نماز عید کی ادائیگی کے بعدناشتے
کی میز پہ پہنچا ہی تھا کہ انتہائی محترم بزرگ دانش ور ،ادیب اور عالمی
سیاح سید بشیرحسین جعفری صاحب کا فون آیا،محبت بھری عید کی مبارک باد دی
اور ساتھ حکم بھی کہ ابھی میرے پاس گھر آ جاؤ۔ہم کشمیریوں کے ہاں عیدکے تین
روز عید ملنے آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔وہ بھی آتے ہیں ، جو سال
بھرملتے ملاتے اور دعا سلام تک نہیں کرتے، چنانچہ گھر سے نکلنا محال ہوتا
ہے،تاہم آزاد کشمیر کے شہروں میں یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے۔پاکستان میں
بھی عید منانے کا یہ انداز چند ایک علاقوں کے علاوہ اب کہیں نظرنہیں آتا۔
ہر کوئی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہی یہ دن گزارتا ہے۔میں بھی اس معاملے
میں’’شہری‘‘ہو چکا ہوں، عید اہل خانہ کے ساتھ ہی مناناپسندہے۔ سوچا، شکریہ
ادا کر کے ’’پھر کسی روز‘‘ کا’’ وعدہ ‘‘کر لوں اور ساتھ ’’ان شاء اﷲ ‘‘ کا
لاحقہ بھی لگا دوں، مگر یہ چالاکی نہ کر پایا۔ایک گھنٹے بعد میں جعفری صاحب
کے دروازے پہ تھا۔
پیر سید سید علی شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے خانوادے کا یہ ماہتاب، علم
ودانش کے آسمان پرمنفرد و کمال انداز سے چمکا اور خوب چمکا ہے۔ اسی برس سے
اوپر کے ہیں،دل کا بائی پاس آپریشن ہو چکا ہے، ابھی چند روز پیشتر ہی شدید
ترین علالت کے چار رو ز پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد
میں گزار کے آئے ہیں۔نوکر چاکر ، فرزندان……کسی کو زحمت نہیں دی ،گھنٹی
بجائی تو خود دروازہ کھولا،وہ ہمیشہ اپنے مہمان کا اسی محبت سے مان رکھتے
ہیں۔مجھے عبد الستار ایدھی یاد آ گئے، برسوں پہلے ان کے مرکزی دفتر فون کیا
، توقع تھی کہ کوئی آپریٹر فون اٹھائے گا مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب
دوسری طرف سے آواز آئی ’’جی فرمائیے، میں عبد الستار ایدھی بول رہا
ہوں۔‘‘اور جب انٹر ویو کے لیے بولٹن مارکیٹ(کراچی) پہنچا توحیرت کا ایک
جہاں اور کھلاجب میں بلا روک ٹوک اوربنا پوچھ گچھ سیدھا ایدھی صاحب تک جا
پہنچا۔مجھے غازئ ملت سردار ابراہیم خان بھی یاد آئے، ملاقات کے لیے
راولاکوٹ میں ان کے آبائی گاؤں پہنچا توانھوں نے بذات خوداستقبال و میزبانی
کی۔ان ’’بابوں‘‘کی یہ عزت افزائی میرے لیے سرمایہ حیات ہے۔خاص لوگ اپنے اور
عوام کے بیچ فاصلہ نہیں رکھتے، یہی عظیم ہوتے ہیں۔(ـوہ بھی نگاہوں کے سامنے
گھوم گئے جن سے چند لمحوں کی ملاقات کا وقت چاہا، برسوں بیت گئے،کئے جوتے
گھس گئے، اب تک نہیں مل سکے۔)
جعفری صاحب نے میرا ہاتھ تھاما اوربولے :’’آج صرف آپ کو مدعو کیا ہے۔ دل
چاہ رہا تھا آپ سے خوب باتیں کروں۔‘‘
میری تو عید ہو گئی،عید سعید ہو گئی۔
آمنے سامنے بیٹھنے کا بھی ہمارا کوئی جوڑ نہیں۔وہ علم و دانش کا بحر بیکراں
اور میں فقط ان کے حلقہ احباب میں شامل ایک فردجسے لکھنا تو کیا قلم پکڑنا
بھی نہ آیا۔ جانے کیوں وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے، باتیں کرنا چاہتے تھے۔پھر
وہ بولتے رہے اور میں سنتا رہا۔ بولتا بھی کیا۔اڑھائی گھنٹوں میں بہت باتیں
ہوئیں(کچھ امانت ہیں اور کچھ کسی اور وقت پہ اٹھا رکھتا ہوں۔)
قارئین کرام!گلشن آباد اڈیالہ روڈ راولپنڈی کی گلی نمبر پچاس میں ایک سو
سینتالین نمبر کامکان، گھر نہیں، جدید طرز کی حویلی ہے جوکسی ناجائز قبضے
یا سرکاری عنایت سے نہیں، چند برس قبل ان کے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں
واقع بارہ مرلے کے عام سے مکان کی جگہ ایک صاحب ثروت نے پلازہ بنانے کے لیے
خریدی تو آپ کو معقول قیمت ملی جس سے یہ خریدی گئی۔اس گھرکادس کمروں پہ
مشتمل دوسرا فلورجعفری صاحب کی نصف صدی سے زائد کی شبانہ روز علمی و تحقیقی
مشقت کے گراں قدر سرمائے سے بھرا ہے جن میں ان کی کتب، قلمی مسودے و نسخے،
اخبارات، رسائل ، مضامین ، خطوط،تصاویر، تراشے کئی ایک موضوعات پہ مشتمل
آرکائیوتواریخ اور خدا جانے کیا کیا کچھ موجود ہے۔اسلام آباد سمیت آزاد
کشمیر کے کئی شہروں میں بارہا اس منفرد کام کی نمائش ہو چکی ہے۔
جعفری صاحب کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ ان کا کوئی اپنا اس سرمائے کی
حفاظت کرے مگر اس طرح کی وہ صندوقوں میں بند نہ ہو بلکہ تشنگان علم اس سے
استفادہ بھی کر پائیں، مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔خدا کا شکر ہے حکومت آزاد
کشمیر کو اس کا خیال آگیا۔ حکومت آزاد کشمیر نے اب ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے
جعفری صاحب کا یہ سارا اثاثہ بھاری قیمت پر خرید کر مرکزی لائبریری(خورشید
نیشنل لائبریری مظفر آباد) میں رکھنے اور سید بشیر حسین جعفری کے نام سے
ایک گوشہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت آزاد کشمیر کا یہ اقدام بذات خود
ایک قابل ستائش عمل ہے۔اس سلسلے میں متعلقہ محکموں کے اعلیٰ ترین حکام پر
مشتمل پانچ رکنی کمیٹی اس گراں قدر علمی سرمائے کا بغور جائزہ لے چکی ہے
اور دو ماہ سے زیادہ عرصے سے ایک اسسٹنٹ لائبریرین اور ایک اسٹینو گرافر
روزانہ اس پہ کام کر رہے ہیں۔ جلد ہی سرکاری ٹرک آئیں گے اوریہ خزانہ حکومت
آزاد کشمیر کی سینٹرل لائبریری میں منتقل ہو جائے گا۔ حویلی کے دس کمرے
خالی ہو جائیں گے۔
نصف صدی تک کاغذ ات کے یہ ڈھیرجعفری صاحب کا اوڑھنا بچھونا رہے ،قیمتاً ہی
سہی مگر ان کا یوں چلے جانا کہیں جعفری صاحب کو اور بھی بیمار نہ کر دے،
مچھلی پانی کے بغیر کیسے زندہ رہے گی؟میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ انھوں نے
مجھے اچانک مبہوت کر دیا۔ بولے’’ہم گیارہ بہن بھائی تھے،سب باری باری چلے
گئے،میں رہ گیا ہوں۔مگر جب تک سانس باقی ہے ،قلم رکے گا نہ میری روٹین میں
کوئی فرق آئے گا۔ میں نے ساٹھ برسوں میں خود کو نچوڑڈالا ہے، آج بھی گھڑی
کی سوئیوں کے ساتھ مقابلہ جاری ہے۔نصف صدی سے قاعدہ ہے،صبح تین بجے بیدار
ہوتا ہوں اوررات بارہ بجے بستر پہ جاتا ہوں۔ آج بھی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے
کام کرتا ہوں۔ ‘‘جسم کمزور اور نحیف سہی مگر ان کے چہرے اور لب و لہجے میں
کہیں تھکن نظر نہیں آ ئی۔ زبان حال سے کہہ رہے تھے، میں رکا نہیں ، تھما
نہیں، تھکا نہیں ۔
حیرت ہے، پینتالیس برس بہترین سرکاری ملازمت ، سارا پاکستان چھان مارا۔ چھ
براعظموں کے بیسیوں ممالک ‘ سیکڑوں شہر،وہاں کی لائبریریاں ‘عجائب گھر ‘
سائنسی و فنی ادارے‘ عجائبات دیکھے۔ نارتھ پول پوائنٹ تک سفر کیا ۔ آٹھ
مرتبہ یورپ ‘ امریکہ ‘ ایشیا ‘ افریقہ کی سیاحت کی ۔ کینیڈا ‘ امریکہ کی
چھتیس ریاستیں، روس ‘ چین ‘ ہوائی ‘ جنوبی کوریا ‘ مصر ‘ سوڈان ‘ الجزائر ‘
اٹلی ‘ جرمنی ‘ فرانس بلجیم ‘ ہالینڈ ‘ لکسمبرگ اور سپین،اٹلی۔کہاں کہاں
نہیں گئے ۔ کوہ الپس ALPSکی گھاٹیاں ، بلیک فارسٹ ،نیا گرا فال ‘ونکوور‘
ڈزنی لینڈ‘ تاہو لیک ‘ ریڈ فارسٹ اور کوسٹل مونٹین سبھی کچھ دیکھا۔’’دنیا
میرے آگے‘‘ تو کبھی ’’سورج میرے پیچھے۔‘‘ دنیا کا جغرافیہ ہی نہیں تاریخ
بھی آپ سے مخفی نہیں۔سیاحت،علم ، ادب، صحافت، سائنس، ٹیکنالوجی، تاریخ،
جغرافیہ کون سا موضوع ہے جس پہ آپ نے تحقیقی مضامین نہیں لکھے۔پچپن برس سے
باقاعدگی سے ڈائری لکھ رہے ہیں جو بیک وقت ذاتی بھی ہے، قومی بھی اور بین
الاقوامی حالات و واقعات بھی روزانہ اس میں درج ہو رہے ہیں۔ ڈائری کیا ہے،
ہر صفحہ ایک کالم ہے، ایک مضمون ہے۔چھ زندہ تواریخ ،چار زندہ و جاوید
تصانیف جو اسم با مسمیٰ ہیں: کلمات جلیلہ، زندہ باد، پائندہ باد، تابندہ
باداور دیگر بے شمار کام جس کی تحسین پچاس کے لگ بھگ چھوٹے بڑے ایوارڈز کی
صورت میں کی گئی۔1967ء میں آپ کو سائنسی تحقیقی کام پر ’’ نشان سپاس‘‘ فیلڈ
مارشل محمد ایوب خان کے دور میں ملا تھا۔1971ء میں ’’تذکرہ جنگ آزادی
کشمیر‘‘ پر حکومت آزاد کشمیر نے ’’ پہلا ‘‘ ایوارڈ دیا۔ امریکہ کی نارتھ
کیرولینا سٹیٹ کی ’’ورلڈ بک 1997ء‘‘ میں آپ کو ’’ مین آف دی ایئر‘‘ کی
فہرست میں شمار کیا ۔آزاد کشمیر سے صدارتی ایوارڈ اور آزاد کشمیر گورنمنٹ
سے 24اکتوبر2007ء کو رئیس الاحرار ایوارڈ ‘ گولڈ میڈل اور ایک لاکھ روپے
نقد ملے ہیں ۔ مختلف علمی ‘ادبی ‘سائنسی ایسوسی ایشنز اور تنظیموں سے بھی
وابستہ ہیں۔ برٹش لائبریری لنڈن اور لائبریری آف کانگرس واشنگٹن نے
1988ء‘1989ء میں بالترتیب آپ کے انٹرویوز ریکارڈ کر کے اپنے ہاں کے
افروایشین سٹڈیز کے شعبہ میں محفوظ کیے ہیں ۔
جعفری صاحب نے اپنی حیات کا نصف سے زیادہ عرصہ لائبریریوں اور کتب خانوں
میں علمی پیاس بجھاتے ہوئے گزارا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا ‘ انسائیکلو
پیڈیا امریکانا ‘ انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس ‘ انسائیکلو پیڈیا
سوشل سائنسز‘ انسائیکلو پیڈیا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نیز ترقی یافتہ دنیا سے
شائع ہونے والے تحقیقی سائنسی جرائدسبھی کچھ زیر مطالعہ رہا۔پچاس برس سے
ملک کے تقریباً سبھی اردو ‘ انگریزی ‘قومی روز ناموں ‘ ڈائجسٹوں ہفتہ روزوں
اور ماہناموں میں آپ کی تحریریں شائع ہو رہی ہیں ۔ کمال یہ کہ جتنا لکھا،
شائع ہوا ۔
سید بشیر حسین جعفری آج بھی تازہ دم ہیں،ضعیفی میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے
باقاعدگی سے تحقیقی و تخلیقی کام اس پیرزادے کی کرامت ہی تو ہے۔ عزم و
حوصلہ ایسا کہ گھر کے دس کمرے اپنی تصانیف و تخلیقات سے بھرنے کونئے سرے سے
کمر بستہ ۔ زمانے کے گرم و سرد، موسموں کا تبدل، ’’اپنوں‘‘ کے رویے کوئی
بھی ان کا سفر کھوٹا نہیں کر پایا۔ آج آپ پرکوئی ایم فل کر رہا تو کوئی پی
ایچ ڈی۔زندہ باد جعفری صاحب!
www.kashmirvista.org پر سید بشیر حسین جعفری کی زندگی اورہمہ جہتی علمی
کام ملاحظہ کیا جا سکتاہے۔
دعا ہے اﷲ رب العزت محترم جعفری صاحب کو صحت و تندرستی سے نوازے اوران کا
سایہ تا دیر چاہنے والوں پہ سلامت رہے ۔آمین۔ |