اسلام آباد میں فوج طلبی کا فیصلہ....حکومت کی ناکامی؟
(عابد محمود عزام, karachi)
ایک ایسے وقت میں جب 14 اگست کو
تحریک انصاف نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کی تاریخ دے رکھی ہے، وفاقی حکومت
نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو تین ماہ کے لیے فوج کے حوالے کرنے کی
منظوری دے ڈالی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں
آئین کے آرٹیکل 245 کی ریکوزیشن کردی گئی ہے، اس آرٹیکل کے تحت اسلام آباد
فوج کے حوالے کردیا جائے گا، یکم اگست سے تین ماہ کے لیے فوج کو اختیارات
دیے گئے ہیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لانگ
مارچ سے متعلق ڈی سی اسلام آباد کو کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، درخواست
موصول ہونے کے بعد اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت
دینے کا فیصلہ وزیراعظم کی وطن واپسی پر ہوگا۔ اسلام آباد کو فوج کے حوالے
کرنے کی منظوری دینے کے بعد وفاقی حکومت پر مختلف حلقوں کی جانب سے سخت
تنقید کی جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اسلام
آباد میں فوجی طلبی کے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چودھری نثار
کا اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کا بیان افسوسناک ہے، اس بیان سے وہ
اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں، جن لوگوں سے ایک شہر نہیں سنبھل سکتا،
وہ ملک کیا سنبھالیں گے؟ عمران خان کو جلسہ کرنے سے روکا گیا تو جمہوریت کو
خطرہ لاحق ہوگا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ 14 اگست کے
آزادی مارچ سے قبل حکومت کو فوج طلب نہیں کرنی چاہیے تھی، موجودہ حالات میں
فوج کو بلانا سیاست میں ملوث کرنے کے برابر ہے۔ حکمران پریشان نہ ہوں
احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ مارچ کے لیے فوج بلانے والے خود بھی
تو لانگ مارچ کر چکے ہیں۔ پی پی پی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کی
جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت فوج کے
حوالے کرنے سے عالمی سطح پر پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال کا درست تاثر
نہیں جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا ہر معاملے میں سیکورٹی
اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاﺅ نظر آتا ہے، اس فیصلے سے سول اور فوجی انتظامیہ
میں تقسیم اختیارات میں مزید پیچیدگی آ جائے گی۔ فرحت اللہ بابر نے مسلم
لیگ (ن) کو میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیمو کریسی) کی یاد دہانی کرواتے ہوئے
کہا کہ میثاق جمہوریت کے آرٹیکل 32 سے 36 میں ان عوامل کا تذکرہ ملتا ہے،
جس میں سول اور فوجی انتظامیہ میں تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اسلام
آباد کو فوج کے حوالے کرنے سے غیر متوازن صورتحال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ
ہو سکتا ہے۔ فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی فیصلے سے ملک اور
عوام کے لیے سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اس سے یہ مطلب بھی اخذ کیا جائے گا
کہ سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہائی
کورٹ کا دائرہ اختیار بھی معطل ہو جائے گا، فیصلے فوجی عدالتوں میں ہوں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں آرٹیکل
245 کے تحت سول انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں فوج طلب کرنے کی مخالفت کی ہے۔
اسلام آباد کی صورتحال ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ خراب نہیں ہے، جس کے
لیے عدالتی دائرہ اختیار سے باہر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو طلب کیا جائے۔
حکومت نے فوج کو طلب کر کے ناکامی کا ثبوت دیا ہے، اگر آرٹیکل 245 کے تحت
آج اسلام آباد میں فوج طلب کی جا رہی ہے تو کل کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور
حتی کہ پورا ملک فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور عملی طور پر ہائی کورٹس
معطل ہو جائیں گی۔ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے ہی بہت خراب ہے،
ایسے میں شہریوں کے لیے ہائی کورٹس کے دروازے بند ہونے پر صورتحال مزید بگڑ
جائے گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق سول انتظامیہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب
تو کر سکتی ہے، لیکن اسلام آباد میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کی طلبی
کے بعد متعلقہ علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہائیکورٹ کے
اختیارات معطل ہو جائیں گے۔ آرٹیکل 245 میں واضح طور پر درج ہے کہ فوج کی
طلبی سے متعلق وفاقی حکومت کی جاری شدہ کسی ہدایت کو کسی عدالت میں زیر
اعتراض نہیں لایا جائے گا اور ہائیکورٹ کسی ایسے علاقے میں جہاں آرٹیکل 245
کے تحت مسلح افواج، شہری حکام کی مدد کے لیے کام کر رہی ہوں، آرٹیکل 199کے
تحت کوئی اختیار سماعت استعمال نہیں کرے گی اور اگر ہائیکورٹ میں ایسی کوئی
پٹیشن زیر سماعت بھی ہو تو فوج کی موجودگی تک اس پر عدالتی کارروائی معطل
رہے گی۔ جہاں تک آرٹیکل 199 کا تعلق ہے، اس میں بھی ایسے تمام مقامات جہاں
شہری نظم و نسق آرٹیکل 245 کے ذریعے مسلح افواج کے سپرد کیا جائے گا۔
عدالتی اختیارات کو محدود کیا گیا ہے۔ فوج کے احکامات کو عدالت میں چیلنج
نہیں کیا جا سکے گا اور عدالت کسی درخواست پر فوج کو کام کرنے سے روکنے کے
لیے حکم امتناعی جاری نہیں کر سکے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 245 کے
نفاذ سے فوج کو اسلام آباد کی سیکورٹی کے لیے غیر معمولی اختیارات ملیں گے
اور جب تک فوج 245 کے تحت تعینات رہے گی بنیادی شہری حقوق عملی طور پر معطل
رہیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گورنر جنرل ملک غلام
محمد نے 1935 کے ایکٹ کے تحت حاصل کردہ اختیار استعمال کرتے ہوئے سول
انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کر کے لاہور میں سول ایمرجنسی کا نفاذ کیا
تھا، اس ایمرجنسی کے نفاذ کے پورے تین ماہ بعد ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا
تھا۔ اب دوسری بار یکم اگست سے فوج کو ایک بار پھر اسی آرٹیکل کے تحت بلایا
جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں فوج طلبی کا فیصلہ ایک ماہ
قبل وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا تھا، جس کی وزیراعظم نوازشریف،
بیشتر وفاقی وزرا سمیت مسلم لیگ ن کے کئی سینئر رہنماﺅں نے مخالفت کی تھی،
مگر چودھری نثار اور میاں شہباز شریف نے وزیراعظم کو اس حوالے سے قائل کیا۔
فوج کی دارالحکومت میں موجودگی کے حوالے سے حتمی حکمت عملی14 اگست کے مارچ
کے بعد تشکیل دی جائے گی۔ آزادی مارچ کے پرامن طور پر منتشر ہونے کی صورت
میں آرٹیکل 245 کا شہر میں نفاذ ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ وگرنہ تاحکم ثانی
برقرار رہے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں سلامتی کی ذمہ داریاں
فوج کو دینے کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب حزب مخالف کی جماعت تحریک
انصاف نے مئی 2013ءکے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 14 اگست کو
اسلام آباد میں ایک بڑی احتجاجی ریلی کا اعلان کر رکھا ہے، جس سے واضح ظاہر
ہوتا ہے کہ حکومت کو عمران خان کی طرف سے کافی سیاسی دباؤ ہے، حکومت اسلام
آباد میں فوج کو بلا کر یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے، اس
لیے کوئی حکومت کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اگرچہ تحریک انصاف کے مرکزی صدر
جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ حکومت کے اسلام آباد میں فوج کو طلب کرنے سے ان
کے لانگ مارچ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر
آرٹیکل 245 کا اطلاق رہا تو عمران کا جلسہ نہیں ہوسکے گا، کیونکہ لا اینڈ
آرڈر متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ عمران خان نے پہلے ہی اعلان کیا ہے وہ
پارلیمنٹ اکھاڑنے جارہے ہیں۔ یہ امن و امان کا ایک سنجیدہ ایشو بن رہا ہے۔
یہ ایک منی مارشل لا ہے اور اسے کسی قانونی جواز کی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب
ہے کہ عدالت اس معاملے کو ہاتھ نہ لگائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسلام آباد
کو فوج کے حوالے کرنا سول انتظامیہ کی ناکامی ہے، اگر تین ماہ کے لیے شہر
کو فوج کے حوالے کرنا ہے تو وہاں کی سول انتظامیہ کی تنخواہیں اتنے عرصے کے
لیے بند کر دی جائیں۔ کیا یہ گورننس ہے کہ شہر نہیں چل رہا تو اسے فوج کے
حوالے کر دیا جائے؟ اس کا مطلب ہے کہ سول گورننس پر حکومت کو شکوک ہیں کہ
وہ تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔
|
|