ہماری باری کب آئے گی؟
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
سندھ اسمبلی کی ڈپٹی
سپیکرمحترمہ شہلارضانے بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑتے ہوئے کہہ دیاکہ ’’NROمیں طے
پایا تھا کہ پاکستان میں تین عام انتخابات تک مارشل لاء نہیں لگے گا۔اِس
معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت امریکہ،برطانیہ،متحدہ عرب امارات اورخود فوج
نے دی تھی‘‘۔اِس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے پرویزمشرف کے
بارے میں معاہدے کا انکشاف کرکے اپنی ہی پارٹی کو’’وَخت‘‘میں ڈالے رکھا
اوراب شہلا رضا نے دھماکہ کردیا۔گیلانی صاحب کے بارے میں تو پتہ نہیں لیکن
شہلا رضا نے جو کہا سچ کہا کیونکہ خواتین’’جھوٹ‘‘کم کم ہی بولتی ہی۔اُن کے
جھوٹ بھی بہت معصومانہ ہوتے ہیں،مثلاََاگرسالن میں غلطی سے دوبار نمک ڈَل
جائے تویہ کہہ دیناکہ اب کی بار’’مُوا‘‘نمک ہی خالص آگیا ہے یا پھرچولہے پہ
ہنڈیاجَل جائے تو محکمہ سوئی گیس کو کوسنے دینے بیٹھ جاناکہ یکلخت گیس کا
پریشرزیادہ کرکے ہنڈیاجلا دی۔بڑے بڑے جھٹ بولنا مَردوں کا شیوہ ہے۔ہمارے
رہنماجب الیکٹرانک میڈیا پہ بیٹھتے ہیں تواتنی لمبی لمبی چھوڑتے ہیں کہ بے
ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔شہلا رضا ایک تو خاتون ہیں اور دوسرے پیپلزپارٹی
کی ’’جیالی‘‘اِس لیے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے سچ کہا ہے۔اب پیپلز
پارٹی لاکھ’’رَولا‘‘ڈالے کہ شہلا رضا کا بیان غلط،گمراہ کُن اور حقائق کے
منافی ہے لیکن سانپ تو نکل گیا،لکیر پیٹنا کارِبیکار۔نواز لیگ والے بغلیں
بجا رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھرNROکی’’کڑکی‘‘میں پھنس گئی اور وہ
بھی اپنی ہی’’جیالی‘‘کے ہاتھوں۔یوں تونوازلیگ کا این آر اوسے دورکا بھی
واسطہ نہیں تھا لیکن یہ ضرور ہواکہ جب محترمہ بینظیرشہیدکواسی این آراوکے
تحت پاکستان میں داخلے کی اجازت ملی تومیاں برادران کی پاکستان آمدکی راہیں
کھُل گئیں۔اُس وقت پرویزمشرف نے زورتو بہت مارا کہ میاں فیملی پاکستان نہ
آسکے لیکن سعودی شاہ نے یہ کہہ کر صاف انکارکر دیاکہ اگربینظیرصاحبہ
پاکستان جا سکتی ہیں توپھرمیاں برادران کوروکنے کا بھی کوئی جوازنہیں۔
میاں برادران بھی’’میثاقِ جمہوریت ‘‘کے تحت جانتے ہی ہونگے کہ’’آقاؤں‘‘نے
جمہوریت کو فقط پندرہ سال دیئے ہیں۔اسی طرح ہمارے کپتان صاحب کوبھی سابق
آئی ایس آئی چیف جنرل احمد شجاع پاشا نے بتلا دیا ہو گاکہ’’وقت کم ہے اور
مقابلہ سخت‘‘۔ اسی لیے ہمارے کپتان نوازلیگ کے’’ترلے‘‘کرتے رہے کہ’’میاں جی
ہُن جان دیو،ساڈی واری آن دیو‘‘۔شایداُن تک بھی یہ خبرآن پہنچی ہوگی کہ اب
نوازلیگ کی باری ہے اسی لیے وہ ہمیشہ اپنا سارا زورنوازلیگ پر ہہی صرف کرتے
رہے ۔ویسے ہم’’سونامیوں‘‘کے آنگن میں بھی اقتدارکے پھولوں کی بہارآجاتی
اگرجنرل پاشا کومدت ملازمت میں توسیع مل جاتی۔پیپلزپارٹی توتوسیع کے لیے
تیارتھی لیکن سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی آڑے آگئے اورہمارے خواب
ادھورے رہ گئے۔چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری سے توکپتان صاحب نے اُن کی
ریٹائرمنٹ کے بعدپوچھ لیا کہ’’وہ کتنے میں بِکے؟‘‘لیکن جنرل کیانی کے بارے
میں تا حال خاموش ہیں حالانکہ ریٹائروہ بھی ہوچکے ہیں اورہماری وزارتِ عظمیٰ
کے خوابوں کو چکنا چورکرنے والے بھی وہی۔بس ایک فوج ہی باقی بچی ہے جس
پرخاں صاحب نے الیکشن میں دھاندلی کاالزام نہیں لگایالیکن اب شاید یہ الزام
بھی لگ جائے کیونکہ نوازلیگ نے یکم اگست سے تین ماہ کے لیے اسلام آباد
کوآرٹیکل245کے تحت فوج کے سپرد کر دیا ہے۔اب اسلام آباد کی حفاظت فوج کی
ذمہ داری ہے اور فوج اِس سلسلے میں جو بھی قدم اٹھائے اُسے پاکستان کی کسی
بھی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔اُدھرہمارے خاں صاحب تخت گرانے اور
تاج اچھالنے کا ارادہ باندھ کر14 اگست کوعازمِ اسلام آباد ہونے والے ہیں۔اب
تحریکِ انصاف کا مقابلہ نوازلیگ نہیں فوج کے ساتھ ہے۔اِس کے باوجودہمیں
یقین ہے کہ ہمارے کپتان کے بڑھتے قدم کوئی روک نہیں سکے گا اورہمیں بھی یہ
کہنے کا موقع مِل جائے گا کہ 2013ء کے الیکشن کی دھاندلی میں فوج بھی
برابرکی شریک ہے اورہم فخر سے یہ کہہ سکیں گے کہ’’سارے رَل کے سانوں پے گئے
نیں‘‘۔
شہلا رضا کے اِس انکشاف کے بعدیہ عقدہ بھی وا ہوا کہ ہم’’ایویں خواہ
مخواہ‘‘آمروں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے حالانکہ وہ بے چارے تو’’آقا‘‘کے
حکم پرہی سرِ تسلیم خم کیا کرتے رہے اوراب چونکہ آقا کا حکم ہے کہ تین عام
انتخابات تک ’’بی بی جمہوریت‘‘سے چھیڑچھاڑنہیں کرنی اِس لیے مارشل لاء کا
بھی کوئی خطرہ نہیں۔اِس معاہدے کے تحت صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے
کہ’’باریوں‘‘کی اِس تقسیم میں پہلی باری پیپلزپارٹی،دوسری نوازلیگ اورتیسری
پھرپیپلزپارٹی۔جنابِ آصف زرداری کو یہ خطرہ تھا کہ اگر عین موقعے پر امریکہ
نے بھی کہہ دیا کہ’’وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے‘‘تو پھراُنکا کیا بنے
گا۔اسی لیے وہ حفظِ ما تقدم کے طورپرتجدیدِ عہدکی خاطر قبل از وقت ہی
امریکہ جا بیٹھے۔لیکن امریکی تو’’قول کے سچے‘‘اورکھَرے لوگ ہیں اِسی لیے
اُنہوں نے نہ صرف تجدیدِعہدکیا بلکہ صدر نہ ہوتے ہوئے بھی جنابِ زرداری کو
صدارتی پروٹوکول دیا اور ازراہِ تفنن بھی اُن سے یہ تک نہیں پوچھا کہ اُن
کے نزدیک ’’وعدوں کی حقیقت‘‘کیا ہے۔اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھرسوال پیدا
ہوتا ہے کہ’‘ ساڈی واری کِتھے گئی؟‘‘۔ہمارے کپتان صاحب اچھی طرح سے جانتے
ہیں کہ پیپلزپارٹی اتنی وسیع ظرف نہیں کہ حکومت سونامیوں کے سپردکردے۔اسی
لیے وہ نوازلیگ سے حصولِ حکمرانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یوں تومیاں برادران
وسیع الظرف ہیں ہی لیکن اتنے بھی نہیں کہ اپنی باری کا ہی’’جھٹکا‘‘کروا
دیتے۔پھربھی اُنہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے حکومت میں خیبرپختونخوا نامی
ایک چھوٹا سا’’داغدار‘‘حصّہ خاں صاحب کے سپردکرکے یہ ثابت کردیا کہ اُنہیں
مِل بانٹ کر کھانے کی عادت ہے۔ویسے یہ عادت بھی جَلاوطنی کے بعدہی پیدا
ہوئی،پہلے تووہ اقتدارکی’’ریوڑیاں‘‘آپس میں ہی بانٹ لیا کرتے تھے۔نوازلیگئے
کہتے ہیں کہ اُنہوں نے توخاں صاحب کوخیبرپختونخوا کی حکومت اِس لیے دی تھی
کہ وہ’’آدابِ سلطانی‘‘سیکھ سکیں تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے لیکن خاں صاحب کو
تو جلدی ہی بہت ہے۔ہم کہتے ہیں کہ جلدی کیوں نہ ہو،اگر نوازلیگ پانچ سال
پورے کرگئی توپھرہماری باری تو کبھی نہیں آئے گی۔اسی لیے خاں صاحب نے
بَرملا کہہ دیا ہے کہ وہ 14 اگست کواسلام آبادمیں ٹونٹی،ٹونٹی نہیں،ٹیسٹ
میچ کھیلنے جا رہے ہیں اورواپس تبھی لوٹیں گے جب’’تاجِ سلطانی‘‘اُنکے سر
پرہوگا۔ |
|