وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کی
جانب سے ایک انتہائی غیر ذمے دارانہ سامنے آیا ، جس میں انھوں نے کہا کہ
کراچی میں امن و امان کی خرابی میں سوات کے لوگ ملوث ہیں۔کیونکہ سوات
آپریشن کے بعد ہم نے ان لوگوں کی مدد کی تھی لیکن آپریشن کے خاتمے پر جب
انھیں واپس جانے کو کہا گیا تو بہت سے لوگ واپس نہیں گئے۔“
وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ سے اس قسم کے غیر ذمے دارانہ بیان کی توقع
شروع سے ہی تھی کیونکہ جب سے شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا
ہے ، سب سے پہلے سندھ کی جانب سے متاثرین جنگ کی آمد کے حوالے سے کہا گیا
کہ سندھ بین الاقوامی یتیم خانہ نہیں۔حکومت سندھ نے آئی ڈی پیز کی آمد کے
حوالے سے وقت سے پہلے شور وغوغا شروع کردیا ، ان کی دیکھا دیکھی نام نہاد
سندھ قوم پرستوں نے ، دھرنوں اور اپنی سستی سیاست چمکانے کیلئے ہڑتال اور
احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ۔سندھ کی عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ انھیں
ایسے لیڈر ملتے ہیں جو انھیں حقوق دلانے کے بجائے ، نان ایشوز پر سیاست
کرکے سندھی قوم کی مہمان نوازی کے بجائے ایسے بد نام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
سوات آپریشن میں لاکھو ں کی تعداد میں متاثرین آپریشن راہ نجات اپنے گھروں
سے جبری بیدخل ہوئے اور ان میں ایک معقول تعداد کراچی بھی آئی ، لیکن دنیا
اس بات کی گواہ ہے کہ سندھ حکومت نے ان متاثرین کیلئے سہراب گوٹھ ، سپر
ہائی وے کے دور افتادہ علاقے خلیجی گوٹھ کے ریگستانی بیابان علاقے میں ایک
ایسا کیمپ لگایا ، جس میں نہ پانی پینے کا انتظام تھا اور نہ ہی چاردیواری
کا کوئی تحفظ یا دیگر انسانی سہولیات میسر تھیں ، تیز ہواؤں کے سبب ،
بوسیدہ خیمے بار بار گر جاتے تھے اور وہاں آنے والے چند خاندان انتہائی
کسمپرسی کی حالت میں رہنے پر مجبور تھے ، اسی طرح محمود آباد میں جب ان کے
عارضی کیمپ پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی تو اس وقت بھی یہی شور اٹھا کہ سوات
کے لوگوں کو اتنی دور آنے کی کیا ضرورت تھی یہ واپس جائیں۔
کراچی میں سوات سے آنے والے جتنے بھی مہاجرین آئے ، ان کی زیادہ تعداد اپنے
رشتے داروں کے گھر میں رکی رہی ، اور ان کے یہ رشتے کراچی کے ان علاقوں میں
عرصے سے آباد ہیں جب سے لیاری آباد ہے۔کراچی کی تاریخ گواہ ہے کہ سوات سمیت
خیبر پختونخوا کی جتنی عوام بھی 1967ء کے بعد یا اس سے قبل جن علاقوں میں
تھی آج بھی ان ہی علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ تینوں انڈسٹریل ایریا کے قریب
جوار کی آبادیاں قیام پاکستان سے قبل آباد ہیں اور خیبر پختونخوا کی عوام
نے کراچی کے کسی خطے پر قبضہ نہیں کیا کہ وہاں اپنے لئے نئی آبادی بنا لی
ہو۔سندھ میں دیہی و شہری تفریق خود پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا
ہوئی اور قوم پرستوں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملا۔تاہم اس وقت موضوع
یہ ہے کہ وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے سوات کی عوام کی توہین کی اور
کراچی میں بدا منی کا ذمے دار ، پاکستان کیلئے سب سے زیادہ قربانی دینے
والوں کو گردانا۔ جو یقینی طور پر سوات کی عوام کیلئے انتہائی تکلیف دہ بات
ہے کہ ایک جانب انھوں نے اپنی ریاست کے پاکستان سے الحاق کے بعد وہ حقوق
بھی نہیں ملے ، جو والی سوات اور حکومت پاکستان کے درمیان معائدے کے تحت
کئے گئے تھے ، تو دوسری جانب کراچی کی ترقی میں جتنا حصہ پختونوں کا ہے وہ
کسی بھی قوم سے زیادہ ضرور ہے لیکن کم نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں کبھی بھی سندھی زبان بولنے والے اکثریت میں
نہیں رہے ہیں ،پاکستان میں جتنی بھی مردم شماری ہوئی ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ
کراچی یا سندھ شہری علاقوں میں سندھی بولنے والوں کی کبھی بھی اکثریت نہیں
رہی بلکہ اردو بولنے والوں کے بعد پشتو بولنے والے دوسری بڑی قومیت کے طور
پر آباد مقامی شہری ہیں اور یہ سوات آپریشن کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ کراچی
کی ترقی میں جس طرح ہندوستان سے آنے والے اردو بولنے والوں نے اپنا ایک
کردار ادا کیا ، اسی طرح معاشی طور پر پختونوں نے اپنا کثیر سرمایہ کراچی
میں لگایا۔
وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب پاکستان بن
رہا تھا تو کراچی کو سندھ سے الگ کرنے میں سوات کے لوگوں کا ہاتھ نہیں تھا
، پاکستان بنتے ہی کراچی سندھ کا حصہ بننے کے بجائے وفاقی علاقہ بنا تو اس
میں پختونوں کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ یہ بابائے قوم قائد اعظم کی مرضی تھی۔
جس وقت صوبائیت کو زہر قاتل کہا گیا تو اس وقت بھی سوات کے لوگوں نے کوئٹہ
کے سبی دربار میں قائد اعظم کو یہ کہنے کیلئے مشورہ نہیں دیا تھا ، اسی طرح
جب تمام صوبے توڑ کر یونٹ بنائے گئے تو بھی سوات کے لوگوں کا اس میں کوئی
ہاتھ نہیں تھا، بلکہ نیشنل پارٹی کے سرکردہ پختون رہنماؤں نے ون یونٹ کے
خلاف سب سے زیادہ جیلیں کاٹیں۔اردو ، سندھی لسانی فسادات کسی سوات کی لوگوں
کی وجہ سے نہیں شروع ہوئے تھے بلکہ سندھ کے سپوت ذوالفقار علی بھٹو کی
پالیسیاں ہی تھیں کہ سندھ کو کوٹہ سسٹم میں منقسم کردیا گیا ، جو ابھی تک
کسی نہ کسی بہانے سے چلا آرہا ہے۔کراچی سے یونیورسٹی سوات کی عوام کی وجہ
سے اندرون سندھ منتقل نہیں کی گئی تھی کہ اس کے خلاف شدید مظاہرے ہوئے اور
لسانی تفریق پیدا ہوئی۔ اسی طرح حیدرآباد پکا قلعہ میں سوات کے لوگوں نے
اردو بولنے والوں کا قتل عام نہیں کیا تھا ، وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ
کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سوات کے لوگوں نے 80 کی دہائی سے بھتہ خوری
اور بوری بند لاشیں دینے کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا تھا کہ آج تک کراچی
کے امن پر قابو پانے والی رینجرز کو اپنی بیرکوں میں نہیں بھیجا سکتا ،
کراچی میں لسانی بنیادوں پر جتنا خون پختونوں کا بہایا ہے اس کا ایک فیصد
بھی کسی سندھی کا نہیں بہا ہوگا۔
کراچی میں اربوں روپوں کے کاروبار اور جائیدایں جتنی پختونوں کی جلائی گئیں
اس کا یک فیصد حصہ بھی کسی دوسری قوم کا نہیں جلایا گیا ۔ مقامی پختون
سندھی ہونے کے باوجود ، کراچی و اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں پختونوں
کو اٹھا اٹھا کر یونیورسٹیوں اور کالجوں سے باہر پھینکا گیا ، ان کے کانوں
میں ایلفیاں ڈالی گئیں ، ان کے کان اور عضو تناسل کاٹے گئے ۔
وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کو سندھ خاص طور پر کراچی کے زمینی حقائق کے
مطابق بیان دینا چاہیے تھا ، جتنے آئی ڈی پیز سندھ آتے ہیں تو وہ پاکستانی
شہری ہیں ، ان کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جا کر
رہ سکتے ہیں۔اسی طرح اگر کوئی قانون شکن کسی بھی قومیت کے بھیس میں کہیں
بھی جاتاہے تو اس حکومت کا فرض ہے کہ اس کی بیخ کنی کرے ، لیکن کیا وزیر
اعلی سندھ قائم علی شاہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ کراچی میں بھتہ خوری ، ٹارگٹ
کلنگ ، اغوا برائے تاوان اور سرکاری پارکوں اور املاک پر قبضے میں کسی سوات
کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔
بلاشبہ سندھ حکومت نے ماضی میں اے این پی کے ساتھ ملکر یہ کام کیا تھا کہ
انھیں صوبے سے نکالنے کیلئے فی خاندان پانچ سو روپے اور بس کا بندوبست کیا
تھا اور رمضان کے پورے مہینے میں روزانہ سینکڑوں سواتی اور پختون واپس اپنے
گھروں کی جانب اس لئے گئے تھے کیونکہ انھیں کراچی میں جہاں دیکھا جاتا، ظلم
و زیادتی کی جاتی ، سندھ پنجاب بارڈر پر ان کی بسوں پر فائرنگ کی جاتی اور
ان کے رشتے داروں کو ہراساں کیا جاتا۔
وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کو اپنے غیر ذمے دارانہ بیان پر سوات کی عوام
سے معافی مانگنی چاہیے کہ ان کی قربانیوں کو چند قانون شکن لوگوں کی وجہ سے
پس پشت ڈال دیا۔ہر قوم میں بُرے لوگ ہوتے ہیں ، سندھ میں ریلوے ٹریک اور
دہماکوں میں سندھ قوم پرست علیحدگی پسند جماعتوں کے ملوث ہونے سے کون نا
آشنا ہے ، کراچی ائیر پورٹ میں دہشت گردوں کو معاونت اور صدر دہماکے میں
ہلاک دہشت گرد"پنہور "کیا سوات کے لوگ تھے سندھ کے لوگوں کو اس قسم کے
بیانات سے قومی یکجہتی کے نقصانات کا اندازہ کر لیناچاہیے |