شاید کچھ پڑھنے والے اس لفظ خمر
کو نہ سمجھ سکیں مگر جب اس لفظ خمر کو ترجمہ کر کے اردو میں شراب لکھ دوں
تو تقریبا سب پڑھنے والے اس سے واقف ہونگے۔۔ایک یار باش کے مطابق(کیونکہ
الحمدلاﷲ میرا اس شے ناپاک سے آج تک دور کا بھی واسطہ نہیں پڑا ہے) شراب کی
ویسے تو کئی قسمیں ہوتی ہیں مگر پاکستان میں تین قسمیں مشہور ہیں پہلی قسم
جسے اسکاٹ لینڈ کی بنی ہوئی شراب کہا جاتا ہے جسے پینے کے بعد یہ پینے والے
کو سرور بخشتا ہے جب پینے والا مسرور ہوجاتا ہے تو آس پاس کے لوگ بھی سکون
محسوس کرتے ہیں ، دوسری قسم کی شراب جسے راولپنڈی کی شراب کہی جاتی ہے جسے
پینے کے بعد پینے والا مسرور ہونے کے بجائے مدہوش ہوجاتا ہے اور اس مدہوشی
کے عالم میں وہ کیا کہ رہا ہوتا ہے یا کیا کر رہا ہوتا ہے اسے اس سے کوئی
سروکار نہیں ہوتاہاں اس چیز کی بھی اسے کو ئی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے افعال
و اعمال سے آس پاس کے لوگ کس حد تک متاثر ہیں؟؟ تیسری قسم کی جو شراب ہوتی
ہے جسے دیسی (Home made)یا حرف عام میں (ٹھرا) کہا جاتا ہے جسے پینے کے بعد
پینے والا مدہوشی کا درجہ(Level)پار (cross)کر کے بے ہوشی کے قریب پہنچ
جاتا ہے اس کو پینے کے بعد پینے والا اکثرآسمان سر پر اٹھا لیتا ہے بعض
اوقات آسمان سر پر اٹھاتے اٹھاتے پینے والاخود بھی آسمان پر اٹھ جاتا ہے۔
اگر اسی خمر کا موازنہ اقتدار کے یا انقلاب کے خمر سے کیا جائے تو کچھڑی
ضرور بن جائیگی کیونکہ۔۔۔
اگر اقتداری شراب کا نشہ ڈوھونڈنا ہو تو اسکاٹ لینڈ والی شراب کی مثال
پرسکون مغربی جمہوریت کی لی جاسکتی ہے کیونکہ وہاں ہر دور اقتدار کے بعد پر
امن انتقال اقتدار ہوتا ہے جس کے باعث عوام اور حکمران پر سکون رہتے ہیں
اور اپنی جمہوریت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں(میں ہرگز مغربی جمہوریت کے حق
میں نہیں ہوں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنی جمہوریت سے کچھ نہ کچھ فائدہ
اٹھا رہے ہیں) اگر اقتدار کا شراب راولپنڈی والی ہو تو نتیجہ پھر ہماری
ٹوٹی پھوٹی مشرقی جمہوریت بن جاتی ہے جسے ہم جمہوریت سمجھتے ہیں ویسے پتا
نہیں یہ کیا ہے؟ جہاں زور و شور سے اپنے سر پھاڑ کر ووٹ ڈال کر ایک حکومت
لاتے ہیں پھر چند دن بعد اسی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں۔جہاں
الیکشن سے پہلے چوہدری یا وڈیرے کے خلاف کوئی بات کرے تو لڑ پڑتے ہیں اور
الیکشن کے بعد اگر کوئی چوہدری یا وڈیرے کے حق میں بات کرے تو لڑپڑتے ہیں۔۔
اگر اقتدار کا نشہ بھی دیسی ہو تو پھر نتیجہ راجہ پرویز اشرف اورعابد شیر
علی کے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے ہوتے ہیں یا ایک سابقہ صوبائی وزیر اعلی
کا جعلی اور اصلی ڈگری میں فرق نظر نہیں آنا ہوتا ہے یا پھر ایم کیو ایم کا
بار بار عوامی مفادات میں حکومت سے نکلنا اور پھر ایک دو دن بعد پھر عوامی
مفادات میں حکومت میں شامل ہونا ہوتا ہے یاپھر اس دیسی نشے میں ہمارے آزاد
امیدواران الیکشن جیتنے کے بعد خود کو آزا د نہیں رکھ پاتے ہیں اور فورا
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو مناسب سمجھتے ہیں۔
اب آئیے انقلابی خمر پر بھی نظر دوڑاتے ہیں انقلاب تو ماؤزے تنگ اور خمینی
نے بھی لایا تھا( خمینی کا انقلاب اسلامی تھا یا غیر اسلامی وہ ایک الگ بحث
ہے مگر انقلاب تھا کیونکہ انقلاب کسی معاشرے کے مکمل سماجی ڈھانچے کی از سر
نو تشکیل کا نام ہے) چین اور ایران میں انقلاب بھی آیاتبدیلی بھی آئی لوگوں
نے آنند بھی لیااور لے بھی رہے ہیں ان انقلابات کے نشے کو اسکاٹ لینڈ والی
خمر سے تشبیح دی جاسکتی ہے کیونکہ کچھ تکلیف بھی ہوئی مگر تبدیلی بھی نظر
آیا مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج کل کچھ نئی قسم کے انقلابات بھی پائے
جاتے ہیں جیسے سونامی نامی انقلاب جو الیکشن سے پہلے بھی کئی بار آتے آتے
بچ گیا تھالیکن الیکشن کے قریب آتے ہی یہ انقلاب بیلٹ(ووٹ) کے ذریعے لانے
کی باتیں ہونے لگیں اب اسے بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ پورے پاکستان میں
بذریعہ بیلٹ انقلاب تو نہیں آسکا مگر پشاور میں انقلاب نظر آیا تھا لیکن
گزشتہ ایک سال سے وہاں بھی انقلاب غیر حاضر ہے ۔پھر یہ انقلاب ایک انقلابی
شیخ(شیخ رشید) کی قربت سے اور مضبوط ہوگیامگر کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر
کچھ عرصے کیلئے خاموش رہی اور انقلابی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو
مدتیں دیتا رہا کہ وہ چار نشستوں پر ووٹوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کریں تاکہ
انقلاب کو منسوخ کیا جاسکے مگر حکومت نے ہٹ دھرمی سے کام لیا تو ابھی سنا
ہے کہ یہی انقلاب کچھ دوسرے انقلابوں کے ساتھ مل کر کچھ دن بعدپھر آرہا ہے
دوسرے انقلاب سے یاد آیا کہ اک اور انقلاب بھی ہے یہاں جو کینیڈا سے آتا ہے
اور کسی کنٹینر کے اندراک انقلابی جھلک دکھا کر واپس کینیڈا چلا جاتا ہے۔
مگر یہ انقلاب اس دفعہ واپس نہیں گیا ہے اور مستقبل قریب میں سونامی نامی
انقلاب کے ساتھ مل کر انقلابی دنگل سجانے والا ہے اور یہ انقلاب بھی اکیلا
نہیں ہے اس کے ساتھ کچھ انقلابی چوہدری بھی ہیں۔ ذرا اک نظر ادھر بھی
کیونکہ ایک اور انقلاب بھی پایا جاتا ہے جو لندن سے ٹیلی فون پر آنے کی بات
کیا کرتا ہے کہ اس کے آنے سے پہلے ہی ہمارے میڈیا پر اس کے خلاف انقلاب
آجاتا ہے بس اسی سبب یہ انقلاب بھی بار بار اعلان کے باوجود تاحال نہیں
آسکا ہے ہاں کچھ عرصہ پہلے اس انقلاب کے خواجہ(مالک) نے بھی آنے کوشش کی
تھی مگر ستم ظریفی کی حدہوئی کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈنہیں مل سکا اور
گرفتار اور پھر رہا بھی ہوگیا پھر اس کے بعد یہ انقلاب تاحال تو خاموش ہے
نہ جانے کب اچانک پھر آنے کی بات کرتا ہے؟؟؟ ایک اور انقلاب ہمارے ہاں فٹ
پاتھوں پر بھی ہوتا ہے کیونکہ فٹ پاتھ پر دوائی بیچنے والے حکیم کے بینر پر
بھی لکھا ہوتا ہے کہ مردانہ کمزوری سے پریشان حضرات ہمارے کورس کے استعمال
کے بعد پائیں انقلابی مردانہ طاقت۔۔۔۔ اب آپ بتائیں کہ ان انقلابات کا اور
ان کے نشے کا موازنہ راولپنڈی والی خمر کے نشے سے کریں یا دیسی ٹھرا کے نشے
سے؟؟؟
ویسے بقول احمد فراز
ہر ایک صاحب منزل کو بامراد نہ جان
ہر ایک راہ نشین کو شکستہ پا نہ سمجھ |