوگا تو ایک کڑور کی تعداد بھی
باآسانی حاصل کر لی جائیگی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور
انکی پوری ٹیم نہایت منظم انداز میں بھرپورمنصوبہ بندی کے ساتھ اس ہدف کو
حاصل کرنے کیلئے آگے بڑھیں۔
قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی نے جو کرنا تھا وہ کرلیا، اب ذمہ داری ان مسلمان
ممالک کے سربراہوں کی اور ان میں رہنے والے مسلمانوں کی ہے کہ وہ ایک مظلوم
بیٹی کو امریکہ کی قید سے رہائی دلوانے کیلئے کیا کردار اد اکرتے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |