منصور خوشتر دور حاضر کے حساس غزل گوشاعر
(Mansoor Khushter, India)
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی
کوہسار، بھیکن پور۔۳، بھاگلپور۔812001(بہار)
منصور خوشتر کی غزلوں میں زمان و مکان کی حدوں کو توڑ کر بے کراں ہونے کی
صلاحیت یقینا ہے۔
منصور خوشتر نے حیات و کائنات کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور انکشافِ کائنات
و ذات اور معاشرہ کے انگنت امکانات کو اپنی غزلوں سے محسوس کر ایا ہے۔ ان
کے لہجے میں اور فکری میلان میں قدیم و جدید اور روایت و بغاوت کی جو کشمکش
نظر آتی ہے وہی ان کے یہاں صحت مند اور تعمیری تشکیک بن گئی ہے۔
انسان ایک ایسا ساز ہے جس پر خارجی اور باطنی محرکات کا ایک سلسلہ اثر
انداز ہوتا ہے جس طرح ہوا کی لہریں ایک باؤ ترنگ کے تاروں کو چھیڑ کر ان
میں سے نت نئے نغمے پیدا کرتی رہتی ہیں۔ لیکن انسان کے اندر بلکہ تمام ذی
حس کے اندر، ایک ایسا اصول مضمر ہے جس کا عمل ایک باؤ ترنگ کے تاروں کی
جھنکار سے مختلف ہوتا ہے۔ ان مختلف ارتعاشوں، آوازوں اور محرکات کے درمیان
منصور خوشتر کا فنکار انگڑائیاں لیتا ہے۔ وہ تطابق قائم کرکے نہ صرف انسانی
زندگی کے ساز پر انگلی رکھتے ہیں بلکہ ہم آہنگی بھی پیدا کرتے ہیں۔ وہ جس
ماحول میں جی رہے ہیں اس کی عکاسی سے اپنی بات شروع کرتے ہیں!
فریب و رہ زنی، شورش، دھماکے
کوئی عنوان رکھ دیجے بیاں کا
نئی تہذیب ہی نے کی ہے نیورو سرجری جو
ہمارا خود، ہمارا چہرہ اب لگتا نہیں ہے
برا وقت اور کیا ہوگا ہماری بے حسی کا
بجھانے پر بدی کا شعلہ اب بجھتا نہیں ہے
سڑک پر چلنے والے کو نہیں اتنی سی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے
کچھ ایسی اب زمانے کی روش ہے
کہ اندر جو بھی ہوں باہر ہے بدلا
سینکڑوں قتل کیا جس نے وہی منصف ہے
شہر کا تیرے ہے دستور نرالا کیسا
منصور خوشتر کی غزلوں میں احساس کا پلہ بھاری ہے۔ آج کی زندگی نیم کا کڑوا
پیڑ ہے۔ اس نیم کے پیڑ کی کڑواہٹ جب منصور خوشتر کی غزلوں میں لبادہ اوڑھ
کر نظر آتی ہے تو تنہائی کا غم، خواب اور حقیقت کا تصادم، بے چہرگی کا کرب
اور صنعتی زندگی کا قہر سامنے آتا ہے۔ ایک خاص نوع کی اداسی ہوتی ہے جو ان
کے جذبات و احساسات کو مصنوعی ہونے سے بچاتی ہے
بے وفا لوگوں سے خوشتر مت ملو
پتھروں سے شیشے ٹکراتے ہو کیوں؟
اس میں بھی ایک سازش ہوگی دشمن کی
آپ ہمارے گھر آخر کیوں آئیں گے
نفرت سی ہوگئی ہے محبت سے مجھ کو اب
دل کو مرے وہ پہنچا بھی صدمہ جناب سے
بس اسی کو محبت سمجھتے ہیں وہ
گاہے گاہے مرے گھر جو آتے رہے
آرزوؤں سے بہت دور اب اپنا دل ہے
اپنا دامن کہ ترا دستِ کرم یاد نہیں
میں نے ماضی کی ہر ایک بات بھلادی خوشتر
ہو خوشی اپنی، کسی اور کا غم، یاد نہیں
عام لوگوں میں وہی فرد ہے اونچا کیسا
ہے وہی شخص مگر گھر میں کمینہ کیسا
نیتا جی نے کب دیکھے بھی
بھوکے، سوکھے، پیلے چہرے
منصور خوشتر کی غزلوں کی چلت پھرت میں، بندش میں اور سماجی رشتے کو نئی سطح
سے جانچنے پرکھنے میں غیر معمولی قوت اور سحر دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ ان
کے لہجے میں اکثر جگہ تلخی نظر آتی ہے اور حال کا اضطراب بے زمانی کا لمحہ
بن جاتا ہے۔ معاشرے ، فطرت اور عشق و محبت کی طرف سے ان پر جو اثرات مرتب
ہوتے ہیں اور اس سے فہم کو جس طرح مہمیز ملتی ہے اس کا استعارہ ان کی غزلیں
ہیں
جس میں خوئے وفا نہ ہو اس سے
رشتہ کچھ استوار کیا کرتے
میزبانی پہ تری آنچ نہ آنے دوں گا
تم بناکے کبھی دیکھو مجھے مہماں اپنا
دائرے میں ہوں گھرا تہذیب سے
اس کے باہر میں تو جاسکتا نہیں
محبت کرنے والوں کا الگ اک اپنا مذہب ہے
وہ راہِ عشق میں سود و زیاں دیکھا نہیں کرتے
مہربانی ہے نئی تہذیب کی
کر گئی کتنا ہمیں ننگی ہوا
کس لئے ان کے اثر میں فرق ہے
ایک ہے مسجد کی، مندر کی ہوا
فیس بک اور ہے ٹیوٹر کا زمانہ آیا
کتنے اقدار جو اعلیٰ تھے وہ ہم سے گذرے
منصور خوشتر بوالعجب خیالات کی دنیا کے شاعر نہیں بلکہ دور حاضر کے حساس
غزل گو ہیں جو ذہنی اور جذباتی کیفیت سے گذرتے ہیں یہ عمل انفرادی نہیں
اجتماعی اور کائناتی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے اشعار میں بالیدگی اور توانائی
ہے۔ انہوں نے صرف قافیہ اور ردیف کی بندش ہی پر زور نہیں دیا ہے بلکہ خیال
اور فکر پر بھی توجہ دی ہے۔ وہ زندگی کی پیچیدہ حقیقتوں کو چابکدستی سے
برتتے ہیں
قناعت خوب تر کی جستجو بھی
شعار ایسا ہی رازِ سروری ہے
اس نے دشمن کو بھی دی میرے برابر کی جگہ
مانا ربط غیر بھی، میرا تو رشتہ اور تھا
حیا و شرم، عشوے اور غمزے
حسینوں کا بھی اب لشکر ہے بدلا
زندہ رہنے کے لئے تھوڑی مسرّت چاہئے
اس سے پہلے ہے مگر لازم کہ صحّت چاہئے
اس جہانِ نفع و نقصان میں
بول بالا بھی فقط محنت کا ہے
نقصان خواہ آپ کا جتنا بڑا بھی ہو
ایمان و راستی کا تو سودا نہ کیجئے
غم نہیں اس کا محبت میں نہیں کچھ پاسکا
مطمئن اس پر ہوں میں نے کچھ گنوایا بھی نہیں
منصور خوشتر بلند بانگ دعووں کے عادی نہیں اور نہ ہی خواہ مخواہ کی جدیدیت
اپنے اوپر مسلط ہونے دیتے ہیں۔ لیکن عصری حسیت ان کی غزلوں میں موجود ہے۔
ان کو زمانے نے جو کچھ دیا ہے اسے انہوں نے اپنے فن میں ڈھال کر سماج کو
لوٹانے کی کوشش اور سچائی بتانے کی سعی کی ہے۔ ان کی غزلوں میں معنی آفرینی
اور خیال انگیزی دیکھئے
صفحۂ تاریخ پر وہ بن گیا نقشِ سیاہ
گلستاں کو جس نے پل بھر میں ہے ویرانہ کیا
پہلو یہ انسان کی فطرت کا ہے
آرزو مند وہ سدا دولت کا ہے
میں کسی کو چھوڑ دوں تیرے لئے
تجھ سے کچھ ایسی تو قربت بھی نہیں
محبت میں بھی ہم معیار کا کچھ پاس رکھتے ہیں
کسی حالت میں بھی خود داری کا سودا نہیں کرتے
مکاں اس دور میں پاکٹ ایڈیشن بنتے ہیں خوشتر
کوئی دالان، آنگن اور کوئی سائباں ہوتا
ہمارے اردگرد اندرونی اور بیرونی حرکی نظام عمل کی بنیادوں پر جو معاشرہ
فعال ہے وہ بہت پیچیدہ ہے۔ تغیر کا ئنات اور سماج کا منقلب ڈھانچہ ، ساکت
اور جامد اشیا کو بظاہر طاقت سے رونما ہونے والے حادثات اور واقعات کو اپنے
تیز دھارے میں بہالے جاکر عام نظروں سے اوجھل کر دیتا ہے، پھر تغیر اور
انقلاب کی موجوں سے گذر کر تماشہ کو دیکھنے کے لئے جس روشن ضمیری اور
مستقبل بیں شعور ودانش کی ضرورت ہوتی ہے وہ وجدان کی طلسماتی آنکھ نہیں
بلکہ مطالعہ مشاہدہ کرنے والا ذہن اور اشیا اور حادثات و واقعات کی متغیر
شکلوں اور رنگ روپ کو پہچاننے والی آنکھ ہوتی ہے۔ منصور خوشتر کی ذہنی،
فکری، جذباتی اور شعوری شرکت پر آمادگی ان کے شعور اور ادراک کائنات کی
کسوٹی ہے۔ یہی رویہ ان کے شعری، فنی اور فکری عمل کی قدر و قیمت کی وضاحت
کرتا ہے
چاند پر ہم بھی خریدیں گے جگہ
گھر بنائیں گے، بسائیں گے تجھے
اجنبی پر مت بھروسہ کیجئے
کر لیا تو جلد توبہ کیجئے
گر مجنوں کی آنکھ سے دیکھیں
سب سے اچھے کالے چہرے
ناز اور نخرے، شرم ، حیا
تیرے بھاؤ بڑھاتے دن
عشق تسلیم و رضا کا عالم
حسن اک جبر و جفا کا عالم
وقت جب کالج سے ہوگا لوٹنے کا آپ کے
منتظر بھی چوک ہی پر مجھ کو پائیں گے ضرور
ایک لعنت ہے یہ نئی تہذیب
کاش صحرا میں ہی مکاں ہوتا
منصور خوشتر کی غزلوں میں زندگی اور معاشرہ کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے
کا انداز ان کا اپنا ہے۔ اور اظہار میں تخیل و تصور اور آدرش سے زیادہ
تجربہ ، مشاہدہ اور حقیقت کا دخل ہے۔ |
|