غزہ میں اسرائیلی جارحیت !
(Hafiz Muhammed Faisal Khalid, Lahore)
آج کا یہودی اس بات کا دعویدار
ہے کہ فلسطین پرصرف ا سکا حق ہے اور یہ علاقہ یہودیوں کی وراثت کا حصہ
ہے۔مگر جب تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو حقائق اسکے بالکل بر عکس ملتے
ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جسے خلافت عمر فاروق ؓ کے دور میں فتح کیا گیا۔چوتھی
صدی ہجری میں یہاں مغربی طاقتوں نے قدم جمائے اور بیت المقدس کو فتح
کرلیا۔مگر 90سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے اس
علاقہ کو فتح کر کے فرنگیوں کو شام کے ساحل سے ہمیشہ کیلئے مار بھگایا۔اس
کے بعد یہ لوگ عرصہ دراز تک اس خطے کومیلی نظر سے دیکھتے رہے مگر کچھ حاصل
نہ ہوا۔البتہ 19ویں صدی میں فرنگیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے یہودیوں
کو بھرپور انداز میں استعمال کیااور قیام اسرائیل اور خلافت عثمانیہ کو
سبوتاژ کرنے کے عمل کی مکمل طور پر سر پرستی کی۔1917میں برطانیہ اور اسکے
اتحادیوں کی جانب سے اعلان کیاگیاکہ فلسطین یہودیوں کو ملنا چاہئیے۔چناچہ
یہیں سے قیام اسرائیل کی کاوشوں کابا قاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
1948میں ایک امریکی ریاست کے جج نے خیانت کے علمبردار کے نام سیایک کتاب
لکھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ1897میں ہونے والی پہلی عالمی صہونی
کانفرنس میں لیگ آف نیشنز کا تصور ایک با قاعدہ طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ
پیش کیا گیاتھاکہ بالترتیب چند طے شدہ اقدامات کے بعد عالمی ادارہ وجود میں
لایا جائے گا۔
چناچہ ایسا ہی ہوا۔اقوام متحدہ کے قیام کے کچھ ہی دیر بعد 1947میں فلسطین
کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس
سارے عمل میں دو باتیں بڑ ی دلچسپ تھیں۔نمبر ایک تو یہ کہ رائے شماری کے اس
عمل میں چند مخصوص ممالک کو ووٹ کا حق دیا گیا۔مگر اس ساری حکمت عملی کے
باوجود یہ قرارداد اتنی بے رحمانہ تھی کہ اسکے حق میں تین جبکہ اس کے مخالف
پانچ ووٹ پڑے۔چناچہ تاریخ کی بد ترین دھاندلی کرتے ہوئے اوراس رائے شماری
کے طے شدہ قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے اس رائے شماری میں فلپائن،
ہنگری جیسے غریب مما لک کو شامل کیا گیا اور ان پر اسرائیل کے حق میں ووٹ
دینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا جسکے عوض ان ممالک کی حکومتوں کو مالی امداد سے
بھی نوازہ گیا اور اس طرح قیام اسرائیل کی قرارداد کو منظور کیا گیا۔
دوسری دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت فلسطین میں مقامی مسلمانوں کی تعداد
94ویں فیصد تھی جبکہ صرف 6فیصد یہودی آباد تھے۔مگر قرارداد کے بعد جب تقسیم
کا اعلان کیا گیا تو اس کے مطابق فلسطین میں آباد یہودیوں کواس ملک کا 55
فیصد حصہ دیا گیااور واضع اکثریت میں موجود مسلمانوں کو 45فیصد حصہ دیا گیا۔
اوراس طرح 4مئی 1948کو باقاعدہ طور پہ اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا
گیاجسکے دس منٹ بعد امریکہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔1948میں جب فلسطین
کی جگہ اسرائیل قائم ہوا تو اس کا کل رقبہ 7993مر بع میل تھا مگر یہودیوں
نے اس پر اکتفاء نہ کیا اور ارد گرد کی مسلمان ریاستوں پر حملہ آور ہوتے
رہے جسکے نتیجہ میں انہوں نے شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔اس کے
علاوہ 5 جون 1968کو اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقس پر بھی قبضہ
کر لیا۔
قیام اسرائیل سے لے کر آج تک مسلمانان فلسطین کے ساتھ جو ظلم و بربریت ہو
رہا ہے وہ کسی سے ڈھکہ چھپہ نہیں۔اور اسرائیل کی جانب سے حالیہ دہشتگردی
اور غزہ میں مسلمانوں کاقتل عام اسی سلسلہ کا تسلسل ہے جوقیام اسرائیل کے
ساتھ ہی مغربی اور مسلمان دشمن قوتوں کی سر پرستی میں شروع کر دیا گیا جو
کہ آج تک جاری ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حالیہ حملے اسی سلسلہ کی ایک
کڑی ہیں۔ او ر اب تک ایک محدود اندازے کیمطابق اسرائیل کی جانب سے ا ان
حالیہ حملوں میں600سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 3600سے زائد افراد زخمی ہو
چکے ہیں جن میں مرد و زن،بچے اور بووڑہے بلا تمیز سب شامل ہیں۔اس کے علاوہ
کئی مساجد اور تفریح گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔سرکاری املاک اور
ہسپتالوں کو بھی بری طرح نشانہ بنایا گیا۔غرض کہ اسرائیل نے مسلمانان غزہ
پر ظلم و بر بریت کی جو امثال قائم کی ہیں انکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں
ملتی۔انسانیت کو جس انداز میں روندہ جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔انسانی
حقوق کو جس انداز میں پامال کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکہ چھپا نہیں۔
آج فلسطین کی گلی گلی میں ماوئں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کیا جا
رہا ہے معصوم بچوں کو اس طرح مارا جا رہا ہے کہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں
ملتی۔نوجوانوں کو اس طراح سر عام قتل کیا جارہا ہے جیسے ان کاکوئی وارث ہی
نہ ہو۔میں پوچھتا ہوں آج انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبرداراس درندہ گی پہ
خاموش کیوں ہیں؟فلسطین میں حوہ کی بیٹی کی بے حرمتی پر عاملی ادارے برائے
تحفظ حقوق نسواں سراپہء احتجاج کیوں نہیں؟ غزہ میں شہید ہونے والے ہر
نوجوان کا بوڑھا باپ آج اس بات کا منتطر ہے کہ کیاکبھی کوئی اس کے لخت جگر
کے قتل عام کے خلاف بھی کوئی آواز اٹھا ئے گا؟
آج ہر آدمی کے دل میں یہ سوال کانٹے کی طراح چبھ رہا ہے کہ کیا اسرائیل جو
کچھ فلسطین میں کر رہا ہے وہ دہشتگردی نہیں؟کیا انسانوں کے ساتھ جانوروں
جیسا برتاؤ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟کیا کبھی کسی نے ان نہتے،بے یار
و مددگار انسانوں کا بھی سو چے گا کسی جو یہودیوں کی درندہ گی کا شکار ہو
رہے ہیں؟آج عالمی برادری اس اسرائلی جار حیت پر چپ کیوں ہے؟دنیا میں قیام
امن کیلئے کام کرنے الے ادارے آج اکہاں سو گئے ہیں؟
انسانی حقوق کے تحفظ کا رونہ رونے والو!آج فلسطین میں انسانی حقوق کو سر
عام پامال کیا جا رہا ہے،آج تمھاری زبانوں کو تالے کیوں لگ گئے ہیں؟چائلڈ
رائٹس کی آڑ میں اپنے مفاداد حاصل کرنے والو!آج فلسطین کا ہر بچہ تم سے
سوال گو ہے کہ فلسطین میں معصوم بچوں کے قتل عام پر تم سراپہ احتجاج کیوں
نہیں؟حقوق نسواں کا شور مچانے والو!آج فلسطین میں حوہ کی بیٹی کودرندوں کی
طرح کاٹا جا رہا ہے، آج اس ظلم پر تمھاری آواز پست کیوں ہے؟
آج اسلامی ممالک کے سربراہان کہاں کھو گئے ہیں؟کیا کسی مسلمان لیڈر کو بھی
کبھی توفیق ہو گی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی سنجیدہ عملی
اقدامات کرے ؟کیا کبھی عیاشی میں مگن عرب ممالک کے سربراہان بھی فلسطین میں
مسلمانوں کیقتل عام خلاف آواز اٹھائیں گے؟ شایدنہیں۔ ایسا کوئی نہیں کرے گا۔
کیونکہ ان لوگوں کی مجرمانہ خاموشی انکی سوچ اور انکے ارادوں کی عکاس ہے۔
اور اس ساری صورت حال کے پیش ِ نظر آخر میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ
رہا ہے کہ فلسطین کے اشو پر عالمی برادری اور عالمی اداروں کی خاموشی ان کے
ارادوں کی مظہرہے۔اور یہ سب لوگ بشمول اسلامی مما لک اس میں برابر کے شریک
ہیں ۔او ر شرمناک بات یہ ہے کہ اب اگر اس برے وقت میں اسرائیلی ظلم و بر
بریت کے جواب میں اگر کسی مسلمان قوت نے مسلمانان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے
اور اسرائلی دہشتگردی کا جواب دینے کا اعلان کیا تو ہمیشہ کی طرح ا سکو ایک
ہی لقب سے نوازہ جائے گا اور وہ لقب ہے دہشتگرد۔ |
|