شدت پسند تکفیری گروہ
جوعراق کو خارجی اسٹیٹ بنانا چاہتا ہے
رواں سال جنوری میں اچانک عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بننے والے شدت پسند
سلفی تکفیری گروہ ”داعش“( ISIS) نے گذشتہ دنوں عراق و شام کے مفتوحہ علاقوں
میں اپنی خلافت کا اعلان کرتے ہوے ابو بکرالبغدادی کو ’ابراہیم“ کے لقب سے
خلیفہ نامز کردیا،داعش وہ شدت پسند تنظیم ہے جو پچھلے دس برسوں سے القاعدہ
کے زیر سایہ کام کر نے والی دیگر تنظیموں میں شامل رہی ہے،مگریہ قدرے غیر
معروف تنظیم رہی،جس کی وجہ سے بہت کم لوگ اِس کے بارے میں جانتے تھے،لیکن
رواں برس جنوری میں یہ تنظیم اُس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی جب
یکے بعد دیگر ے کئی اہم عراقی علاقے”داعش“ کے جنگجوؤں کے قبضے میں آگئے اور
داعش بغداد کے دہانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی،آج جس تیزی سے یہ خارجی
عقائد پر مبنی تکفیری گروہ عراق میں پیشقدمی کر رہا ہے،اُس نے عراق کے
ہمسایہ ممالک میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں ، سعودی عرب،قطر، کویت
اوراردن کے حکمران پریشان ہیں کہ مبادا یہ طوفان کہیں اُن کی سرحدوں کا رخ
نہ کرلے۔
جہاں داعش کی پیش قدمی اور برق رفتاری سے اہم عراقی علاقوں اور تنصیبات پر
کنٹرول نے عراق اور اُس کے ہمسایہ ممالک کو سب سے بڑے خطرے سے دوچار کردیا
ہے،وہیں اِس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور طاقت کئی اہم سوالات کو بھی جنم
دیتی ہے ، جیسے کہ داعش کا اصل تعارف کیا ہے۔؟ اِس گروہ میں شامل لوگ کون
ہیں ۔؟ اِس کے اصل اہداف کیا ہیں ۔؟ آخراِس شدت پسند تکفیری گروپ کے پاس
ایسی کون سی طلسماتی چھڑی ہے جس نے بلک جھپکتے عراق کا ایک چوتھائی حصہ پکے
ہوئے پھل کی ماننداِس کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔؟ کیاواقعی یہ گروہ مادی اور
دفاعی اعتبار سے اِس قدرطاقتور ہے کہ شام اور عراق کی فوجیں بھی اِسے شکست
نہیں دے سکتیں ۔؟اِن سوالات کے ساتھ سب سے اہم سوال یہ بھی ہے کہ ایک ایسا
خارجی گروہ جو اپنے مخالفین کو کافرومشرک قرار دے کر اُن کا خون مباح جانتا
ہے کا وسیع پیمانے پر جدید فوجی ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس ہو کر ایک
خطرناک ترین دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہونا ،کن خفیہ طاقتوں کی پشت پناہی کا
مرہون منت ہے۔؟ بالفاظ دیگر داعش ایک خود رو نظریاتی تنظیم ہے یا پھر اِس
کے پس پردہ کوئی خفیہ طاقت موجود ہے۔؟
آیئے زیر نظر گفتگو میں داعش کا تعارف ،حدود اربعہ واہداف اور مندرجہ بالا
سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔خارجی دہشت گرد تنظیم ”داعش“
چار حروف کا مرکب ہے، جو ”دولت اسلامیہ عراق وشام“ کا اختصار ہے، انگریزی
میں اِسے”Iraq Syria Islamic State“ یعنی مختصراًISIS کے نام سے جانا جاتا
ہے، اس کی بنیادالقائدہ کی فکر سے متاثر کچھ شدت پسندوں نے 15 اکتوبر
2006ءکو بغداد میں رکھی اور ابو عمر البغدادی اِس تنظیم کا پہلا سربراہ
مقرر ہوا۔اُس وقت ”داعش“ کے قیام کا بنیادی مقصد عراق اور شام کے کچھ
علاقوں پر مشتمل خارجی عقائد پر مبنی ایک نام نہاد خارجی ریاست کا قیام
تھا،تنظیم کے کرتا دھرتاؤں کے نزدیک عراق اور شام کی 1932ءمیں قائم کردہ
حدود بے معنی تھیں او ر وہ دونوں ممالک کو ایک ریاست میں ضم کرنے کیلئے
کوشاں تھے،آغاز میں تنظیم کا ڈھانچا، وسائل اور افرادی قوت صرف عراق کے چند
علاقوں تک محدود تھی۔
مگر 19 اپریل2010ءکو جب داعش کا سربراہ ابو عمر البغدادی ایک میزائل حملے
میں مارا گیا، تو ابو بکر البغدادی کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا،جس
کا اصل نام _”ابراہیم عواد ابراہیم علی البدر“ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
ابوبکرالبغدادی کے ابوعمرالبغدادی کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے، جس کی وجہ
سے ابوعمر بغدادی نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ اُس کا جانشین
ابوبکرالبغدادی ہی ہوگا،چنانچہ16 مئی 2010 ءکو ابوبکرالبغدادی” الدولۃ
الاسلامیۃ فی العراق“ کا امیر منتخب ہوا۔ابوبکر البغدادی1971ءمیں شہر سامرا
کے ایک ایسے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا کہ جو سلفی تکفیری عقیدے کا
حامل ہے،اُس نے بغداد اسلامی یونیورسٹی سے بیچلرز، ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی
ڈگری حاصل کی،ابوبکر البغدادی نے اپنی سرگرمیوں کی ابتدا ءتبلیغ اور لوگوں
کو پڑھانے لکھانے سے شروع کی، مگر کچھ ہی عرصے بعد وہ جہاد کے میدان میں
اتر گیا اور جہادی سلفیوں کے اہم ترین ارکان میں شمار ہونے لگا،اُس نے اپنی
سب سے پہلی سرگرمی مسجد امام احمد بن حنبل سے شروع کی جہاں اُس نے ایک
چھوٹا سا جہادی گروپ بنایا، اِس گروپ نے کئی دہشتگرادنہ کارروائیاں بھی
انجام دی ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 2003ءمیں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابوبکر
البغدادی نے فلوجہ میں امریکی افواج کے خلاف حملے میں شرکت کی جہاں اُس کی
صدام کے پرانے ساتھیوں اور عہدیداروں سے آشنائی اور ملاقات ہوئی، اسی دوران
وہ امریکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا اور پھر جیل بھیج دیا گیا، جہاں
اُس کے مذہبی جنونیوں اور شدت پسندوں کے تعلقات استوار ہوئے اور وہ اُن سے
مزید متاثر ہوا۔ ابوبکر البغدادی نے جیل سے آزاد ہونے والے تمام
انتہاپسندوں کو اپنے حلقے میں شامل کرلیا، اِن میں کچھ ایسے بھی افراد تھے
جو بم بنانے اور دھماکہ کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اِس طرح بغدادی کی
تنظیم”الدولۃ الاسلامیہ فی العراق“ ایک شدت پسند تنظیم میں تبدیل ہوگئی اور
دیگر ممالک سے سینکڑوں افراد اِس تنظیم سے جڑ گئے اور عراق میں داعش تحریک
طالبان پاکستان کے جدید ایڈیشن کے طور پرشامنے آئی۔
داعش کی زمام کار ابوبکر البغدادی کے ہاتھ میں آتے ہی تنظیم کی کارکردگی
میں ایک ڈرامائی تبدیلی نظر آئی ،دیکھتے ہی دیکھتے داعش نے عراق کے طول و
عرض میں دھماکے شروع کردیئے ،عراقی حکومت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ
القاعدہ نے اچانک اتنی طاقت کیسے پکڑ لی اورامریکہ جس القاعدہ کی کمرتوڑنے
کے مسلسل دعوے کررہا تھا،وہ پورے قد کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوئی تھی، جب
مارچ 2011ءمیں شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف علم بغاوت بلند ہواتو پہلی
بار ”داعش“ کی موجودگی کی خبریں دنیا کے سامنے آئیں یہ بات بھی ریکارڈ پر
موجود ہے کہ جس وقت امریکہ اور اُس کے حواری شام میں بشار الاسد کیخلاف
برسرپیکار جنگجوؤں کے ہاتھ مضبوط کررہے تھے اُس وقت داعش ISIS بھی اُن
پروردہ گروپوں میں شامل تھی،جن کی پشت پناہی امریکہ اور اُس کے حواری کررہے
تھے ، حالانکہ دنیا کو دکھانے کیلئے اُسی سال ابوبکر البغدادی کا نام
امریکہ کی بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اُس پر دس ملین ڈالر کا انعام
رکھا گیا۔
بہرحال داعش نے اپنے نئے قائد البغدادی کی قیادت میں جلد ہی شام میں بھی
الرقہ، حلب، اللاذقیہ،دمشق، دیرالزور،حمص، حسکہ اور ادلب میں اپنے پنجے
مضبوط کرلیے، اِس تنظیم کی جنگی طاقت کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جاسکتا
ہے کہ اِس کے جنگجوؤں نے ایک طرف شامی فوج کا مقابلہ کیا اور دوسری طرف شام
کے حقیقی سنی گروپوں کے خلاف بھی بھرپور جنگ جاری رکھی۔داعش نے
ابوبکرالبغدادی کے آنے کے عراق میں کئی دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دی ہیں
جن کی وجہ سے سیکڑوں بےگناہ عراقیوں کا خون بہایا گیا،اِس گروہ نے سب سے
اہم کارروائی مسجد اُم القری پر حملہ کرکے انجام دی کہ جس میں عراقی
پارلیمنٹ کے نمائندے خالد فہداوی مارے گئے، اسی طرح اسامہ بن لادن کے خون
کا بھی بدلہ لینے کے لیے متعدد کارروائیاں انجام دی گئیں کہ جن میں سینکڑوں
فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور عوام کا خون بہایا گیا،عراقی القاعدہ سے وابستہ
اینٹرنیٹ ویب سائٹ نے بن لادن کا بدلہ لینے کے لیے سو سے زیادہ خودکش حملوں
کی ذمہ داری قبول کی، اِس کے بعد اِس گروہ نے کچھ خاص آپریشنز بھی انجام
دیئے کہ جن میں مرکزی بینک، وزارت انصاف، ابوغریب اور حوت کی جیلوں پر حملہ
شامل ہے،جون کے اوائل میں تنظیم نے عراق کے اندر گوریلا کارروائیوں کے
بجائے باقاعدہ شہروں کو فتح کرنے کی پالیسی اپنائی اور صرف دو ہفتوں کے
دوران سات ہزار مربع میل کے علاقے پرقبضہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ داعش چند
دنوں میں پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، شام کے کئی شہروں کے بعد
اب عراق میں موصل، تکریت، صوبہ الانبار مرکزی شہر فلوجہ تلعفر اور جبل
المنصوریہ پرقبضہ کرتے ہوئے اُس نے بغداد پر دستک دینا شروع کردی ہے، تا دم
تحریر داعش کے جنگجو بغداد سے محض چند گھنٹوں کی مسافت پر ہیں، اگر فضائی
بمباری کے ذریعے ان کی پیش قدمی نہ روکی گئی تو دنیا ایک مرتبہ پھر سقوط
بغداد کا ایک نیا سانحہ دیکھے گی۔
اگرچہ ابوبکرالبغدادی کی قیادت میں عقیدتی اعتبار سے داعش اور القاعدہ سلفی
شمار کئے جاتے ہیں، مگر عسکری اعتبار سے داعش قدرے مختلف ثابت ہوئی ،اسی
وجہ سے داعشی جلد ہی القاعدہ سے جدا ہوگئے، داعش، القاعدہ کی مانند نہیں ہے
کہ جو صرف جنگ پر ہی اکتفا کرلے بلکہ زمینوں کو فتح کرنا اور اُن پر قبضہ
کرنا اِس کے اہم جنگی اہداف و مبانی میں سے ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق
ابوبکرالبغدادی جب کسی شہر کو فتح کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنے اہلکاروں کو
وہاں کے مقامی لباس میں بھیجتا ہے جو وہاں جاکر گھروں میں پرامن طریقے سے
زندگی گزارنے لگتے ہیں اور اگلے حکم کا انتظار کرتے ہیں، اِس کے بعد وہ لوگ
بیعت کے لیے قبیلوں کے سرداروں سے مذاکرہ کرتے ہیں اگر اِن سرداروں نے بیعت
قبول کرلی تو داعش کے چند قابل اعتماد افراد اُن کے پاس رہ جاتے ہیں اور
قبیلے کی راہنمائی کرتے ہیں اور شہر کے گورنر کو انہیں کے درمیان میں سے
انتخاب کرتے ہیں، لیکن اگر کسی سردار نے اُن کی بیعت قبول نہیں کی تو وہ
خفیہ آپریشنز کے ذریعے اُس پر دباؤ بناتے ہیں اور اگر پھر بھی کامیابی حاصل
نہ ہو تو اُس علاقے کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ،جس کی حالیہ مثال اطاعت نہ
کرنے پر دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع سنی اکثریتی قصبے زوویا کو بموں سے
اڑا د ینے والی کاروائی ہے ،اِس گاؤں کی تباہی کی تصاویر داعش خود نیٹ پر
جاری کیں ہیں جس میں پورا گاؤں ملبے کا ڈھیر نظر آرہا ہے، ساتھ ہی داعش نے
یہ پیغام بھی جاری کیا ہے کہ اُس کا حکم نہ ماننے والوں کا ایسا ہی انجام
ہوتا ہے۔
داعش ایسے علاقوں کے فتح کرنے کو ترجیح دیتا ہے جو قدرتی ذخائر سے مالامال
ہوں کہ جن میں سب سے پہلی ترجیح تیل کی دولت سے مالامال علاقے ہیں، یہ حربہ
داعش کو مالی طور مضبوط بنانے کے علاوہ اُس کے حریفوں کو ناتواں بنانے میں
کافی مدد دیتا ہے۔ شام اور عراق کے مختلف شہروں پرقبضے کے بعد داعش نے ”مال
غنیمت“ کے نام پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی ہے، جس کے
بعد اب اُس کے اثاثے چار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، یہ تمام رقم اسلحہ
کے حصول اور جنگجوؤں کی تیاری صرف کی جا رہی ہے، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے
کہ سعودی عرب، کویت اور قطر کے پرائیویٹ ڈونرز داعش کی مالی مدد کرتے ہیں،
تا ہم چونکہ ایک بڑے رقبہ پر اُس کا قبضہ ہے اِس لئے یہاں کی ساری سرکاری
مشینری اور وسائل داش کے پاس آ گئے ہیں،جواُس کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے،
علاوہ ازیں مسلح تصادم کے وقت انہوں نے کئی بینکوں سے اربوں ڈالرز اپنے
قبضے میں لے لئے تھے، صرف موصل کے بینک سے 400ملین ڈالرز کیش ملا، مقامی
بزنس پرا ُس کا کنٹرول ہے، ٹیکسوں کا نظام بھی ہے، تیل سے بھی آمدن ہو رہی
ہے، شمالی شام میں یہ تیل اور بجلی کی فروخت سے آمدن حاصل کرتا ہے، شمالی
عراق میں سرکاری فوجوں سے بھاری مقدار میںٹینک، آرٹلری، چھوٹے ہتھیار مال
غنیمت کے طور پر حاصل کئے گئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج لوٹ مار کے نتیجے میں
حاصل کردہ دولت کی بنیاد پر داعش کو دنیا کا امیر ترین جنگجو گروپ قرار دیا
جارہا ہے اورداعش کے اثاثے صومالیہ، الجزائر، افغانستان اور دنیا کے دیگر
خطوں میں موجود شدت پسندوں کے کل اثاثوں سے تجاوز کرگئے ہیں،چونکہ داعش نے
طاقت کے ذریعے عراق اور شام کے درمیان اپنا نیٹ ورک مضبوط کرلیا ہے،جس کی
وجہ سے دنیا کے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند اِسے ایک محفوظ
ٹھکانے کے طورپر دیکھ رہے ہیں اور اِن کا رخ اب انہی علاقوں کی طرف ہورہا
ہے۔
گو مغربی میڈیا داعش کو سنی عسکریت پسند تنظیم کا نام دیتا ہے مگر حقیقت
میں داعش خارجی عقائد پر مبنی سلفی انتہا پسند دہشت گرد تنظیم ہے ،جس کی
آبیاری امریکہ اور اُس کے حواریوں نے کی ہے،امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے
باغی سابق اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن کا کہنا ہے کہ دولت اسلامی شام و عراق کے
سربراہ ابو بکر البغدادی امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے اور سی آئی اے اور
برطانیہ کے انٹیلی جنس ادارے نے بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے
ساتھ مل کر ایک دہشت گرد تنظیم بنائی جو کہ دنیا بھر کے شدت پسندوں کو اپنی
طرف متوجہ کر سکے اور اس پالیسی کو ” دی ہارنیٹز نیسٹ“ کا نام دیا گیا۔ایڈ
ورڈ اسنوڈن کہتا ہے کہ اِس پالیسی کا مقصد تمام دنیاکیلئے بڑے خطرات کو ایک
جگہ اکٹھا کرنا تھا تاکہ انھیں ایک جگہ سے کنٹرول کیا جا سکے اور عرب ممالک
میں انتشار پھیلایا جا سکے۔ اسنوڈن کہتا ہے کہ ابو بکر البغدادی کو اسرائیل
کی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے سے انتہائی سخت فوجی تربیت دلوائی گئی اور
اِس کے ساتھ ساتھ بولنے میں مہارت کی تربیت بھی دی گئی تاکہ وہ دنیا بھر کے
دہشت گردوں کو اپنے بیان سے متاثر کر سکے، اسنوڈن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کہ
تینوں ممالک کے نزدیک صیہونی ریاست کی حفاظت کیلئے اسرائیل کی سرحدوں کے
قریب ایک دہشت گرد تنظیم ضروری ہے۔
کینیڈین تھنک ٹینک گلوبل ریسرچ اپنی رپورٹ میں دعویٰ کرتی ہے کہ داعش کو
امریکہ نے اپنے مقاصد کیلئے کھڑا کیا ہے اور اِس کے جنگجوؤں کو سب سے پہلے
امریکہ نے ہی اردن کے میدانوں میں گوریلا جنگ کی تربیت دلوائی تھی،علاوہ
ازین برطانوی حکومت نے خصوصی طور پر برطانیہ سے جو 4x4 کے Toyotaمنی ٹرکس
شام میں باغیوں کو بھیجے تھے وہ بھی داعش کے جنگجوؤں کے استعمال میں
ہیں،رپورٹ کے مطابق ایک خاص حکمت عملی کے تحت داعش کے جنگجوؤں کیلئے موصل،
تکریت، باقوبہ،فلوجہ،الانبار اور ملحق علاقوں پر قبضے کی راہ ہموار کی اور
عراقی فوج باقاعدہ حکمت عملی کے تحت پسپائی کی ہدایت کی گئی تاکہ داعش
جنگجوؤں کو سرکاری فوج کے زیر استعمال انتہائی جدید امریکی
اسلحہ،میزائل،راکٹس اور بکتر بند گاڑیاں ہاتھ لگیں۔جبکہ وائس آف رشیا کی
رپورٹ داعش کو CIA کی پیداوار قرار دیتے ہوئے سوال اٹھاتی ہے کہ داعش کی
کاروائیوں پر امریکی افواج ایکشن کیوں نہیں لیتی ہے۔؟
ایک آن لائن امریکی جریدےLiving Like Country اپنے تجزیئے میں انکشاف کرتا
ہے کہ داعش کے خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادیCIA کی دعوت پر امریکہ جاچکا
ہے، امریکی تجزیہ نگار برنی زیبارٹ لکھتا ہے کہ 2005ءمیں ابوبکر البغدادی
کو یوایس اسپیشل فورسز نے عراق سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام منتقل کیا تھا
اور 2009ءتک امریکی تحویل میں رہا،لیکن اس بات کی قوی شہادتیں موجود ہیں اس
دوران ابوبکر البغدادی کو عراق کے بجائے نیویارک میں آزادانہ نقل وحرکت
کرتے ہوئے دیکھا گیا،جس کا صاف مطلب تھا کہ بغدادی پر ہاتھ رکھدیا گیا ہے۔
ایک عرب تجزیہ نگار ڈاکٹر نفیس احمد کی رائے میں امریکی سرپرستی میں داعش
کی تشکیل کا کام 2005ءمیں شروع ہوا،جب عراق میں فرقہ واریت کو پنپنے کا
موقع دیا گیا، اِس مقصد کیلئے عراق اور ملحق خطے میں ایسا ماحول قائم کرنا
تھا مسالک باہمی لڑائیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور بالخصوص عراق کی سرحدوں
کو تبدیل کرکے تیل کی سپلائی کو مستقل اور آسان بنایا جائے،اسی امریکی پلان
کے مطابق آزاد کردستان ریاست کی راہ ہموار کی جاچکی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ داعش ہو،تحریک طالبان پاکستان یا کوئی اور خارجی عقائد پر
مبنی انتہا پسند گروہ ،سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ طاقت اور قبضے کے زور پر
اپنے عقائدباطلہ کو نافذ کیا جائے اور اہلسنّت وجماعت سمیت دیگر مکتبہ فکر
کے لوگوں کو اپنے زیر نگیں لایا جائے یا پھر اُن کا خاتمہ کردیا جائے،اس
بات کی تائید گذشتہ دنوں داعش کی جانب سے جاری ہونے والے اُس 10نکاتی
ایجنڈے سے بھی ہوتی ہے جو اُس نے عراق میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں کیلئے
جاری کیا ہے ، یہ 10نکاتی لائحہ عمل داعش کی شدت پسندی، مذموم اہداف ومقاصد
اور مستقبل کے لائحہ عمل کی واضح نشان دہی کرتا ہے ۔دوسری جانب داعش نے
اپنے پانچ سالہ منصوبے کے طور پر ایک نقشہ بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق
اگلے پانچ برسوں کے دوران نقشے میں سیاہ رنگ میں دکھائے گئے دنیا کے مختلف
علاقے مسلم خلافت کے زیرکنٹرول ہوں گے، اِس منصوبے کے مطابق پاکستان،
ایران، مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک، افریقہ کے عرب ممالک حتیٰ کہ بعض یورپی
ممالک بھی اسلامی خلافت میں شامل ہوں گے، عراق میں اسلامی ریاست کے قیام کے
اعلان میں کہا گیا ہے کہ ابوبکرالبغدادی تمام دنیا کے مسلمانوں کے حکمران
ہیں۔ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں داعش نے اپنے جس مذموم ایجنڈے کا اعلان
کیا ہے اُس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ داعش تمام مقامات مقدسہ کو مسمار
کردے گی، علاوہ ازیں داعش نے سعودی عرب کے حوالے سے اپنے خوفناک عزائم کا
اظہار کرتے ہوئے کہا ہے وہ سعودی عرب پر قبضے کے بعد خانہ کعبہ کو بھی
(نعوذ باللہ) مسمار کر دیں گے۔
قارئین محترم !تکفیری دہشتگردوں کے ظلم کی داستانیں نئی نہیں ہیں، پاکستان
سے لے کر شام اور نائجیریا اور افریقہ تک اِن خارجی حیوانوں کے انسانیت سوز
مظالم کی داستانیں گردش کر رہی ہیں، لوگوں کو ذبح کر کے اُن کا کلیجہ
چبانا، گلے کاٹ کر سروں سے فٹبال کھیلنا، خواتین کی عصمت دری کرنا وغیرہ
اِس خارجی تکفیری گروہ کی شناختی علامات ہیں،عراق میں بھی اِس خارجی تکفیری
گروہ نے یہی کچھ کیا ہے ،ایک برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق اِس تکفیری
خارجی دہشتگرد گروہ نے عراق میں اپنے زیر تسلط علاقوں کے عوام سے یہ مطالبہ
کیا ہے اِن علاقوں میں رہنے والے عوام اپنی لڑکیاں مجاہدین کی جنسی تسکین
کیلئے پیش کریں، حکم نہ ماننے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی
ہے،جبکہ اِس سے پہلے شام میں بھی اِس خارجی گروہ نے اسی خباثت، درندگی اور
بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاتعداد سنی مسلمان بچیوں کی عزت لوٹ لی تھی،
اِس بے غیرتی کا نام اُن لوگوں نے “نکاح الجہاد” رکھا ہے، شروع میں اِس
تکفیری خارجی گروہ کے ہمدردوں نے اِن خبروں کو جھٹلانے کی کوشش کی تھی لیکن
اب یہ خبریں تمام ذرائع ابلاغ میں شائع ہو کردنیا کے سامنے آ چکیں ہیں یہاں
تک کہ سعودی میڈیا نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ شدت پسند وہابی علماء“نکاح
الجہاد” کی اجازت دے رہے ہیں اور اِس چکر میں بے غیرت اور بے حیا ماں باپ
اپنی لڑکیوں کو زبردستی تکفیری دہشتگردوں کے آگے پیش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف حال ہی میں دہشت گرد گروہ داعش نے انٹرنٹ پر تصاویر شائع کی ہیں
جن میں عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت
شیت علیہ السلام کے مزارات کی شہادت اورصحابہ کرام حضرت عمار یاسر، حضرت
اویس قرنی رضی اللہ عنہم اور اولیااللہ کے مزارات کو تباہ کرتے ہوئے دکھایا
گیا ہے اور متعدد سنی صوفی اور شیعہ مساجد اور گرجا گھروں کو منہدم کر دیا
گیا ہے،اِن سنی صوفی مزارات اور مساجد و گرجا گھروں کی تباہی سے اِس تاثر
کو مزید تقویت ملی ہے کہ عراق اور شام میں ہونے والی تکفیری خارجی دہشت
گردی جس میں سلفی اور دیوبندی انتہا پسند شامل ہیں کو امن پسند سنی
مسلمانوں سے نہیں جوڑا جا سکتا ، یہ عالم اسلام اور اہلسنّت کے خلاف ایک
منظم عالمی استعماری سازش ہے،گو اِس دہشت گرد گروہ داعش کی حمایت کرنے والے
قائدین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اِس گروہ کی تشکیل کا مقصد اسلامی ممالک
بالخصوص شام اور عراق میں شریعت خلافت اسلامیہ کے دور کو دوبارہ لوٹانا ہے
مگر اِن کے قول و عمل میں مکمل تضاد پایا جاتا ہے اور اِن کے وحشیانہ اعمال
کا نتیجہ یہ ہوا کہ ا من اور صلح پسند دین کا چہرہ دنیا کی نظروں میں مخدوش
ہوکر رہ گیا ہے،جسے بہانہ بناکر اسلام مخالف اور صہیونی عناصر اسلام کو
بدنام کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے معروف عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ابو
بکر بغدادی السلفی کی خلافت کو باطل قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ” ایک دہشت گرد
گروہ ”داعش“ کی جانب سے اسلامی خلافت کا اعلان دین اسلام کے اہداف سے
سازگار نہیں ہے،” داعش“ دہشت گردوں کی خلافت ہے جو شرعی لحاظ سے باطل
ہے،اُن کا کہنا تھا کہ عراق میں آئی ایس یا داعش کی خلافت شرعی طور پر باطل
ہے اور داعش گروہ کے وحشیانہ اور بھیانک اقدامات عراق اور شام کے مسلمانوں
خاص طور پر اہلسنّت پر منفی اور خطرناک اثرات مرتب کریں گے۔“ واضح رہے کہ
داعش نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کرنے کے بعد ابوبکر البغدادی السلفی کی
خلافت کا اعلان کیا تھا اور تمام مسلمانوں کو اِس کی خلافت قبول کرنے کا
حکم دیا ، لیکن عراق کے سنی مسلمانوں نے تکفیری وہابی و دیوبندی دہشت گردوں
کے نام نہاد خلیفہ کو پہلے ہی رد کردیا تھا اور وہ عراقی فوج اور
دیگرمسلمانوں کے ساتھ ملکر تکفیری خوارج دہشت گردوں کا ڈٹ کرمقابلہ کر رہے
ہیں۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ امریکی سامراج نے ایک بار پھر عراق کو آگ میں جھونک
دیا ہے اور عراق میں پر تشدد سیاست اور مرکزیت کے پارہ پارہ ہونے کی الم
ناک داستان ایک نئے انسانی المیے کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔ماضی میں اقوام
متحدہ اور عالمی توانائی ایجنسی ”آئی اے، ای اے“ کے معائنہ کاروں کی تردید
کے باوجود 2003ءمیں امریکہ بہادر کا کیمیائی، حیاتیاتی اور وسیع پیمانے پر
تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بناکر عراق پر حملہ کے تین
مقصد یعنی ”وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی، صدام
حسین کی آمریت کی جگہ سلطانی جمہور کے نظام کا قیام اور ملک کو امن وامان
کا گہوارہ بناتے ہوئے دنیا کو عراق سے لاحق خطرات سے محفوظ رکھنا ۔“بیان
کیے گئے تھے ۔یہ تین بنیادی مقاصد اُس وقت کے عراق کیلئے امریکی ناظم
الامور مسٹر پال بریمر نے نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس میں بیان کیے تھے،
کم وبیش یہی اعلانات اور دعوے اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر
کے بھی تھے، عراق میں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار تو تھے ہی
نہیں، اِس لیے اُن کا قصہ ہی ختم، تاہم صدام حسین کا قصہ تمام کردیا گیا۔
مگرجمہوریت۔؟ آج گیارہ سال بعد کا عرا ق صد ام حسین کے پر امن اور متحدہ
عراق سے کہیں زیادہ خوفناک، پرخطر، تباہ کن اور دہشت گردی کا مرکز بن چکا
ہے۔ ہوسکتا ہے امریکہ کی نظر میں صدام حسین کی آمرانہ حکومت کا کوئی جواز
نہیں ہو، مگر وہ نوری المالکی اور حامد کرزئی کی طرح کٹھ پتلی نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت میں متحدہ عراق کا خواہاں نہیں ہے اور
عراق کی تقسیم خود امریکہ کی سازش ہے، امریکی تجزیہ نگار بھی یہ بات تسلیم
کرنے لگے ہیں کہ عراق کو تقسیم سے دوچار کرنے کے لیے حالات کی سازگاری میں
واشنگٹن کا کلیدی کردار ہے، البتہ خطے کے بعض ممالک اپنی غلط پالیسیوں اور
اپنے اپنے مفادات کے باعث جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں،دوسری جانب اِس حقیقت سے
انکار ممکن نہیں کہ پانچ لاکھ سے زائد عراقیوں کا خون بہانے میں جتنا ہاتھ
امریکیوں کا ہے اتنا ہی اُس کے پروردہ دہشت گرد خارجی گروپوں کا بھی ہاتھ
ہے،موجودہ تناظر میں عراق کے موجودہ بحران سے باخبر لوگ نہایت خطرناک پیشن
گوئیاں کررہے ہیں اور داعش نے عراق کے بہت بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے
کے بعد وہاں ایک نام نہاد خارجی فکر پر مبنی خلافت کا اعلان کردیا ہے،جو
عراقی اکثریتی کیلئے کسی طور قابل قبول نہ ہوگا،چنانچہ اِس صورت حال میں
عراق کی تقسیم کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ |