پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ اسے اپنی بقا کیلئے ہر چیز
باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہے ، پاکستان کے قیام کے بعد جب گندم کم پڑی تو اس
نے امریکہ کا انتخاب کرتے ہوئے ، خوئے غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
پھر اس کے بعد قرضوں کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے تلوے ہمارے
حکمران چاٹنے لگے تو اپنی دُم ہلاتے ہوئے معاشی پالیساں بھی پاکستانی عوام
پر اصلاحات کے نام پر مسلط کرتے رہے ، قدرتی خزانوں اور معدنی وسائل سے
مالا مال مملکت کو حکمرانوں نے اپنے کمیشن کے عوض ، سود کے عذاب میں اس قدر
پھنسا دیا کہ آ ج ایٹمی کچکول لئے ، در بدر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ماضی
میں کئے جانے والے دعوے کہ کچکول توڑ دئیے جائیں گے ، اب اس لئے نہیں توڑے
جاسکتے کیونکہ ہر حکمران کا سب سے پسندیدہ جواب یہی آتا ہے کہ یہ مسائل
انھیں ورثے میں ملے تھے ، اب یہ پاکستانی ورثہ کس کے طفیل ہمیں ملتا رہا اس
سے بھی کوئی ناواقف نہیں ہے ، کیونکہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے حکمرانوں نے
اقتدار کی کرسی کو کھیل بنایا ہوا ہے ۔ہماری معاشی پالیسیاں ہوں یا خارجہ
پالیساں ، سب کچھ درآمد کیا جاتا ہے ، پیپلز پارٹی کی اہم رہنما شہلا رضا
ہی نہیں بلکہ ملک کے سابق وزیراعظم گیلانی بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ انھوں
نے امریکہ ، برطانیہ، سعودیہ اور متحدہ امارات کے کہنے پر کیا ، کچھ نہیں
کیا۔اس اعتراف کے بعد بھی پاکستانی عوام کی آنکھیں بند ہیں اور جیئے ، سدا
جیئے کے نعرے بلند کرکے اپنی بے حسی کا ڈھنڈورا خودپیٹ رہے ہیں ۔
ملک میں انقلاب کے نام پر کیا کچھ نہیں ہوتا رہا کیا اس سے بھی کوئی ناواقف
ہے ۔، ملک خداداد پاکستان کی نوکر شاہی نے حکمرانوں کو زندہ جاوید بنانے کے
زعم میں ملک کے دارلخلافے کو ہی اٹھا کر پہاڑوں کے درمیان بسا دیا کہ جیسے
شداد نے اپنے لئے ایک ایسی جنت بسانے کی کوشش کی کہ اس کا اتنا بلند مینار
ہوگا کہ موت اسکے پاس ہی نہ آسکے ، لیکن جب اس نے دنیاوی جنت بنائی تو اس
میں اپنا دوسرا قدم نہ رکھ سکا اور موت نے آلیا ، نمرود اپنی طاقت کے زعم
میں سمجھا کہ ایسے کوئی نہیں مار سکتا ، لیکن ایک مچھر نے اسے موت کا ذائقہ
چکھنے پر مجبور کردیا ، نہ جانے ہمارے حکمران کس شداد یا نمرود کے پیروکار
ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو موت کبھی نہیں آئے گی اوریہ دنیا میں بنائے
جانے والی جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔لیکن تاریخ نے ان سب کو عبرت کو نشانہ
بنایا اور ان سب کا حشر انتہائی عبرت ناک ہوا ہے۔ لیکن ان کے پیش رو پھر
بھی ان ہی کی روش پر گامزن ہیں اور ان کے اسلوب وانداز و اطوار میں کسی طور
کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو رہی ۔پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری کے
حوالے سے میڈیا میں یہ انکشاف منکشف ہوا کہ اس بار قادری صاحب اسلام آباد
سے اتر کر سیدھے اپنے حواریوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس جاتے اور پارلیمنٹ
ہاوس پر قبضہ کرکے ایسے آگ لگا کر اپنے انقلاب کا افتتاح کرتے ، لیکن حکومت
نے حساس اداروں کی جانب سے اس راز کا افشا ہونے کے بعدانقلاب کو لاہور میں
اتار دیا ۔ بتایا یہی جاتا ہے کہ ماہ مئی میں اپنے دورہ لندن کے موقع پر دو
انتہائی با اثر شخصیات سے ملاقات کرکے پاکستان میں انقلاب کا منصوبہ بنایا
گیاتھا ، پارلیمنٹ پر ہلہ بول دینے کی پوری تیاری کی جاچکی تھی ، ہجوم کو
پہلے مشتعل کیاجاتا اور پھر پارلیمنٹ میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ ، لوٹ مارکے
بعد آگ لگا دی جاتی ، جیسے 1933ء میں نازی انقلا ب کے بانی ایڈولف ہٹلر کے
حامیوں نے جرمن پارلیمنٹ کو آگ لگا دی تھی ۔لیکن اس بروقت رپورٹ کے بعد
کمال ہوشیاری سے قادری صاحب کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے ، آخری وقت تک لاعلم
رکھا گیا اور انھیں حکومتی اعلی شخصیات یقین دلاتی رہیں کہ طیارہ اسلام
آباد ائیر پورٹ ہی اترے گا ، لیکن انقلاب کی ہوا اس وقت نکال دی گئی جب
طیارہ لاہور اتار دیا گیا ، اب قادری صاحب چیں بہ چیں ہوئے کہ ان کی جان کو
خطرہ ہے ، لاکھ بہانے تراشے ، طیارہ کو جذباتی ہائی جیک کرلیا اور گھنٹوں
تک انھوں نے اترنے سے انکار کردیا ، لیکن چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ
لندن پلٹ گورنر پنجاب بنائے جانے والے اُسی فرد کے ساتھ اپنی بنکر نما
رہائش گاہ گئے ، جن کی جماعت کے خلاف وہ" انقلاب" برپا کرنے کینڈا سے آئے
تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی انقلاب کا سندیسہ لیکر چلے ہیں،
اس لئے انھوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ اسلام آباد واپس آنے کیلئے
نہیں جا رہے ۔ ویسے بھی کون کم بخت ہے جو اسلام آباد جا کر واپس آنا چاہتا
ہے ، ورنہ پاکستان کے جتنے عوامی نام نہاد نمائندوں کو دیکھ لیں کہ جو بھی
ایوانوں میں گیا ہے ، ان کے حلقے کی عوام انھیں تلاش ہی کرتی رہتی ہے۔
عمران خان بذات خود اچھے انسان ہونگے ، لیکن یہ بھی قادری صاحب کی طرح روز
خواب بُنتے ہیں لیکن ان کی ٹوکری میں بھی گندے انڈے موجود ہیں ، اگر یہ
گندے نہ ہوتے تو کم از کم انھیں یہ تو بتا دیتے کہ جناب آئی ڈی پیز کے
زخموں پر مرہم لگانے کیلئے ، جو دعوت آپ اڑا رہے ہیں ، تو کم از کم سائیں
والی حرکت تو نہ کریں ، کیونکہ سائیں تو سائیں ہے ، سائیں کا کام بھی سائیں
سائیں ہے ۔ لیکن دنیا نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ انقلاب کے داعی آئی ڈی پیز
کے پاس جانے سے گریزاں رہے اور اُن سے کوسوں دور بیٹھ کر مرغ پلاؤ اور سیخ
کباب کھاتے رہے ، کاش وہ بھی دیکھ لیتے کہ جن انگاروں پر گوشت بھنا گیا ،
اس انگاروں پر معصوم عوام کس قدر جھلس رہے ہیں ۔ آفرین ہے پاکستان کے
بہادرسپہ سالار پر ، کہ انھوں نے چاند رات جوانوں کے ساتھ محاذ جنگ پر
گذاری اور عید کا دن بھی ، بلکہ آئی ڈی پیز کے معصوم بچوں کے ساتھ بھی گھل
مل گئے ۔
شائد پاکستانی عوام اس امپورٹڈ انقلاب کے بہلاوے میں آجائے ، کیونکہ
پاکستانی عوام میں بد قسمتی سے خوئے آزادی ہی نہیں ہے ، وہ ہر وقت خود کو
غلام رکھنا چاہتی ہے ، شاید یہ پاک و ہند کی زمین کی بود وباش کی میراث ہے
کہ یہاں کی عوام ، پہلے ہاتھ سے بنائے ہوئے پتھروں کی غلام بنی رہی ، پھر
جب ان پر جارحیت مسلط ہوئی تو مغلوں کے غلام بنے رہے ، اقلیت ، اکثریت پر
حکومت کرتی رہی ، جاگیرداروں ، سرداروں ، مَلکوں ، وڈیروں اور خوانین کی
غلام بنی رہی ، پھر دور جدید میں صنعتکاروں کی غلام بن گئی ۔ اب پاک و ہند
کی عوام کو دیکھ لیں ، دونوں ممالک قوم پرستی ، لسانیت ، مذہبی فرقہ واریت
کے غلام بنے ہوئے ہیں، ہر انسان اپنے ہی نفس کا غلام بنا ہوا ہے۔ اگر ان کے
قوم و فعل میں تضاد نہ ہوتا تو آج پارلیمنٹ کو جلائے جانے کے منصوبے بنانے
کے بجائے ، عوام کو دو وقت کی روٹی، عزت و امن کے ساتھ رہنے کے منصوبے اور
ہنودو یہود ونصاری کی غلامی سے آزاد کرانے کی کوشش کرتے ۔ |