سید فیصل علی سبزواری صوبائی وزیر، حکومت سندھ سے ایک مکالمہ

(صوبائی وزیر سے یہ انٹر ویو ۲۰۰۸ء میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کے مجلہ ’رایت ‘‘ کے لیے لیا گیا جو مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہوچکا ہے۔ اس ملاقات میں کالج کے ایک استاد عبد الرشید بھی شریک تھے)

راقم اس وقت گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے علمی مجلہ ’’روایت‘‘ کا مدیر اعلیٰ تھا۔ ۲۶ مئی ۲۰۰۸ء کالج پرنسپل پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی صاحب نے فرمایا کہ وزیر برائے امورِ نوجوانان، حکومت سندھ جناب فیصل سبزواری سے بات ہوگئی ہے انہوں نے آج دوپہر کا وقت دیا ہے آپ چلے جائیں اور کالج میگزین کے لیے ان کاا نٹر ویو کرلیں۔ چنانچہ میں اور عبدالرشید وزیر موصوف جناب فیصل سبزواری صاحب کے آفس واقع سندھ سیکریٹریٹ ۴ بی کی بیرک نمبر ۹۳ پہنچ گئے۔ وزیر موصوف تو اس وقت موجود نہیں تھے ،پرائیویٹ سیکریٹری جناب خورشید علی شیخ صاحب سے اپنا تعارف کرایا، انہیں ہماری آمد کا پہلے ہی سے علم تھااور انہوں نے تیاری کی ہوئی تھی۔ حکومت سندھ کے انفارمیشن شعبہ کے رپورٹر اور کیمرہ مین پہلے سے موجود تھے تھوڑی ہی دیر میں رنگ ٹیلی ویژن کے کیمرہ مین بھی آگئے ۔ خورشید شیخ صاحب سے ابتدائی گفتگو ہوہی رہی تھی کہ فیصل سبزواری صاحب وقت مقررہ پر تشریف لے آئے۔ خوبصورت، اسمارٹ، چاق و چوبند ، مسکراتا کتابی چہرہ، روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی، سادہ لباس ، تہذیب و شائستگی کا حسین نمونہ۔چند لمحے یہ احساس ہوا کہ اس قدر کم عمر اور اس پر یہ عزت و توقیر،اﷲ نظر بد سے بچائے اس نوجوان کو جس نے انتہائی مختصرعرصہ میں کامیابی کی ان منزلوں کو چھو لیا ہے جن کوحاصل کرنے میں لوگوں کی عمر گزرجاتی ہے۔ اپنے آپ کو خیالوں سے نکالتے ہوئے میں وزیر موصوف کی جانب متوجہ ہوا اور کہا کہ آمد بہ سر مقصد ، بسم اﷲ کرتے ہیں، انہوں نے میری تائید کی اور گفتگو کا آغاز ہوا۔پیدائش ، ابتدائی تعلیم اور خاندان کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا :
میر ے آباؤاجداد کا تعلق ہندوستا ن کے شہر میرٹھ سے ہے ۔ اس سے قبل ہمارے اجداد نے ایران کے شہر ’’سبزوار‘‘ سے ہندوستان ہجرت کی۔ سبزوار ایران کا ایک شہر ہے جو مشہد کے قریب ہے۔ میرے دادا نے پاکستان ہجرت کی ابتدا ء میں فیصل آباد کو اپنا مسکن بنا یا اس کے بعد۱۹۵۲ء میں کراچی میں آباد ہوئے۔ ناظم آباد میں ہماری رہائش تھی۔میں کراچی کے علاقے ناظم آباد میں ہی پیدا ہوا۔نرسری سے میٹرک تک تعلیم’’فرح ماڈل اسکول ‘‘ ناظم آباد میں حاصل کی، ۱۹۹۱ء میں اسی اسکول سے میٹرک کیا۔ یہ اسکول تعلیم و تدریس کے اعتبار سے معیاری اور منظم اسکول تھا۔ میری بنیاد اسی اسکول میں بنی۔ انگریزی میڈیم اسکول ہونے کے باعث میری بنیاد بھی اسی طرز کی قائم ہوئی اور میں بہتر تعلیمی استطاعت کا حامل طالب علم ہوگیا ۔ بہتر رزلٹ تھا۔

گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں داخلہ لینے اور کالج کے اس دور کے حالات اور واقعات کا ذکر کرتے ہوئے جناب فیصل سبزواری صاحب نے کہا کہ میٹرک میں میرے نمبر بہت اچھے تھے اور میرا داخلہ ڈی جے سائنس کالج میں ہو سکتا تھا لیکن ایک وجہ تو یہ رہی کہ یہ کالج میرے گھر سے بہت نزدیک تھا دوسرے گورنمنٹ کالج اس وقت کراچی کے اچھے تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا تھا اور ایک منظم ادارہ تھا۔ چنانچہ میں انٹر سائنس میں غالباً اکتوبر ۱۹۹۱ء میں کالج میں داخل ہوا۔ اس وقت پروفیسر سید کمال الدین صاحب کالج کے پرنسپل تھے۔ کالج تعلیمی ماحول بہت اچھا تھا۔ طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کا میں سر گرم کارکن تھاجون ۱۹۹۲ء میں کراچی میں آپریشن شروع ہوا ، میری مارکس شیٹ ایک مخالف طلبہ تنظیم نے روک لی اور میں در بدر رہا، چچا شہید ہوئے اور میری پوری فیملی نے بڑے مسائل کا سامنا کیا۔ وہ مشکل وقت بھی گزر گیا۔

آپ نے کہا کہ پروفیسر سید کمال کالج میں پڑھائی کے معاملے میں بہت سخت تھے ۔ کالج کے دیگر اساتذہ بھی بہت محنت اور لگن کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے، ساتھ ہی ہم نصابی سرگرمیوں کے انعقاد میں بھی بھر پور دلچسپی لیا کرتے تھے ۔ پروفیسر ربانی اردو کے استاد تھے ، امان صاحب انگریزی پڑھا یا کرتے تھے، ابو حاذم صاحب کیمسٹری پڑھاتے تھے۔میرے ساتھ جو طالب علم ساتھی تھے ان میں منصور انصاری میرا بہت اچھا دوست تھا۔ اب وہ ڈاکٹر منصور انصاری ہیں۔اپنی تعلیم اور سیاسی کیریئر کے بارے میں آپ نے واضح کیا کہ میں نے انٹر سائنس کرنے کے بعد بی بی اے کیا ، معاشیات میں ایم اے کیا اور چارٹرڈ اکاؤنٹینت کا فائنلسٹ ہوں، جامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ کا رکن رہا ،پہلے ۲۰۰۲ء میں صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا پھر ۲۰۰۸ء میں صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور نوجوانوں کے امور کی وزارت کا قلم دان سونپا گیاہے۔ اس کے علاوہ اپنی جماعت میں مختلف حیثیتوں سے خدمات انجام دیتا رہاہوں اوریہ خدمات اب بھی جاری ہے۔

صوبائی وزیر جناب سید فیصل علی سبزواری نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل میں ٹیلنت کی قطعی کمی نہیں اگر ان کو صحیح رہنمائی اور معاونت فراہم کی جائے تو وہ ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔انہوں نے اساتذہ کرام پر زور دیا کہ وہ تندہی ، لگن اور سچے جذبے کے ساتھ طلبہ کی تعلیم پر توجہ مرکوز کریں اور طلبہ کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت سے آگاہ کریں کیونکہ اس سے نہ صرف طالب علموں کا ٹیلنٹ سامنے آئے گا بلکہ ان میں ایک صحت مند مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ طالب علموں کی اپنے تعلیمی اداروں میں حاضری زیادہ سے زیادہ ہو کیونکہ اگر طالب علم پابندی سے اپنی کلاسز اٹینڈ کر ے تو زیادہ سے زیادہ کامیاب ہوگا اور مستقبل میں ملک و قوم کا نام روشن کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد کا طالب علم تھا تو کلاس باقاعدگی سے اٹینڈ کرنے کے ساتھ ساتھ تقریری ، بیت بازی، شاعری اورادبی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا کرتا تھا۔اس عمل سے میری صلاحیتوں کو جلا ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کالجوں میں اس قسم کے مقابلے ہوتے تھے جس میں طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو اسی بنیاد پر اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے ملتے تھے جس سے نہ صرف طلبہ کے حوصلے بلند ہوتے تھے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی تھی۔انہوں نے اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ طلبہ کو نصابی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی مصروف رکھیں تاکہ وہ منفی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ آپ تو نوجوانوں کے امور کے وزیر ہیں ، ہمارے نوجوانوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔جناب فیصل سبزواری صاحب نے کہاکہ نوجوان ہی تو سب کچھ ہیں۔چالیس سال سے اوپر کے لوگ انقلاب نہیں لاسکتے۔ انقلاب صرف نوجوان ہی لاسکتے ہیں۔میں اپنے نوجوانوں کو یہ بات خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ پڑھائی صرف اچھی نوکری کے لیے ہی نہ کریں ، صحت مند مسابقت بہت ضروری ہے جو آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ سوسائٹی اور ملک کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے نوجوانوں کو تیار رہنا چاہیے‘‘۔ وزیر موصوف کے حسن اخلاق اورمہمان نوازی سے متاثر ہوئے بغیرہم نہیں رہ سکے ، دوران گفتگو وہ پوری طرح ہماری جانب متوجہ رہے، نرم لہجے ، خوشگوار موڈ میں گفتگو کا آغاز ہو اور اسی ماحول میں گفتگو اختتام پذیر ہوئی۔ محترم وزیر کے ساتھ ہماری گفتگو کی تفصیل روزنامہ ’امن‘ کراچی کی اشاعت ۲۷ مئی ۲۰۰۸ء میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔(۲۶ مئی ۲۰۰۸ء )
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284860 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More