عوام کی خواہش۔ انقلاب

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے بطور ریاست وجود میں آنے کے بعد سے آج تک عام پاکستانی کے استحقاقِ شہریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔مروجہ نظام حکومت، نظام انتخاب اور نظام عدل فقط اشرافیہ کی غالب حیثیت کا ضامن ہے۔ اشرافیہ نے روز اول سے یہاں کی آبادی کو سندھی، بلوچی، پشتون ، پنجابی اور بنگالی ثقافت کے حوالہ سے منقسم رکھا جس سے پاکستانیت بیدار نہ ہو سکی ۔ رنگ ، نقش ، نسل، کی بنیاد پر اقرباء پروری نے علاقائی تعصب پھیلایا ۔بنگالی کے ساتھ عددی اکثریت کے باوجود اقلیت جیسا سلوک ہوا۔ نتیجہ تقسیمِ پاکستان کی صورت میں نکلا۔ بنگلادیش کے قیام کی تقلید میں بلوچ، پشتون اور سندھی کارڈ متعارف ہوئے۔چھوٹے صوبوں کے سیاستدانوں نے تعصب کے سبب بڑے صوبہ پنجاب میں کالا باغ ڈیم کو مسترد کیا۔ قومی خزانہ اشرافیہ کے لیئے بھرا جبکہ عام پاکستانی کے لیئے ہمیشہ خالی رہا ہے۔ سرمایا،کرپشن اور طاقت کی سیاست سے جمہوریت کے نام پر خاندانی شہنشاہیت نے فروغ پایا۔ مارشل لاء ہو یاآپریشن ضرب عضب فوج کے حمائتی حلقوں میں بغض معاویہ غالب تھا۔

مغربی پاکستان کو چار صوبوں پر مشتمل پاکستان میں بدل کر جو آئین عطاء کیا گیا۔وہ اشرافیہ کے لیئے موثر جبکہ عام پاکستانیوں کے لیئے معطل ہے۔یومیہ اجرت پر پیٹ پالنے والاہو یا ماہوار اجرت پر غلام بننے والا گھریلو ملازم کوئی بھی سوشل سکیورٹی، پنشن یا اولڈ ایج بینیفٹ کا حقدار نہیں۔روزانہ کی بنیاد پر اشیاء خوردونوش خریدنے والے مزدورکو موسمی شدت یاہڑتال کے سبب ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں۔ ہاتھ پاؤں سے محروم اپاہج ہو یا ذہنی معذور۔نابالغ، ضعیف العمراور بے روزگار سبھی سیلز ٹیکس کی مد میں ٹیکس دہندہ ہیں جبکہ بدلہ میں ریاست نے کبھی بھی اس طبقہ کی خدمت نہیں کی۔اصول یہ ہے کہ ریاست بتدریج عوام کو تعلیم، صحت، خوراک، رہائش، سفر، عدل و تحفظ جیسی سہولیات کی مفت فراہمی کا بندوبست کرے مگر یہاں گنگا الٹی جانب بہہ رہی ہے۔ریاست اشرافیہ کی مفت خدمات میں مصروف ہے جبکہ عام پاکستانی کو ہر سہولت خریدنا پڑتی ہے۔ریاستی اداروں میں ملازمت کے حصول مقصد خدمات نہیں بلکہ لوٹ مار بن چکا۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کمیشن کی خاطر کی جانے والی تعمیرات کو ترقی اور خاندانی شہنشاہیت کو جمہوریت جبکہ حقوق کیلیئے احتجاج کو دہشتگردی سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے ذاتی مفادات حاصل کرنے والے حکمرانوں سے لیکر اپوزیشن جماعتوں پر قابض اشرافیہ تک کوئی بھی غلام پاکستانیوں میں مقبول نہیں۔ مذہبی جماعتیں اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پیش کرتی ہیں مگر گروہی برتری کی ہوس وہاں بھی غالب ہے۔عوامی صفوں میں انقلاب کاشدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔میری رائے میں انقلاب نہیں انقلابی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم مغلوب آبادی کو پہلے سے میدان میں اتار چکی ہے۔ پشتون ،بلوچ آبادی جنگی مزاج کے سبب انقلابی تحریک کے استقبال کو تیارہے۔ پنجابی آبادی ملازم مزاج کے سبب پہلے سرمایہ دانہ سیاست کی طاقت تھی مگر اب خاندانی شہنشاہیت سے ناراض ہے۔دیوبندی پہلے سے مزاہمت کا عادی ہے جبکہ مزاہمت شیعہ کے نزدیک حسینیت ہے۔ اہلحدیث کی تاریخ تو مزاہمت سے بھی پڑی ہے۔۔اب توقادری صاحب نے بریلوی کوسینہ پر گولی کھانے پر آمادہ کر کے انقلابی تحریک میں شدت پیدا کر دی ہے ۔ ظلم کے خلاف مزاہمت انقلاب کی بنیاد ہے۔ہر جانب مزاہمت عام ہو چکی ہے اس لیئے انقلاب کو اب آنا ہی ہو گا۔

Rafique Ahmed Bajwa
About the Author: Rafique Ahmed Bajwa Read More Articles by Rafique Ahmed Bajwa: 31 Articles with 23467 views Residing at home town CHawinda, Pro Islam, believe in Ideological politics, Published Sdaeaam weekly Sialkot, Convener of Tehreek e Insidad Istehsal. .. View More