فلسطین پر صیہونی جارحیت....عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی
(عابد محمود عزام, karachi)
مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کی جاری درندگی
تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔ اس دوران اسرائیل کی خونخوار اور درندہ صفت
افواج چھ سو فلسطینیوں کو شہید اور چار ہزار کے لگ بھگ کو زخمی کر چکی ہےں۔
فلسطین میں اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کے دوران
اسرائیلی جارحیت سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز
کر گئی ہے۔ اسرائیلی بہیمیت کے سلسلے میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید شدت آرہی
ہے، روز غزہ پر آتش و آہن کی بارش کر کے سیکڑوں معصوم فلسطینیوں کو موت کی
نیند سلایا جا رہا ہے۔ غزہ کی مشرقی کالونی الشجاعیہ اور خان یونس میں
ہزاروں اسرائیلی فوجیوں نے ظلم و سفاکیت کی نئی تاریخ رقم کرکے درندگی کی
تمام حدود پار کر لی ہیں۔ اسرائیلی افواج نے ان فلسطینی علاقوں میں ہیلی
کاپٹروں، جیٹ طیاروں اور ٹینکوں سے آگ و بارود برساتے ہوئے بلا تخصیص بچوں،
خواتین اور بوڑھوں سمیت ان گنت افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ اکثر
عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ غزہ کے علاقے الشجاعیہ اور خان یونس
کی گلیاں اور سڑکیں مظلوم فلسطینی شہدا کی لاشوں اور زخمیوں سے بھری گئیں۔
اسرائیلی افواج نے جان بچانے کے لیے محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی کوشش کرنے
والے فلسطینیوں پر بھی بمباری کرکے ان کو موت کی نیند سلا دیا۔ اسرائیل نے
تمام جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زخمی فلسطینیوں کو اٹھانے کے
لیے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا، ہسپتالوں اور فلاحی
مراکز کو بھی نشانہ بنا کر کئی ڈاکٹروں کو اپاہج کردیا اور متعدد زخمیوں کو
موت کا پروانہ دے دیا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ پر
حملوں میں سفید فاسفورس بموں کا استعمال کیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے بھی اس کے
استعمال کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فاسفورس کا استعمال سموک
اسکرین کے لیے کیا گیا تھا۔ حالانکہ عالمی قوانین کے مطابق جنگوں میں بھی
سفید فاسفورس کا استعمال ممنوع ہے، لیکن اسرائیل غزہ میں نہتی آبادیوں کے
خلاف اس کا استعمال کر رہا ہے۔
ان حالات میں امریکا و یورپ سمیت عالمی برادری تو فلسطینیوں کے ساتھ تعاون
کرنے کی بجائے اسرائیل کو کھلے عام جارحیت جاری رکھنے کا سرٹیفکیٹ عنایت کر
رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بھی یہ بیان دے چکا ہے کہ اسرائیل کو مضبوط
عالمی اور امریکی حمایت حاصل ہے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام نے
بھی اپنے لبوں پر گوند لگا کر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی ہے۔ امت مسلمہ
کے اکثر ممالک غزہ کے حوالے سے اپنے لب سی چکے ہیں۔ پاکستان میں فلسطین کے
سفیر ولید ابوعلی نے اسلامی دنیا کے 57 ممالک، اقوام متحدہ، او آئی سی اور
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں نہتے فلسطینی
عوام پر اسرائیلی افواج کی وحشیانہ کارروائیوں کا فوری نوٹس لیتے ہوئے
صورتحال کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ فلسطینی سفیر نے دنیا کے
ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت عرب دنیا سمیت تمام
مسلمان ملکوں کو اپنے اندرونی اور علاقائی تنازعات ختم کرکے یک جان ہو کر
اسرائیلی سفاکیت کا شکار فلسطینی عوام کا ساتھ دینا ہوگا۔ اسرائیل معصوم
اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے، جبکہ عالمی برادری
فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ فلسطینیوں کی اپیل کے
باوجود عالم اسلام کے حکمران لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں، عالم اسلام کی سب
سے بڑی تنظیم او آئی سی نے اسرائیلی جارحیت کو مسلسل دو ہفتے گزرنے کے
باوجود ابھی تک غزہ پر اسرائیلی بربریت کو رکوانے کے لیے کوئی اجلاس تک
نہیں بلایا، او آئی سی لمبی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ جبکہ اطلاعات کے
مطابق اس سے پہلے مصر نے جنگ بندی کی تجویز کے ذریعے پس پردہ اسرائیل کو
سپورٹ کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں بغیر کسی شرط کے حماس پر زور دیا گیا
تھا کہ وہ فوری مزاحمت ترک کردے، لیکن حماس نے مصر کی اسرائیل نواز حکومت
کی اس تجویز کو مسترد کردیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس تجویز کا مقصد
اسرائیل کو فائدہ پہنچانا اور حماس کو نقصان پہنچانا تھا۔ مصر کی اس تجویز
کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات کی حمایت بھی شامل تھی۔ دوسری جانب
بیس سے زاید عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم ”عرب لیگ“ نے فلسطینیوں کے زخموں
کا مداوا کرنے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک ہی چھڑکا ہے۔ عرب لیگ نے
اسرائیل کی بجائے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ مصری تجویز کو قبول کرتے ہوئے
مزاحمت ترک کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کردے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عالم اسلام
کے متعدد ممالک کے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات ہیں، ان ممالک کی
سالانہ اربوں کی تجارت اسرائیل کے ساتھ وابستہ ہے، بعض کے تو خفیہ طور پر
سفارتی تعلقات بھی اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ اس لیے عالم اسلام کے بیشتر ممالک
اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بلکہ اخوان کے بعد اندر
کھاتے حماس کو ختم کرنے کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ دنیا
میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے چند لاکھ یہودیوں کا اسرائیل، سرزمین
انبیاءفلسطین پر بلا خوف و خطر سفاکیت و بربریت کی تاریخ رقم کرے، مسلم
دنیا کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی قوت سے مالامال کیا ہے، ان کے پاس افرادی
قوت بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ اگر ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر مشتمل 57 ممالک
اسرائیل کو صرف ایک دھمکی ہی دے دیں تو بھلے ہی وہ امریکا کی سرپرستی میں
یہ سارا ظلم روا رکھے ہوئے ہے، اس کے باوجود اس میں اتنا دم نہیں کہ مسلم
فلسطینی بھائیوں پر جارحیت کی انتہا کرے، لیکن مسلم ممالک گنگ بنے ہوئے ہیں۔
عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی کے پیش نظر حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے
کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت پر عالمی برادری اور مسلم ممالک کی خاموشی پر
حیرانگی نہیں ہے، ہمیں کسی سے کوئی امید نہیں ہے۔ فلسطینی عوام خود
اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کریں گے۔ گزشتہ روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق
کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں ہر طرف مسلمانوں کے خون کی ندیاں
بہا دی ہیں، لیکن اس کے باوجود اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) یہود کی
آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، آج
وہاں جان، مال اور عزت کچھ بھی محفوظ نہیں ہے، اہل فلسطین عالم اسلام کی
جانب دیکھ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران جاگیں اور اپنے فلسطینی
بھائیوں کی مدد کریں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج مسلم حکمرانوں میں کوئی
صلاح الدین ایوبی نظر نہیں آرہا۔ وزیراعظم نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ
اسرائیل کے خلاف میدان میں آئیں اور عالم اسلام کے قائدین سے رابطے کرکے
انھیں ایک پلیٹ فام پر اکٹھا کریں۔ پاکستان کے 18 کروڑ مسلمان قبلہ اول کی
حفاظت اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ مسلم
ممالک کے عوام غزہ کی طرف دیکھ رہے ہےں، جب کی حکمرانوں کا جھکاو ¿ امریکا
کی طرف ہے۔ مسلم ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم
اسرائیل کا بائیکاٹ کریں اور تیل کا ہتھیار استعمال کریں اور امریکی بینکوں
سے پیسہ نکلوائیں۔ ہم اقوام متحدہ سے کیا امید رکھیں، وہ تو خود مجرموں اور
کفن پوشوں کا ٹولہ ہے، امریکا کے ہاتھوں کا ایک کھلونا ہے، یہودی لابی کے
لیے کام کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں، جب کہ او
آئی سی کا بھی اب تک کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ |
|